Dosri Kahani - Article No. 2001
دوسری کہانی - تحریر نمبر 2001
ہم تینوں خوش خوش بستے اور سائیکلیں سنبھالتے نکل گئے
ہفتہ 26 جون 2021
تماضر ساجد
چھٹی ہوتے ہی میں اپنے دونوں دوستوں احتشام اور عادل کے ساتھ اسکول سے نکلا۔ہمیں لائبریری جانا تھا،جو مرکزی دروازے کے باہر تھی۔اسکول کی عمارت سے مرکزی دروازے تک آنے اور جانے کی دو سڑکیں برابر برابر بنی ہوئی تھیں۔لائبریری بند ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ہم تینوں اپنی اپنی سائیکلوں پر سوار ہو کر نکلے۔باہر جانے والی سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ہمیں چاہیے تھا کہ ہم رک کر بھیڑ ختم ہونے کا انتظار کرتے،مگر ہم تینوں جلدی میں ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آنے والی سڑک پر آگئے۔چوکیدار ڈنڈا ہلاتے ہوئے روکتا رہ گیا،مگر درمیان میں کھڑی گاڑیوں کے باعث وہ ہم تک نہ پہنچ سکا۔
اسی وقت سامنے سے پرنسپل صاحب کی گاڑی اسکول کی طرف آتی دکھائی دی۔
انھوں نے گاڑی یوں کھڑی کر لی کہ ہماری سائیکل گاڑی کے سائیڈ سے نکل نہ سکیں۔پرنسپل صاحب نے ملازم کو گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرنے کا کہا اور ہمیں دوبارہ اسکول لے گئے۔میں نے پرنسپل صاحب کی کرسی کے پیچھے لگے وال کلاک پر بے بسی سے نظر ڈالی۔لائبریری جانا تو ناممکن تھا ہی ساتھ ہی سزا کے بغیر یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی نظر نہ آیا۔دل ہی دل میں،میں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ آج ہمیں ڈانٹ سے بچا لیں۔
پرنسپل صاحب نے غصے سے گھورتے ہوئے معاملہ دریافت کیا۔ڈرتے ڈرتے میں نے سچ بولنے میں ہی عافیت جانی۔
پوری بات سن کر ان کا غصہ کچھ کم ہوا اور بولے:”اتنی کیا جلدی تھی؟کل چلے جاتے لائبریری۔“
میں نے اثبات میں سر ہلایا:”مگر جناب!وہاں سے کچھ معلومات حاصل کرنی تھی۔ معلومات افزا کے جوابات کی کل آخری تاریخ ہے۔“
”اچھا تو رسالے میں لکھتے ہو تم؟“ان کا لہجہ یک دم بدل گیا۔
”جی ہم تینوں نہیں،صرف یہی لکھتا ہے۔“احتشام نے میری طرف اشارہ کرکے کہا۔
”صرف جوابات ہی لکھتے ہو؟“پرنسپل صاحب نے مسکرا کر پوچھا تو میری جان میں جان آئی۔
”نہیں سر!کبھی کبھار کہانی بھی شائع ہو جاتی ہے۔“
پرنسپل صاحب نے پُرسوچ نگاہوں سے مسکراتے ہوئے پوچھا:”دیکھو،جانے کی تو مجھے بھی جلدی ہے،ایسا کرو تم تینوں مجھے ایک ایک کہانی سناؤ گے،ایک ہی موضوع پر،شرط یہ ہے کہ تم دونوں چاہے کہیں سے پڑھی ہوئی سناؤ،مگر یہ․․․․“انھوں نے میری طرف اشارہ کیا:”خود اپنی کہانی بنا کر سنائے۔“
بُرے پھنسے،میں نے سوچا اور کہانی سوچنے لگا۔چونکہ سوچنے کے لئے بالکل وقت نہیں تھا،میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔سر کے سامنے گھومتی مکھی دیکھ کر منہ سے نکلا۔
”ایک مکھی تھی۔“
”اچھا تو ایک مکھی تھی۔“پرنسپل صاحب نے دہرایا۔
”نہیں سر!“میرے ذہن میں یکدم کل شام کا چھوٹا سا واقعہ گھوم گیا۔
”ایک کوا تھا،پیاسا کوا۔“
”مگر پیاسے کوے کی کہانی تو ہمارے نصاب میں ہے۔“عادل نے اعتراض کیا۔
