Chiyunti Aur Bhir - Pehla Hissa - Article No. 2105

Chiyunti Aur Bhir - Pehla Hissa

چیونٹی اور بھڑ (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2105

تمہارا اپنا رنگ ہے ہمارا اپنا ڈھنگ

جمعرات 4 نومبر 2021

ڈاکٹر تحسین فراقی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ چیونٹیوں نے ایک ویران گھر کے کھنڈر میں اپنا گھروندا بنا لیا۔وہ ایک مدت سے یہاں رہ رہی تھیں۔ایک روز چندتند،سرخی مائل بھڑیں بھی وہاں آ پہنچیں اور انہوں نے اسی ویران گھر کی دیوار میں اپنا چھتا بنا لیا۔چیونٹیاں اور بھڑیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھیں۔یوں اس ڈھنڈار میں باپ،مائیں،ان کے بچے بچیاں،نواسے،نواسیاں،پوتے پوتیاں اور پرنواسے،پرنواسیاں ایک وسیع اور تہ در تہ گھر میں زندگی بسر کر رہے تھے اور جیسا کہ ان کا معمول ہے،وہ گرمیوں کے دنوں میں باغوں،صحراؤں اور کونوں کھدروں میں پھیل جاتیں اور صبح سے رات تک دانہ دنکا اکٹھا کرتیں،اپنے ذخیرے کو بھرتی جاتیں اور سردیوں کے دنوں میں مزے سے زندگی گزارتیں۔

(جاری ہے)


ایک دن بزرگ دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر نگاہ کر رہی تھی۔کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیونٹی خشک توت کو دانتوں میں تھامے اسے اپنے گھروندے تک لے جانا چاہتی ہے مگر چونکہ کمزور ہے،نیچے آرہی ہے۔اب وہ دانے کو اپنے دانتوں میں دابے دیوار کی بلندی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ابھی وہ آدھے رستے تک بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ خشک توت اس کے منہ سے پھر کر گر گیا۔
چند بار ایسا ہی ہوا کہ بیچاری چیونٹی اسے زمین سے اُٹھاتی، آدھی راہ طے کرتی اور وہ زمین پر آ رہتا۔آخر کار ایک بار وہ دانے کو دیوار کے آخر تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔اب اس نے دانہ لب بام رکھا اور اس کے پہلو میں کھڑی ہو گئی۔
تھکن سے چور اس نے لمبا سانس لیا اور بولی:ہائے افسوس،میرے مولا،میں تو تھکن سے نڈھال ہو گئی۔بزرگ بھڑ جو چیونٹی کے صبر اور حوصلے پر حیران تھی،اپنی جگہ سے اُڑی اور چیونٹی کے پاس آ بیٹھی اور کہنے لگی:معاف کرنا،یہ تو تمہیں یقینا معلوم ہو گا کہ ہم ہمسائے ہیں اور اسی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتے ہیں چیونٹی بولی،ہاں ہاں مجھے معلوم ہے،آپ کا شکریہ۔
اصل میں ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جتا ہوا ہے۔بھڑ بولی:بے شک زندگی ہے تو یہ سب کچھ ہے مگر یہ کیا کام ہوا کہ تم چیونٹیاں کرتی رہتی ہو؟“کون سا کام“؟چیونٹی بولی،آخر ہم کیا کام کرتی رہتی ہیں کہ تمہیں عجیب لگا“؟
بھڑ بولی:بالکل بیکار،تمہارا کام یہی تو ہے کہ سارا سال یہاں وہاں سے کھانے کے لئے دانے اکٹھا کرتی ہو اور بڑی دقت سے انہیں کھینچ کھانچ کر اپنے گھروندے میں لے جاتی ہو اور وہاں ذخیرہ کر لیتی ہو۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ننھے سے پیٹ کے لئے تم کس قدر حرص اور لالچ سے کام لیتی ہو!
چیونٹی بولی!مجھے نہیں معلوم تم کہنا کیا چاہتی ہو۔کیا اس کام کے سوا،جو ہم کرتی ہیں،کوئی اور کام بھی ہے؟ہم گرمیوں کے پورے موسم میں کام میں جتی رہتی ہیں اور سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر میں نیند لیتی ہیں اور اپنے جمع شدہ غلے کو کام میں لاتی ہیں۔ایسے میں تمہارا طرز عمل کیا ہوتا ہے؟
بھڑ نے کہا:ہم کبھی دانے کھینچنے اور انہیں ذخیرہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔
ہم گرمیوں کے موسم میں بہترین خوراک کھاتے ہیں اور اس قدر کھاتے ہیں کہ سارے موسم سرما میں سیر رہتے ہیں اور سوئے رہتے ہیں حتیٰ کہ دوبارہ گرمیوں کا موسم آ جاتا ہے!
چیونٹی بولی،بہت خوب،تمہارا اپنا رنگ ہے ہمارا اپنا ڈھنگ۔سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور راہ و رسم ہے۔تم لوگ تکلیف نہیں اُٹھاتے،لوگوں کا مال کھاتے ہو اور لوگ تمہارے ہاتھوں تنگ ہیں۔
ہر کوئی تمہیں برا بھلا کہتا ہے لیکن ہمارا رزق حلال ہے، صحراؤں میں گرے پڑے دانے،گری پڑی شکر اور حیوانوں اور پرندوں کی بچی کھچی خوراک۔ہمیں لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر نے بھی ہماری تعریف میں شعر کہا ہے:
دانہ کش چیونٹی کو مت ستا مرے بھائی
وہ بھی جان رکھتی ہے اور جان ہے پیاری
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories