Chacha Sheikhi Baaz - Article No. 1519

Chacha Sheikhi Baaz

چچا شیخی باز - تحریر نمبر 1519

چچا شیخی باز بڑی من موجی طبیعت کے مالک تھے۔بڑے تو بڑے ،بچے بھی ان کے کم دیوانے نہ تھے۔چچا کے ڈیرے پر خوب رونق ہوتی۔وہ طرح طرح کی کہانیاں سنا کر انھیں ہنساتے تھے۔

جمعہ 13 ستمبر 2019

حبیب اشرف صبوحی
چچا شیخی باز بڑی من موجی طبیعت کے مالک تھے۔بڑے تو بڑے ،بچے بھی ان کے کم دیوانے نہ تھے۔چچا کے ڈیرے پر خوب رونق ہوتی۔وہ طرح طرح کی کہانیاں سنا کر انھیں ہنساتے تھے۔
ایک شام میں ،گڈو،منو ،ثمینہ ،کمال اور یوسف سب چچا کے گرد جمع تھے۔انھوں نے اپنے اردگرد بیٹھے بچوں کو مسکراکر دیکھا اور بولی:”دیکھو بچو!میں یہ قصے اس شرط پر سناؤں گا کہ قصہ پورا ہونے سے پہلے کوئی بچہ سوال نہیں کرے گا!“
سب بچوں نے گردن ہلا کر حامی بھر لی۔


چچا نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہنا شروع کیا:”بچو!ہر عظیم کھلاڑی کی طرح میرا بھی بچپن گزرا ہے۔خدا جھوٹ نہ بلوائے۔چار ماہ ،تین دن ،دو گھنٹے ،بیالیس منٹ اور بیس سیکنڈ کی عمر سے ہی میں نے کرکٹ کھیلنی شروع کر دی تھی۔

(جاری ہے)

گیارہ سال کی عمر تک اس کھیل میں بڑی مہارت حاصل کرلی تھی اور میرے کھیل کی شہرت اپنے محلے،شہر ،ملک کی گلیوں ،میدانوں سے ہوتی ہوئی ساری دنیا میں پھیل گئی تھی۔

