Doo Dost - Article No. 1513

Doo Dost

دودوست - تحریر نمبر 1513

کسی زمانے میں ایک ٹھنگنا آدمی جس کا نام اکبر تھا،گاؤں سے دور ایک پہاڑی پر رہا کرتا تھا۔اس کا قد تو چھوٹا تھا مگر اخلاق اور کر دار بہت بلند تھا ۔وہ گاؤں والوں میں اپنی سچائی،نرم دلی اور اپنے انوکھے گول چہرے کی وجہ سے بہت مقبول تھا،ہر شخص اُسے چاہتا تھا۔

بدھ 4 ستمبر 2019

کسی زمانے میں ایک ٹھنگنا آدمی جس کا نام اکبر تھا،گاؤں سے دور ایک پہاڑی پر رہا کرتا تھا۔اس کا قد تو چھوٹا تھا مگر اخلاق اور کر دار بہت بلند تھا ۔وہ گاؤں والوں میں اپنی سچائی،نرم دلی اور اپنے انوکھے گول چہرے کی وجہ سے بہت مقبول تھا،ہر شخص اُسے چاہتا تھا۔وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا اور ہر روز اپنے باغیچے میں کام کرتا تھا۔
گاؤں میں کسی کا بھی باغیچہ اس جیسا نہ تھا ۔اس میں گلاب،چنبیلی،موتیا،گیندا،سورج مکھی غرض قسم قسم کے پھول لگتے تھے ،جن کی خوشبو سے اُس کا باغیچہ مہکتا رہتا تھا۔
دوست تو اس کے بہت تھے مگر اس کا سب سے عزیز دوست قاسم تھا۔اس کی آٹے کی چکی تھی۔وہ اکبر کا اتنا گہرا دوست تھا کہ جب وہ اس کے گھر آتا اس کے باغیچے میں سے بہت سے پھول توڑ لیتا ۔

(جاری ہے)