”یہ وہ والا کوا نہیں ہے اور اس میں تم لوگوں کی ہی آسانی ہے۔“میں نے ان دونوں کو دیکھا اور کہا:”اب مجھے کہانی سنا لینے دو۔ہاں تو ایک پیاسا کوا ایک چھت پر لگے بڑے سے اینٹینے پر آکر بیٹھ گیا۔“سب کو شاید کہانی نئی محسوس ہوئی تھی اس لئے سبھی توجہ ہو گئے۔ویسے کہانی واقعی تازہ ہی میرے ذہن میں آئی تھی۔
”وہ بے چارہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔جس چھت پر وہ بیٹھا تھا اس کے برابر والا گھر ہمارا تھا۔میں اور میری بہن اس وقت سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔جب وہ آیا،ہم دونوں اس کا جائزہ لینے لگے۔میری بہن نے اس کی پیاس محسوس کر لی،اس لئے فوراً بیسن کے ساتھ پہلے سے رکھی کٹوری میں پانی لا کر سب سے آخری سیڑھی پر رکھ دیا۔تاکہ کوا آسانی سے پی سکے۔ہم دونوں سیڑھیوں سے نیچے اُتر آئے۔ہم نے دیکھا کہ کوا کافی دیر تک اپنے اردگرد موجود جگہوں پر دیکھتا رہا،مگر مجال ہے جو اس نے ذرا دیر کو سر نیچے کیا ہو۔آخر کوا تھک گیا تو پیاسا ہی وہاں سے اُڑ گیا۔نہ جانے بے چارے کو کہیں اور سے پانی ملا یا نہیں۔“
کہانی سنتے ہوئے وقفہ آنے سے سب چونک اُٹھے۔
سر بولے:”سبق کیا ملتا ہے اس سے؟“
”سر!ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غیروں پر بھی بھروسا کرنا چاہیے۔دشمن بھی ہماری ضروریات پوری کر سکتے ہیں اگر ہم انھیں موقع دیں تو․․․․“سر مسکرا دیے۔
”کوڑی تو بہت دور کی لائے ہو،مگر چل جائے گا یہ سبق۔“پھر انھوں نے احتشام سے کہا:”چلیں آپ شروع ہوں۔“
اس نے خشک زبان ہونٹوں پر پھیری اور گویا ہوا:”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پیاسا کوا پانی کی تلاش میں نکلا۔اسے ایک گھڑا نظر آیا،مگر گھڑے میں پانی کم تھا۔وہ اُڑتا ہوا گیا اور کہیں سے نلکی ڈھونڈ لایا۔ایک سرا پانی میں ڈبو کر اور دوسرے کو منہ میں رکھ کر اس نے پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کرکے اُڑ گیا۔“
احتشام نے کہانی ایک ہی سانس میں ختم کرکے گہرا سانس لیا،جیسے کہہ رہا ہوں شکر ہے جان چھوٹی۔
کہانی کا انجام سن کر سر مسکرائے اور عادل کی طرف دیکھا۔
”ایک پیاسا کوا۔“عادل نے میری طرف دیکھا اور دوبارہ شروع ہوا:”ایک پیاسا کوا پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑتا پھر رہا تھا۔ایک جگہ سے گزرا تو دہشت گردوں کی فائرنگ سے بے چارہ ہلاک ہو گیا۔بے چارے کی لاش ابھی تک لاپتا ہے۔“
سر کھل کر مسکرا دیے:”اس سے پہلے کہ تم تینوں کے لاپتا ہونے کے اشتہار چلنے لگیں،فوراً گھر جاؤ،آئندہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اگر اس طرح اسکول سے کہیں اور جانا ہو تو صبح گھر والوں کو بتا کر آیا کرو۔ٹھیک ہے۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ہم تینوں خوش خوش بستے اور سائیکلیں سنبھالتے نکل گئے۔رش ختم ہو جانے کی وجہ سے راستہ صاف تھا۔میں لائبریری تو نہ جا سکا،مگر مجھے خوشی تھی کہ پرنسپل صاحب کو کہانی پسند آئی اور ہاں اس مہینے کوئز تو میں وقت پر نہ بھیج سکا۔رسالے میں بھیجنے کے لئے دو کہانیاں ضرور ہاتھ آگئیں۔ایک پیاسے کوے والی اور دوسری․․․ارے دوسری یہی جو اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں۔
