Darakhat Aur Mahool - Article No. 1885

Darakhat Aur Mahool

درخت اور ماحول - تحریر نمبر 1885

زمین سے اُگنے والے پیڑ پودے دنیا میں انسان کے آنے سے پہلے ہی موجود تھے

جمعہ 29 جنوری 2021

سلیم فرخی
حریم کے والدین ملازمت پیشہ تھے۔اس کا ننھیال قریب تھا،اس لئے وہ اپنے نانا نانی کے گھر رہتی تھی۔وہیں قریبی اسکول میں وہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔حریم کے نانا تعلیم یافتہ انسان تھے۔ایک دن انھوں نے حریم کو پریشان سا دیکھا تو اس سے پوچھا:”آج تم چپ چاپ ایک طرف بیٹھی ہو،کیا بات ہے؟“
”نانا ابو!مس نے مجھے پودوں کے بارے میں پڑھایا ہے۔
وہ نوٹس مجھے نہیں مل رہے ہیں اور اب مجھے پودوں کے بارے میں مضمون لکھنے کے لئے کہا گیا ہے۔“حریم نے نانا کو پوری بات بتا دی۔
”بس اتنی سی بات ہے۔شام کی چائے کے بعد میرے پاس آنا،میں تمہیں سمجھا دوں گا۔“نانا نے اسے تسلی دی۔
شام کو حریم کاغذ قلم لے کر نانا ابو کے پاس آئی اور پوچھا:”نانا ابو!درخت اور پودے وغیرہ ہوتے کیا ہیں؟“
نانا ابو نے چشمہ اُتار کر اخبار ایک طرف رکھا اور بولے:”زمین سے اُگنے والے پیڑ پودے دنیا میں انسان کے آنے سے پہلے ہی موجود تھے۔

(جاری ہے)

ماہرین نباتات کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ 60 کروڑ برس پہلے پودوں کی کچھ سادہ اقسام نے پانی سے نکل کر خشکی پر جڑیں پکڑ لی تھیں۔40 کروڑ سال پہلے پودوں کی اونچائی 30 سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔یہ ایک زندہ مخلوق ہے اور ان کا جسم بھی دوسرے جانداروں کی طرح خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ اپنی نشوونما خود کرتے ہیں۔ان کے خلیات میں بھی زندگی کا مادہ پروٹوپلازم (Protoplasm) ہوتا ہے۔
پودے سانس بھی لیتے ہیں اور اپنی خوراک بھی تیار کرتے ہیں۔“
”پودے سانس کیسے لیتے ہیں،نانا ابو!ان کے تو پھیپھڑے ہی نہیں ہوتے۔“
حریم نے اچانک سوال کیا۔
”پودوں میں سانس لینے کا عمل دوسرے حیوانات سے بالکل الگ ہوتا ہے۔یہ پتوں کے ذریعے سانس لیتے ہیں۔حیوانات کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن (Oxygen) کی ضرورت ہے۔وہ آکسیجن لے کر کاربن ڈائی آکسائیڈ (Carbon Dioxide) پیدا کرتے ہیں، جب کہ پودے دن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں۔
یعنی پودے اور حیوان(اس میں انسان بھی شامل ہے)ایک دوسرے کے لئے اہم ہیں۔“
”نانا ابو!شاید اسی لئے ہمیں بتایا جاتا ہے اور حکومت بھی زور دیتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت اُگائے جائیں،تاکہ ہمیں صاف آکسیجن ملتی رہے۔“
نانا ابو نے کہا:”ہاں،اور یہ آکسیجن لے کر ہم جو کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے پھیپھڑوں سے خارج کرتے ہیں،درخت اسے جذب کر لیتے ہیں۔

