Choti Si Qeemat - Article No. 1174

Choti Si Qeemat

چھوٹی سی قیمت - تحریر نمبر 1174

عاکف روز صبح سیر کو جاتا تو راستے میں ایک چھوٹی سی مسجد پڑتی۔ وہاں سے فجر کی ازان اس قدر خوب صورت آواز میں بلند ہوتی کہ اس کے قدم خود بخود اس طرف بڑھ جاتے۔

پیر 3 ستمبر 2018

عاکف روز صبح سیر کو جاتا تو راستے میں ایک چھوٹی سی مسجد پڑتی۔ وہاں سے فجر کی ازان اس قدر خوب صورت آواز میں بلند ہوتی کہ اس کے قدم خود بخود اس طرف بڑھ جاتے۔ سامنے زینہ تھا، وہ اوپر چڑھ جاتا۔ نماز کے بعد تھوڑی دیر وہ مولوی شمس الدین صاحب کے پاس ضرور بیٹھتا اور ان کی خوبصورت آواز میں اچھی اچھی باتیں سنتا۔ اس کے گلے پر ایک گہرے زخم کا نشان تھا۔

جاڑوں میں اکثر وہ اسے اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پلاتے۔ ان کا کمرہ مسجد سے ملا ہوا تھا۔ اسی میں چولھا رکھا تھا۔ عاکف کہتا کہ مولوی صاحب، مجھے چائے بنانے دیں، مگر وہ ضعیف ہونے کے باوجود بھی اپنا اور مسجد کا کام خود ہی کرتے۔ مسجد کا فرش خود دھوتے تھے۔ اپنی قلیل آمدنی میں وہ دوسروں کی خدمت کر کے خوش ہوتے۔ اگر کوئی ان کے لئے تحفہ وغیرہ لے جاتا تو وہ یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ میں نے بڑی مشکل سے اپنی ضروریات کو کم کیا ہے، آپ ان کو بڑھا کر مجھے مصیبت میں مبتلا نہ کریں کہ مجھے بہت زحمت ہوگی۔

(جاری ہے)


ایک دن عاکف نے جھجکتے ہوئے ان کے گلے پر زخم کے باے میں سوال کر ہی لیا: ”مولوی صاحب!اگر آپ کچھ خیال نہ کریں تو یہ بتایئے کہ آپ کے گلے پر چوٹ کا نشان کیسا ہے؟“
”بھئی کیوں نہیں۔ شوق سے سنو! یہ اس وقت کی بات ہے، جب آزادی کی جد و جہد جاری تھی، یعنی پاکستان کے حصول کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ اس وقت میں بیس برس کا تھااور میں نے بی اے کر لیا تھا۔

یہ سن کر عاکف کو بڑی حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب بے اے کر چکے تھے۔
”ان دنوں میں ہر اس کام میں آگے آگے ہوتا، جو پاکستان بننے کے سلسلے میں کیا جاتا۔ پھر وہ وقت آیا کہ پاکستان بن گیا۔ کبھی کبھی میرا دل چاہتا کہ پَر لگا کر پاکستان پہنچ جاؤں، لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا۔ ہمارے گاؤں میں رہنے والے کافروں نے کہہ دیا تھا کہ ہم تمھاری لاشیں پاکستان پہنچائیں گے۔
میں مسلم لیک کے لیے کام کرتا تھا۔ مجھے اپنی جان کو تو قطعی پروا نہ تھی ، البتہ اپنے والدین چھوٹے بھائی بہن کی فکر لاحق تھی، مگر ہوتا وہی ہے جو مقدر میں لکھاہوتا ہے۔ “ اتنا کہہ کر وہ تھوڑی دیر سر جھکائے بیٹھے رہے۔
مولوی صاحب دوبارہ بولے: ” میرے والدین وہاں کے اچھے خاصے بڑے زمینداروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ بڑے رقبے پر ہمارا گھر پھیلا ہوا تھا، لیکن ہمیں پاکستان کے مقابلے میں زمین یا گھر یا اس میں سجے ہوئے سامان کی قطعاََ پرواہ نہیں تھی، مگر شاید ہماری نگرانی ہو رہی تھی۔
گاؤں سے نکلنا تو درکنا ر سوداسلف کے لئے گھر سے نکلنا بھی دشوار تھا۔ مسلمانوں کے گھر خالی ہو رہے تھے، مگر ہم بے بس تھے۔ ہمارے گھر پر غنڈے باقاعدہ چکر کاٹتے رہتے، جن کے پاس چھرے اور پستول کپڑوں میں چھپے ہوتے۔تمہیں کیاں تک سناؤں، یہ ایک لمبی داستان ہے کہ ہم کیسے نکلے۔ یہی طے کیا کہ فلاں وقت رات کو نکلیں گے۔ کاش ، وہ رات اندھیری ہوتی، مگر اس رات چاند اپنی پوری آب و تاب سے نکلاتھا۔
حال آنکہ ہم نے حلیہ بدل لیے تھے، مگر دشمن ہوشیار اور سفّاک تھا۔ اس نے پہلے تو کوئی مزاحمت نہ کی، جس سے ہمارے حوصلے بلند ہوئے اور ہم سرحد کی جانب بڑھنے لگے۔ہمارا ایک پاؤں پاکستانک کی سرحد کے اندر تھا اور ایک پاؤں باہر کہ انھوں نے اچانک حملہ کردیا۔ پاکستان کی سرحد کے نزدیک ہی میرے والد، چھوٹے بھائی اور بہن نے دم توڑ دیا۔ میں بھی شدید زخمی ہوا۔
کافر مجھے اور والدہ کو مردہ سمجھ کر واپس چلے گئے۔ والدہ نے مرتے وقت صرف اتنا پوچھا :”بیٹا!یہ زمین پاکستان کی ہے؟“
میرا جواب ہاں میں سن کر انھوں ے کلمہ پڑھا اور دم توڑ دیا۔ میرے گلے پر گہرا زخم آیا ، مگر عاکف میاں!کچھ احساس نہ تھا۔ سوئے اس کے کہ ہم اپنی سرحد میں داخل ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں داخل ہو کر میں نے سجدہ کیا اور بے ہوش ہو گیا۔
اتفاق سے کسی رضا کار نے دیکھ لیا۔ پانچ ماہ اسپتال میں رہا اور اس کے بعد سے اس مسجد میں ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ زمینوں کی درخواست دوں، کلیم بنواؤں۔ میں نے انکار کر دیا۔ اس جھنجٹ سے کیا فائدہ!اس کے بدلے اگر میں خدا بندوں کو نماز پڑھا دیتا ہوں اور غریب بچوں میں مفت علم بانٹ دیتا ہوں تو سمجھومیں نے پاکستان کی خدمت کی۔ باقی مسجد کی انتظامیہ مجھ کو کچھ ماہانہ دے دیتی ہے ، جس سے میرا اچھا گزر بسر ہو جاتا ہے۔
میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ بیٹا!بات یہ ہے کہ آزادی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی اور جب ہوجائے تو اس کی جان سے بڑھ کر حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ آزادی کے لئے لوگوں کی قربانیوں کا کوئی شمار نہیں۔ یہ تو ایک چھوٹی سی قیمت تھی، جو میں نے ادا کر دی اور یہی میں اپنے شاگردوں کو سمجھاتا ہوں کہ آزادی کیا ہے،ملک کی سالمیت اور بقا کی کیا اہمیت ہے۔ اگر وہ بڑے ہو کر یہ سمجھ جائیں تو سمجھو آزاد ہیں، ورنہ وہ ذہنی طور پر غلام کے غلام رہیں گے۔ “

Browse More Moral Stories