کرکٹ کے شائقین میرا کھیل دیکھنے کے لیے لاہور آنے لگے۔
اس چھوٹی سی عمر میں مجھے اتنے آٹو گراف دینے پڑتے تھے کہ رات کو نیم گرم پانی میں چٹکی بھر نمک ڈال کر اُنگلیوں کی سینکائی کرنی پڑتی تھی۔
ادھرمیں گلیوں میں کرکٹ کے یہ گل کھلا رہا تھا،اُدھر قومی کرکٹ ٹیم تشکیل دی جارہی تھی۔بیرون ملک دورے میں میچ کے لیے سلیکشن کمیٹی اپنے طور پر کھلاڑیوں کو نامزد کررہی تھی ،مگر اس بات پر سبھی متفق تھے کہ ٹیم کے کیپٹن کی حیثیت سے مجھے ہی نامزد کیا جائے، مگر جب ٹیم کا اعلان ہوا تو سبھی کے منھ حیرت سے کھلے رہ گئے کہ پوری ٹیم کے طور پرمیرے ہی نام کا اعلان ہوا۔
اُدھر جب اس ایک رکنی ٹیم کا اعلان ہوا تو
میز بان ٹیم کے کیپٹن نے یہ کہہ کر کھیلنے سے انکار کر دیا کہ ہم ایک رکنی ٹیم سے بھلا کیا میچ کھیلیں گے۔اتنے بڑے ملک میں صرف ایک ہی شخص کرکٹ کا کھلاڑی ہے!!
اس کے جواب میں ہمارے سلیکشن بورڈ نے کہا کہ ہمارا ایک ہی کھلاڑی آپ کی پوری ٹیم کے لیے کافی ہے ۔ہمت ہے تو آپ کی ٹیم ہمارے اس واحد کھلاڑی کا مقابلہ کرکے دکھائے ۔
میز بان ٹیم نے اس چیلنج کو قبول کر لیا۔مقابلے کے لیے بمبئی کا اسٹیڈیم منتخب ہوا۔پاکستان کی ٹیم کا یہ ایک کھلاڑی میچ کھیلنے کے لیے اسٹیڈیم پہنچا۔اس انوکھے میچ کو دیکھنے کے لیے پورا شہر اُمڈ آیا۔اسٹیڈیم میں تل دھرنے کو بھی جگہ نہ رہی۔
میز بان ٹیم نے ٹاس کرکے بڑی شان سے مجھے بیٹنگ کی دعوت دی اور میں ہوا میں بیٹ لہراتا ہوا میدان میں داخل ہو کر وکٹ پر کھڑا ہوگیا۔
ہر گیند اپنی مرضی سے کھیلی ۔موڈ ہوا تو چوکا چھکا مار دیا۔دل چاہا تو ایک رن پر ہی اکتفا کیا۔
مخالف ٹیم نے اپنے تمام تجربے کا رباؤلرز ایک ایک کرکے میدان میں اُتارے ،مگر سبھی مجھے آؤٹ کرنے سے محروم رہے۔دو ڈھائی گھنٹے میں اچھا خاصا اسکور ہو گیا ،مگر میں نے لنچ کے وقفے تک پانچ سور نز بنا کر نا ٹ آؤٹ رہتے ہوئے انھیں کھیلنے کی دعوت دی۔
لنچ کے بعد میز بان ٹیم بیٹنگ کے لیے میدان میں اُتری ۔اس کے کھلاڑی سہمے سے لگ رہے تھے،مبصرین کے خیال میں تنہا باؤ لنگ کرانا اور ساتھ ساتھ فیلڈنگ کرنانا ممکن ہے ،مگر میں نے مسکراتے ہوئے باؤلنگ شروع کرائی۔ہر گیند پر ایک کھلاڑی آؤٹ ہوجاتا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے دس گیند پر پوری ٹیم بغیرکوئی رن بنائے زیروپر آؤٹ ہو گئی۔سچ بچو!اس میچ سے کرکٹ کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ برطانیہ کے وزیر اعظم تک یہ میچ دیکھنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ہر گیند پر ایک بلے باز کو آؤٹ کرکے میں نے انھیں حیرت کے سمندرمیں ڈال دیا۔ دوسرے تماشائی مارے حیرت کے اپنی سیٹوں سے اُٹھ کر گھر جانابھول گئے ۔پھر وہاں کے ایک لارڈ کو میچ کے اس عبرت ناک نتیجے پر بڑی شرم سی آئی،مگر وہ جھینپ مٹانے کو
بولا:”ارے میاں!ایک گیند پر ایک کھلاڑی آؤٹ کرنا کوئی بڑی بات نہیں،کارنامہ تو تب ہوگا،جب تم ایک گیند سے دو کھلاڑی آؤٹ کرکے دکھاؤ۔

میں بھلا کوئی معمولی کھلاڑی تو نہیں تھا جو کنی کترا جاتا۔بس آگیا ترنگ میں۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً ہی یہ کار نامہ دکھانے کا فیصلہ کرلیا۔
اتنا کہہ کر چچا نے برے فخر یہ انداز میں سارے بچوں پر نظر ڈالی اور پھر آگے کہنا شروع کیا:”ملک کے دو نامور بلے باز میدان میں آئے اور وکٹ پر پہنچ کر اپنی سائڈ پر کھڑے ہو گئے۔لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر میں نے باؤلنگ کرانے کا فیصلہ کر لیا۔
اس کے بعد اسٹیڈیم میں موجود شائقین نے دیکھا کہ میں نے بڑے طوفانی انداز سے بولنگ کا آغاز کیا۔دوڑتے اور مقررہ جگہ پہنچ کر عجیب وغریب انداز میں ہاتھ گھماتے ہوئے گیند کرائی ۔گیند کسی توپ کے گولے کی طرح دند ناتی ہوئی سامنے کی وکٹوں کو اُکھار کرواپس پلٹی اور دوسرے سرے کی وکٹ سے ٹکرا کر میرے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ایمپائر نے دونوں ہاتھ اُٹھالیے،جس کا مطلب تھا کہ دونوں کھلاڑی آؤٹ ہو چکے ہیں۔