”ایک ننھے سے بیج سے اتنا بڑا پودا کیسے بن جاتا ہے نانا ابو!کتنی حیرت کی بات ہے نا؟“حریم نے حیران ہو کر پوچھا۔
”یہ اللہ کی قدرت ہے بیٹی!ایک بیج سے پیڑ پودوں کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے،لیکن یہ بیج اس وقت تک بے کار ہے جب تک اسے مناسب مقدار میں پانی اور حسب ضرورت سورج سے حرارت نہ ملے۔اس کے علاوہ بیج کی نمو عام طور پر تاریکی میں بہتر طور پر ہوتی ہے۔
بیج اپنے مخصوص درجہ حرارت سے پھوٹتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ موسم سرما اور موسم گرما کی فصلیں (پھل،سبزیاں وغیرہ)الگ ہوتی ہیں۔“
”نانا ابو!ایک بار مس نے بتایا تھا کہ پیڑ پودے ماحول کو صاف رکھتے ہیں،یعنی آلودگی سے بچاتے ہیں۔“حریم نے بتایا۔
”ہاں،آج کے دور میں انسان آلودگی کے خوف سے پریشان ہے۔یہ عالمی مسئلہ ہے،لیکن انسان کا اپنا پیدا کردہ ہے۔
لکڑی اور رہائشی جگہ حاصل کرنے کے لئے تیزی سے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں،اس لئے فضا میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے،جس سے فضائی توازن بگڑ رہا ہے۔درخت جس عمل سے اپنی خوراک تیار کرتے اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں اسے ”ضیائی تالیف“ (Photosynthesis) کہا جاتا ہے۔ضیائی تالیف کا مطلب سورج کی روشنی کو خوراک میں تبدیل کرنا ہے اور یہ کام صرف پیڑ پودے ہی کر سکتے ہیں،اس عمل کے لئے چار چیزوں کو ضرورت ہوتی ہے یعنی پانی،کاربن ڈائی آکسائیڈ،سورج کی روشنی اور پیڑوں میں پایا جانے والا ”سبزینہ“(ان کے نمایاں سبزرنگ کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہے)جسے کلوروفل(Chlorophyll) بھی کہا جاتا ہے۔

”نانا ابو!کچھ ایسی باتیں بھی تو بتایئے،جو کچھ انوکھی سی ہوں؟“
نانا ابو بولے:”ارے ہاں،پودوں سے متعلق دلچسپ اور حیرت انگیز باتیں بتانا تو بھول ہی گیا۔مزے کی بات یہ ہے کہ پیڑ پودے ماحول کے درجہ حرات کو محسوس کرکے رد عمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔موسم کو خوب پہچانتے ہیں۔صحرا میں پانی کی کمی ہوتی ہے اس لئے کچھ پودے پانی کو جذب کرکے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔
ان میں وقت کی پیمائش کا نظام بھی ہوتا ہے۔کچھ پودوں کے پتے چھونے سے گول ہو کر بند ہو جاتے ہیں۔کچھ پودے اپنے اوپر بیٹھنے والے کیڑے مکوڑوں کو پکڑ کر کھا جاتے ہیں۔دنیا بھر میں درختوں کی تقریباً چالیس ہزار قسمیں پائی جاتی ہیں۔“
حریم نے پوچھا:”دنیا میں کچھ ایسے درخت بھی ہوں گے جو عجیب،دلچسپ ہونے کی وجہ سے مشہور ہوں۔“
نانا ابو نے بتایا:”ایک مشہور درخت آسٹریلیا کا یوکلپٹس (Eucalyptus) ہے،جس کی اونچائی 114 میٹر ہے یعنی 38 منزلہ عمارت کے برابر۔
اس کے علاوہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک درخت کا تنا اس قدر چوڑا ہے کہ اسے تراش کر درمیان سے ایک سڑک گزاری جا سکتی ہے۔ایک اور امریکی ریاست ایریزونا میں قدیم ترین نوکیلے پتوں والا صنوبر کا درخت ہے جو چار ہزار چھے سو سال پرانا ہے۔قطب جنوبی میں پائے جانے والے لیچن (Lichen) نامی درختوں کی عمر دس ہزار سال کے قریب ہے۔“
حریم نے کہا:”نانا ابو!آپ نے میرا یہ اہم مسئلہ حل کر دیا ہے۔میں نے یہ ساری باتیں لکھ لی ہیں۔لگتا ہے،اسکول میں میرا مضمون مس کو ضرور پسند آئے گا۔شکریہ۔“
نانا ابو نے اخبار پڑھنے کے لئے چشمہ لگاتے ہوئے کہا:”ضرور ضرور ان شاء اللہ۔“

Browse More Moral Stories