چھٹی ہوتے ہی میں اپنے دونوں دوستوں احتشام اور عادل کے ساتھ اسکول سے نکلا۔ہمیں لائبریری جانا تھا،جو مرکزی دروازے کے باہر تھی۔اسکول کی عمارت سے مرکزی دروازے تک آنے اور جانے کی دو سڑکیں برابر برابر بنی ہوئی تھیں۔لائبریری بند ہونے میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ہم تینوں اپنی اپنی سائیکلوں پر سوار ہو کر نکلے۔باہر جانے والی سڑک پر گاڑیوں کا ہجوم تھا۔ہمیں چاہیے تھا کہ ہم رک کر بھیڑ ختم ہونے کا انتظار کرتے،مگر ہم تینوں جلدی میں ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آنے والی سڑک پر آگئے۔چوکیدار ڈنڈا ہلاتے ہوئے روکتا رہ گیا،مگر درمیان میں کھڑی گاڑیوں کے باعث وہ ہم تک نہ پہنچ سکا۔
اسی وقت سامنے سے پرنسپل صاحب کی گاڑی اسکول کی طرف آتی دکھائی دی۔
(جاری ہے)
پرنسپل صاحب نے غصے سے گھورتے ہوئے معاملہ دریافت کیا۔ڈرتے ڈرتے میں نے سچ بولنے میں ہی عافیت جانی۔
پوری بات سن کر ان کا غصہ کچھ کم ہوا اور بولے:”اتنی کیا جلدی تھی؟کل چلے جاتے لائبریری۔“
میں نے اثبات میں سر ہلایا:”مگر جناب!وہاں سے کچھ معلومات حاصل کرنی تھی۔ معلومات افزا کے جوابات کی کل آخری تاریخ ہے۔“
”اچھا تو رسالے میں لکھتے ہو تم؟“ان کا لہجہ یک دم بدل گیا۔
”جی ہم تینوں نہیں،صرف یہی لکھتا ہے۔“احتشام نے میری طرف اشارہ کرکے کہا۔
”صرف جوابات ہی لکھتے ہو؟“پرنسپل صاحب نے مسکرا کر پوچھا تو میری جان میں جان آئی۔
”نہیں سر!کبھی کبھار کہانی بھی شائع ہو جاتی ہے۔“
پرنسپل صاحب نے پُرسوچ نگاہوں سے مسکراتے ہوئے پوچھا:”دیکھو،جانے کی تو مجھے بھی جلدی ہے،ایسا کرو تم تینوں مجھے ایک ایک کہانی سناؤ گے،ایک ہی موضوع پر،شرط یہ ہے کہ تم دونوں چاہے کہیں سے پڑھی ہوئی سناؤ،مگر یہ․․․․“انھوں نے میری طرف اشارہ کیا:”خود اپنی کہانی بنا کر سنائے۔“
بُرے پھنسے،میں نے سوچا اور کہانی سوچنے لگا۔چونکہ سوچنے کے لئے بالکل وقت نہیں تھا،میں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔سر کے سامنے گھومتی مکھی دیکھ کر منہ سے نکلا۔
”ایک مکھی تھی۔“
”اچھا تو ایک مکھی تھی۔“پرنسپل صاحب نے دہرایا۔
”نہیں سر!“میرے ذہن میں یکدم کل شام کا چھوٹا سا واقعہ گھوم گیا۔
”ایک کوا تھا،پیاسا کوا۔“
”مگر پیاسے کوے کی کہانی تو ہمارے نصاب میں ہے۔“عادل نے اعتراض کیا۔
”یہ وہ والا کوا نہیں ہے اور اس میں تم لوگوں کی ہی آسانی ہے۔“میں نے ان دونوں کو دیکھا اور کہا:”اب مجھے کہانی سنا لینے دو۔ہاں تو ایک پیاسا کوا ایک چھت پر لگے بڑے سے اینٹینے پر آکر بیٹھ گیا۔“سب کو شاید کہانی نئی محسوس ہوئی تھی اس لئے سبھی توجہ ہو گئے۔ویسے کہانی واقعی تازہ ہی میرے ذہن میں آئی تھی۔
”وہ بے چارہ پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔جس چھت پر وہ بیٹھا تھا اس کے برابر والا گھر ہمارا تھا۔میں اور میری بہن اس وقت سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔جب وہ آیا،ہم دونوں اس کا جائزہ لینے لگے۔میری بہن نے اس کی پیاس محسوس کر لی،اس لئے فوراً بیسن کے ساتھ پہلے سے رکھی کٹوری میں پانی لا کر سب سے آخری سیڑھی پر رکھ دیا۔تاکہ کوا آسانی سے پی سکے۔ہم دونوں سیڑھیوں سے نیچے اُتر آئے۔ہم نے دیکھا کہ کوا کافی دیر تک اپنے اردگرد موجود جگہوں پر دیکھتا رہا،مگر مجال ہے جو اس نے ذرا دیر کو سر نیچے کیا ہو۔آخر کوا تھک گیا تو پیاسا ہی وہاں سے اُڑ گیا۔نہ جانے بے چارے کو کہیں اور سے پانی ملا یا نہیں۔“
