DASTAK - Article No. 1225

DASTAK

دستک - تحریر نمبر 1225

ڈاکٹر زیدی اپنے بستر پر بیٹھے تھے ۔ان کے چہرے پر نقاہت تھی ۔ان کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی ۔میز پر بہت سی دوائیں رکھی تھیں ۔ان کی بیگم بھی ساتھ بیٹھی کوئی رسالہ دیکھ رہی تھیں ۔اچانک ڈاکٹر صاحب نے کہا:”دستک سنی ؟“

جمعہ 9 نومبر 2018

ڈاکٹر زیدی اپنے بستر پر بیٹھے تھے ۔ان کے چہرے پر نقاہت تھی ۔ان کی عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی ۔میز پر بہت سی دوائیں رکھی تھیں ۔ان کی بیگم بھی ساتھ بیٹھی کوئی رسالہ دیکھ رہی تھیں ۔اچانک ڈاکٹر صاحب نے کہا:”دستک سنی ؟“
بیگم نے نفی میں گردن ہلائی ،مگر ڈاکٹر صاحب کو مسلسل دستک کی آواز سنائی دیتی رہی ۔انھوں نے بیگم کو زبردستی دروازے تک جانے کے لیے کہا۔

بیگم پہلے تو ٹال مٹول کرتی رہیں ،پھر تنگ آکر دروازے پر گئیں ۔وہاں کوئی نہیں تھا ،مگر ڈاکٹر صاحب اب بھی دروازے پر دستک ہونے پر زور دیتے رہے ۔بیگم زیدی نے کہا:”جب ڈاکٹر برہان آئیں گے تو میں ان کو آپ کے اس وہم کے بارے میں بتاؤں گی۔“
کچھ دیر بعد دروازے پر گھنٹی بجی۔ڈاکٹر زیدی نے کہا:”اب تو آیا ہے کوئی ۔

(جاری ہے)


بیگم بولیں :”شاید ڈاکٹر برہان آئے ہیں ۔


بیگم نے دروازہ کھولا اور ڈاکٹر برہان اندر آکر ڈاکٹر زیدی کے قریب بیٹھ گئے ۔بیگم زیدی چائے بنا کر لائیں اور ڈاکٹر برہان کو ڈاکٹر زیدی کے وہم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:”برہان بیٹا ! آج انھیں بار بار یہی خیال آرہا ہے ۔میں نے کہا بھی کہ شاید تیز ہوا کی وجہ سے شور ہورہا ہے ،مگر یہ مانتے ہی نہیں ۔دو مرتبہ مجھے دروازے پر بھیجا ہے ۔

ڈاکٹر زیدی درمیان میں بولے :”اور وہاں کوئی نہیں تھا؟“
بیگم نے کہا:”کوئی بھی نہیں تھا۔“
ڈاکٹر برہان نے پوچھا :”ڈاکٹر صاحب ! کیا میں آپ کے اس وہم کے بارے میں جان سکتا ہوں ؟“
ڈاکٹر زیدی نے ڈاکٹر برہان کو مخاطب کیا:”برہان بیٹا! “
ڈاکٹر برہان قریب ہو کر بولے :”کہیے!“
ڈاکٹر زیدی نے تفصیل سے بتانا شروع کیا :”آج سے اٹھارہ بیس برس پہلے کا واقعہ ہے ۔
اس زمانے میں میری پریکٹس خوب چلتی تھی ۔سر کھجا نے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی ۔ڈسپنسری اور گھر پر مریضوں کا تانتا بندھارہتا تھا ۔ایک رات میں تھکا ہوا آیا اور آتے ہی بستر پر دراز ہو گیا۔تھوڑی دیر بعد ملازم نے آکر بتایا کہ ایک بڑے میاں آئے ہیں اور مجھے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں ۔میں نے انکار کر دیا ،مگر وہ بوڑھا میرے کمرے میں آگیا او رمنت سماجت کرنے لگا کہ میرا بیٹا سخت بیمار ہے ۔
پہلے بھی آپ کی دوا سے شفا ہوئی تھی ،چل کر دیکھ لیں ،مگر تھکاوٹ کی وجہ سے میری آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں ۔اس لیے میں نے سختی سے انکار کر دیا ۔ملازم نے اسے باہر نکالا تو وہ دروازے پر دستک دینے لگا ۔نہ جانے کب تک دستک دیتا رہا ،میں سو گیا ۔صبح اُٹھا تو طبیعت پر بڑا بوجھ تھا ۔افسوس کررہا تھا کہ میں نے بوڑھے کوکیوں مایوس کیا۔“
ڈاکٹر برہان نے کہا:”یعنی اس وقت آپ کا ضمیر بیدار ہو گیا تھا ۔

ڈاکٹر زیدی نے بتایا :”بس یہی بات تھی ۔میں نے اس بوڑھے کو ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی ،مگر کہیں پتا نہ چلا ۔“
ڈاکٹر برہان کسی نتیجے پر پہنچ گئے :”وہ بوڑھا تو چلا گیا ،مگر اب کبھی کبھی آپ کا ضمیر دروازے پر دستک دیتا رہتا ہے ۔“
کچھ دیر تک رک کر انھوں نے ڈاکٹر زیدی کی طرف دیکھا :”ڈاکٹر صاحب!“
ڈاکٹر زیدی بولے :”کہو بیٹا !“
ڈاکٹر برہان نے کہا:”میں ان ہی بڑے میاں کا پوتا ہوں ،جس کا بیٹا اس رات ایڑیاں رگڑرگڑ کر مر گیا تھا ۔

ڈاکٹر زیدی بولے :”تم !“
بیگم حیرت سے بولیں :”برہان بیٹا !“
ڈاکٹر برہان اُٹھتے ہوئے بولے :”اچھا خدا حافظ ڈاکٹر صاحب ! اطمینان کے ساتھ سو چائیے! اب دروازے پر دستک نہیں ہونی چاہیے۔“

Browse More Moral Stories