Dinosaur - Article No. 1675

Dinosaur

ڈائنو سار - تحریر نمبر 1675

سائنسدانوں کی جدید ترین تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ڈائنو سارز کو”آگ پروف“بننے کی صلاحیت سے مالا مال کیا ہوا تھا۔

ہفتہ 29 فروری 2020

آمنہ ماہم
پیارے بچو!آپ نے ڈائنو سار کا نام تو سن رکھا ہو گا،ویسے بھی جب کبھی دنیا کے قوی ہیکل جانور کا ذکر ہوتاہے تو ڈائنو سارز کے سوا کوئی اور نام ہمارے ذہن میں آتا ہی نہیں ۔جانوروں کی یہ نسل لاکھوں سال پہلے ناپید ہو گئی تھی ۔ایک رائے کے مطابق خوراک کی کمی ان کی نسلوں کے خاتمے کا سبب بنی ۔بھوک کے مارے ڈائنو سارز آہستہ آہستہ موت کے منہ میں چلے گئے ۔
دوسری رائے کے مطاق دنیا پر آسمانی حملے میں یہ قوی ہیکل جانور بے موت مارے گئے ۔یعنی آسمان سے شہاب ثاقب ،دمدار ستاروں یا ٹوٹے تاروں کی بارش میں یہ قوی ہیکل جانور بھی زمین میں دفن ہو گئے ۔ آئیے اس آرٹیکل میں آپکو ڈائنو سار کے بارے میں حال ہی میں سامنے آنے والی چند خوبیوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو ہم نے پہلے کبھی سنی تھیں نہ ہی اندازہ لگایا تھا۔

(جاری ہے)


سائنسدانوں کی جدید ترین تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ڈائنو سارز کو”آگ پروف“بننے کی صلاحیت سے مالا مال کیا ہوا تھا۔ زمین گرم ہونے کی صورت میں وہ خود کو اس درجہ حرارت کے مطابق ایڈ جسٹ کر لیا کرتے تھے۔ان میں ایسی اقسام موجود تھیں جنہیں تپتی زمین پر چلنے میں درد محسوس ہوتا نہ وہ آگ سے بچنے کی کوشش کرتے ۔ڈائنو سارز اس دور میں بھی یہاں زندہ رہے جسے ”آتش فشانی کا دور“کہا جاتاہے ،بے تحاشالاوا پھوٹنے کی وجہ سے ماہرین ارضیات اس دور کو (Volcansim Darakensberg) بھی کہتے ہیں۔
ماہرین نے اس بارے میں تحقیق کو جنوبی افریقہ کی اہم ترین تحقیقات میں شامل کیا ہے ،جس سے سوچ کے نئے دروازے کھلے۔کیپ ٹاؤن یونیورسٹی میں جیالوجی کے پروفیسر ایمسی بورڈی کی یہ تحقیق کئی جریدوں میں شائع ہوئی ہے ۔جریدے ”انورس“ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق”ڈائنوسارز نے وقت کے ساتھ ساتھ کچھ صلاحیتیں حاصل کرلی تھیں جیسا کہ آگ پر چلنا یا زہریلے نباتات کے درمیان رہنا۔

جنوبی افریقہ کے علاقے کا روبیسن میں ڈائنو سارز کے قدموں کے آتش فشاں پہاڑوں کے راستوں کے بیچوں بیچ درجنوں نشانات ملے ہیں ۔سائنس میگزین کے مطابق”یہ بات حال ہی میں ہمارے علم میں آئی ہے کہ یہ قوی ہیکل جانور طبیعتاً بھی اور جسمانی طور پر بھی کئی ایسی خوبیوں کے مالک تھے جن کا پہلے ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔جیسا کہ انہیں حرارت اور ابلتی ہوئی زمینیں پسند تھیں ،زہریلے پودوں کے درمیان رہنا بھی انہیں اچھا لگتا تھا ۔
زیر زمین نرم جگہوں پر ان کی رہائش رکھنے کا بھی سراغ ملا ہے ،اف خدایا!انہیں خوف آیا، نہ ان کے پیروں کو آگ لگی ۔تحقیق کے مطابق یہ پہاڑ لگ بھگ 18.3کروڑ برس قبل لاوے سے بھرے ہوئے تھے ۔ان کا راستہ بھی لاوے سے اٹا پڑا تھا،درمیانی راستوں میں ڈائنو سارز بھی مٹر گشت کرتے رہتے تھے ۔بھئی کیا جانور تھے یہ!آسمانی شے کا شکار ہو کر ختم ہونے سے پہلے یہ عام زمین کے علاوہ زہریلی جگہوں پر بھی رہتے تھے ۔
جیسا کہ ارضی سائنسدانوں کے مطابق”ڈائنو سارز کے قدموں کے نشانات آتش فشاں پہاڑوں کے راستوں میں بھی ملے ہیں۔ دور تک چلنے کے باوجود ان کے نشانات اپنی اصل حالت میں اور ایک جیسے ہیں ،یعنی پنجوں کے نشانات قدرتی نوعیت کے ہیں ۔لگتا ہے کہ ان کے پیروں پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ 25ڈائنو سارز کے قدم ایک جگہ رکے ہوئے نہیں ،بلکہ وہ حرکت کر رہے ہیں ۔

ان کے قدم لاوے کے عین درمیان پائے گئے ہیں ۔ایک نہیں 5راستوں پر ان کے قدموں کے نشانات نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا ہے ۔ماہر ارضیات ونباتات اب تک یہ نہیں جان سکے کہ کون کون سی طبی تبدیلیوں یا صلاحیتوں نے انہیں اس گرما گرم ماحول میں بھی زندہ رہنے میں مدد دی۔یہ بات سائنس دان نہیں جانتے ۔جنوبی افریقہ کا یہ علاقہ لاوے پر تحقیق کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ یہاں کے پہاڑ صدیوں پہلے شدید ترین لاوا اُگلا کرتے تھے ،مگر اب خاموش ہیں ۔
پروفیسر ایمسی یہاں لاوے کی اقسام اور اس میں پائے جانے والے کیمیکلز پر تحقیق کر رہے تھے ۔وہ لاوے کی مدد سے زمین کی اندرونی ساخت کا بھی پتہ چلانا چاہتے تھے۔دوران تحقیق اس نئے انکشاف سے وہ چکرا کر رہ گئے ۔لاوے میں اس مٹی کی آمیزش پائی گئی ہے جہاں یہ جانور رہائش رکھتے تھے یعنی لاوے میں قدموں کے نشانات کے علاوہ بھی ڈائنو سارز کی موجودگی کے کئی دوسرے اشارے ملے ہیں ۔ان کے مطابق ایسا اسی وقت ہوتاہے جب کوئی جانور اس جگہ کو اپنا گھر”ہوم ایریا“بنالے۔

Browse More Moral Stories