وہ کہا کرتا تھا۔
”سچے دوستوں کی ہر چیز مشترک ہوتی ہے۔“قاسم جب بھی یہ کہتا اکبر خوشی سے سر ہلاتا اور ایسے دوست پر فکر کرتا جس کے خیالات ایسے اعلیٰ تھے۔
کبھی کبھی گاؤں والے سوچا کرتے تھے کہ جواب میں قاسم اکبر کو کچھ نہیں دیتا جب کہ اچھے لوگ اگر کوئی تحفہ وصول کرتے ہیں تو بدلے میں بھی کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہیں ،جبکہ قاسم کے گودام میں آٹے کی سینکڑوں بوریاں پڑی رہتی تھیں اور چھ گائیں اور سینکڑوں بھیڑیں تھیں مگر وہ ایک آٹے کی بوری تک اکبر کو نہ دیتا۔
اس کے لیے تو قاسم کی وہ باتیں ہی سب کچھ تھیں جو وہ دوستی اور بے غرضی کے بارے میں اکثر کرتا تھا۔اکبر دن رات اپنے باغ میں کام کرتا رہتا۔گرمی اور بہار میں وہ بہت خوش ہوتا ،مگر جب سردی آتی تو وہ پریشان ہو جاتا،کیونکہ اس کے پاس کوئی پھل یا پھول نہ ہوتا تھا کہ جسے وہ بازار میں بیچ کر اپنے لیے کچھ خرید سکے۔یہاں تک کہ کبھی کبھی تو اس کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔
چند بادام یا آلو چے کھا کر وہ بھوک مٹاتا تھا۔اکبر سردیوں میں خود کو بے حد تنہا محسوس کرتا تھا ،کیونکہ قاسم بھی اس موسم میں اس سے ملنے نہیں آتا تھا۔جب کوئی قاسم سے کہتا کہ اکبر سے مل آؤ ،وہ بہت بیمار ہے تو وہ ناراض ہو کر کہتا:
”اس برف باری کے موسم میں اس سے ملنے کیسے جاؤں․․․؟میرے خیال میں انسان مصیبت میں ہوتو تنہا اس کا مقابلہ کرے۔
اُسے اکیلا چھوڑ دینا چاہیے۔یہی بہترین دوستی ہے۔میں انتظار کروں گا اور جب بہار آئے گی تو ایک ٹوکری لے کر اکبر سے ملنے جاؤں گا اور اس کے خوبصورت باغ میں سے پھل اور پھول لے کر آؤں گا۔“
اس بار جب بہار نے اپنی آمد کی خبر دی اور پھول کھلنے لگے،کلیاں چٹخنے لگیں تو قاسم نے بڑی سی ٹوکری اُٹھائی اور اکبر سے ملنے روانہ ہوا۔
اکبر کو دور ہی سے دیکھ کر قاسم نے آواز لگائی ،”کیا حال ہے پیارے دوست․․․․؟“
”سچی بات تو یہ ہے کہ سردی بہت مشکل سے گزر ی مگر اب جب پھول کھل چکے ہیں تو بہت خوش ہوں۔
“اکبرنے جواب دیا۔
”میں تم سے سردی میں ملنے ضرور آتا مگرمیں نے یہ مناسب نہ سمجھا،کیوں نہ سمجھا۔تم اس بات کو نہ سمجھ سکو گے۔خیر چھوڑو،تمہارے یہ پھول کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں۔“
”ہاں یہ بہت خوبصورت ہیں اور میں انہیں بازار میں بیچ کر اتنے پیسے تو کما ہی لوں گا کہ اپنی پہیوں والی ہاتھ گاڑی دوبارہ خرید سکوں۔“
قاسم نے کہا،”میں تمہیں اپنی ہاتھ گاڑی دے دوں گا۔
اُسے کچھ زیادہ مرمت کی بھی ضرورت نہیں۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ ایک طرف سے ذراسی ٹوٹ گئی ہے۔لیکن میں دوستی کی خاطر اپنی ہاتھ گاڑی تمہیں دے دوں گا۔“
”اوہ!یہ تمہاری مہربانی ہے!“اکبر نے کہا۔اس کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا،”میں اس کی آسانی سے مرمت کر لوں گا،کیونکہ میرے پاس پیڑ کا ایک تنا بھی ہے۔“
قاسم بولا”ویسے تو میں تمہارے پاس ایسے ہی آیا تھا مگر اب سوچتا ہوں کہ کچھ پھل اور پھول ساتھ لیتا چلوں ۔
اور ہاں کل صبح تنالے کر آجانا اور میری چھت بنانے میں مدد کر دینا۔دوست ہی تو دوست کے کام آتا ہے نا۔“
اکبر صبح ہی صبح پیڑ کا تنا لے کر قاسم کے گودام پہنچ گیا اور صبح سے شام تک اس کی چھت مرمت کرتا رہا۔قاسم نیچے کھڑا اسے ہدایات دیتا رہا۔
شام تک اکبر تھک کر چور ہو چکا تھامگر اسے یہ اطمینان تھا کہ قاسم اسے اپنی ہاتھ گاڑی دے دے گا۔
مگر قاسم نے تو اس سے بات تک نہ کی۔چنانچہ وہ گھر آکر بھوکا ہی سو گیا۔
سخت برف باری کے عالم میں آدھی رات کے وقت اچانک کسی نے دروازہ کھٹ کھٹایا۔اکبر نے دروازہ کھولاتو قاسم ہاتھ میں لالٹین لیے کھڑا تھا۔
”دوست ،میرا بیٹا سخت بیمار ہے۔تمہاری بڑی مہربانی ہو گی اگر تم اگلے گاؤں سے ڈاکٹر کو بلا لاؤ۔“
”اس سخت برف باری میں؟“اکبر نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں ،تو کیا ہوا․․․․؟ویسے بھی میں تمہیں اپنی ہاتھ گاڑی دوں گا۔تمہیں میرا یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔“قاسم نے خود غرضی سے کہا۔
”اچھا ،تو ٹھیک ہے مگر میری لالٹین خراب ہے ۔اگر تم اپنی لالٹین دے دو تو میں آسانی سے ڈاکٹر کو بلالاؤں گا۔“
”نہیں دوست!میری لالٹین نئی ہے۔یہ میں کسی کو نہیں دے سکتا۔تم اندھیرے ہی میں اندازے سے چلے جاؤ۔
یہ کون سی بڑی بات ہے۔“قاسم نے مکاری سے جواب دیا۔
نا چار اکبر ڈاکٹر کو بلانے چل پڑا۔اندھیرا تو تھا ہی وہ غریب ایک گہری کھائی میں جا گرا اور قاسم گھر بیٹھا اُس کا انتظار کرتا رہا۔صبح پتہ چلا کہ اکبر کھائی میں گر کر مر گیا ہے ۔مگر قاسم نے پرواہ نہیں کی۔
اللہ کا کرنا یہ ہواکہ اسی رات قاسم کی چکی اور گودام پر بجلی گری اور اس کا سب کچھ جل کر تباہ ہو گیا۔
اس کے بیوی بچے بھی مر گئے ۔اب وہ دنیامیں اکیلا تھا۔نہ مال و دولت اُس کے پاس تھی نہ کوئی دوست اور رشتہ دار۔قاسم اس صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور پاگل ہو گیا۔کافی عرصے تک وہ گاؤں کی گلیوں میں اکبرکو آوازیں دیتا نظر آتا۔وہ اس کی تلاش میں تھا ،اکبر جیسے سچے دوست کی تلاش میں․․․․
اچھے دوست سے بڑی نعمت کوئی نہیں
اور لالچی دوست سے بڑی چیز دنیا میں نہیں

Browse More Moral Stories