ہم سب بچے بڑی دیر سے ہنسی برداشت کررہے تھے ،مگر ثمینہ کی ہنسی آخر اُبل پڑی۔وہ بڑی مشکل سے قہقہہ روکتی ہوئی بولی:”ایسے کیسے ہو سکتا ہے چچا! آپ کو تو کرکٹ کے قواعد کا بھی علم نہیں۔“
ہم سب کی آنکھیں اس کی حمایت کرنے لگیں ،مگر چچا شیخی باز بھلا کہاں چونکنے والے تھے ،اپنی گول گول آنکھیں دکھا کربولے :”تم سے کسی نے کہا تھا درمیان میں بولنے کو ۔
یہ تو معاہدے کی خلاف ورزی ہے ۔میں قصہ آگے سنانے کا حق محفوظ رکھتا ہوں ،مگر چوں کہ یہ پہلی غلطی ہے ،اس لیے معاف کیے دتیا ہوں۔آیندہ خیال رہے۔“
یہ کہہ کر انھوں نے آگے سنانا شروع کر دیا:”میرے اس کار نامے پر سارے تماشائی پورے 14منٹ 59سیکنڈ تک کھڑے ہو کر پرجوش تالیاں بجاتے رہے ،مگر وہ لارڈ خوش نہ ہوئے ۔وہ میرا مزید امتحان لینا چاہتے تھے ۔
انھوں نے کہا :”مسٹر !اگر تم ہم کو ایک بال پر تین وکٹیں لے کر دکھاؤ تو ہم تمھیں مان جائیں گے۔“
میرے لیے یہ کون سی بڑی بات تھی ، فوراً تیار ہو گیا۔لارڈ صاحب نے تین بہترین بیٹسمین ہماری گیند کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں بھجوائے۔
میں نے پہلے کی طرح پیچھے ہٹ کر طوفانی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنی جگہ آکر گیند کرادی۔
گیند میرے ہاتھ سے اس طرح نکلی جیسے بندوق سے گولی،اور زن زناتی ہوئی دونوں وکٹوں کو گراتی ہوئی اس طرف پلٹی ،جس طرح پہلی وکٹ گرنے پر تیسرا کھلاڑی آن کھڑا ہوا تھا۔
اس نے بڑے نپے تُلے انداز میں گیند کو کھیلا اور شان دار چوکا لگایا، مگرصاحب!میں بھلا اسے چو کا کیوں کر نے دیتا فوراً لپکا اور اسے زمین پر گرنے سے پہلے ہی کیچ کر لیا۔میں نے دیکھا کہ ایمپائر تینوں کھلاڑیوں کو آؤٹ ہونے کا اشارہ کر رہا تھا۔اس بار فردوس چپ نہ رہ سکی اور مسکراتے ہوئے بولی:”چچا!آپ کے دور میں تین ہاتھوں والے ایمپائرہوا کرتے تھے؟“
اتناکہنے کی دیر تھی کہ چچا شیخی باز غصے سے چیخ کر بولے:”بس بس اب آگے قصہ نہیں سناؤں گا۔
تم لوگ اس قابل نہیں کہ تمہیں اپنی زندگی کے سچے واقعات سنائے جائیں ۔تم وہی جنوں اور پریوں کے جھوٹے قصے پسندکرو گے،وہی سنو گے۔“یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ہوئے اپنی کھولی میں جاکر بند ہو گئے۔
بچے باہر کھڑے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آج چچا کی شیخی شان دار رہی۔

Browse More Moral Stories