کہانی سنتے ہوئے وقفہ آنے سے سب چونک اُٹھے۔
سر بولے:”سبق کیا ملتا ہے اس سے؟“
”سر!ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غیروں پر بھی بھروسا کرنا چاہیے۔دشمن بھی ہماری ضروریات پوری کر سکتے ہیں اگر ہم انھیں موقع دیں تو․․․․“سر مسکرا دیے۔
”کوڑی تو بہت دور کی لائے ہو،مگر چل جائے گا یہ سبق۔“پھر انھوں نے احتشام سے کہا:”چلیں آپ شروع ہوں۔“
اس نے خشک زبان ہونٹوں پر پھیری اور گویا ہوا:”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک پیاسا کوا پانی کی تلاش میں نکلا۔اسے ایک گھڑا نظر آیا،مگر گھڑے میں پانی کم تھا۔وہ اُڑتا ہوا گیا اور کہیں سے نلکی ڈھونڈ لایا۔ایک سرا پانی میں ڈبو کر اور دوسرے کو منہ میں رکھ کر اس نے پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کرکے اُڑ گیا۔“
احتشام نے کہانی ایک ہی سانس میں ختم کرکے گہرا سانس لیا،جیسے کہہ رہا ہوں شکر ہے جان چھوٹی۔
کہانی کا انجام سن کر سر مسکرائے اور عادل کی طرف دیکھا۔
”ایک پیاسا کوا۔“عادل نے میری طرف دیکھا اور دوبارہ شروع ہوا:”ایک پیاسا کوا پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑتا پھر رہا تھا۔ایک جگہ سے گزرا تو دہشت گردوں کی فائرنگ سے بے چارہ ہلاک ہو گیا۔بے چارے کی لاش ابھی تک لاپتا ہے۔“
سر کھل کر مسکرا دیے:”اس سے پہلے کہ تم تینوں کے لاپتا ہونے کے اشتہار چلنے لگیں،فوراً گھر جاؤ،آئندہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنا اور اگر اس طرح اسکول سے کہیں اور جانا ہو تو صبح گھر والوں کو بتا کر آیا کرو۔ٹھیک ہے۔“
”جی ٹھیک ہے۔“ہم تینوں خوش خوش بستے اور سائیکلیں سنبھالتے نکل گئے۔رش ختم ہو جانے کی وجہ سے راستہ صاف تھا۔میں لائبریری تو نہ جا سکا،مگر مجھے خوشی تھی کہ پرنسپل صاحب کو کہانی پسند آئی اور ہاں اس مہینے کوئز تو میں وقت پر نہ بھیج سکا۔رسالے میں بھیجنے کے لئے دو کہانیاں ضرور ہاتھ آگئیں۔ایک پیاسے کوے والی اور دوسری․․․ارے دوسری یہی جو اس وقت آپ پڑھ رہے ہیں۔
Browse More Moral Stories
ذمے دار ٹنکو
Zimedar Tinkoo
نادان بڑھیا
Nadan Burhiya
اصل وجہ
Asaal Wajah
مغرور بادشاہ کا انجام (پہلا حصہ)
Maghroor Badshah Ka Anjaam - Pehla Hissa
ایک وفادار نیولا
Ek Wafadar Nevla
احساس
Ehsas
Urdu Jokes
میاؤں
miyaon
گاہک دکاندار سے
gahak dukandar se
بیٹا ماں سے
Beta Maa se
مزیدار لطیفہ
mazaidar latife
بیوی شوہر سے
biwi shohar se
سپاہی
Sipahi
Urdu Paheliyan
پھولوں میں دو پھول نرالے
phoolon mein do phool nirale
جاگو تو وہ پاس نہ آئے
jagu tu wo paas na aaye
بے شک دن بھر پیتے جائیں
beshak din bhar peety jaye
چٹے پتھر تڑتڑ برسے
chitty pathar tartar barse
کالے کو جب آگ میں ڈالا
kaly ko jab aag me dala
اپنے منہ کو جب وہ کھولے
apne munh ko jab wo khole
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos