
Dosti - Article No. 1610
دوستی
کلاس میں بیٹھتا تو انہی لڑکوں کے پاس بیٹھتا ،انہیں اپنا دوست بناتا۔ان دوستوں میں اس کا ایک دوست ارشد تھا۔یہ بڑا خوب صورت اور ذہین بچہ تھا۔اسلم کی اس سے بڑی دوستی تھی۔ارشد بھی اسلم کو بہت چاہتا تھا۔دونوں سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے۔
منگل 24 دسمبر 2019

مدر سے میں بھی اس کی یہی حالت تھی۔پڑھائی خوب دل لگا کر کرتا تھا۔کھیل کود کے وقت زیادہ تر انہی ہم جماعتوں سے ملتا تھا،جو پڑھنے لکھنے کے بہت شوقین ہوتے تھے۔کلاس میں بیٹھتا تو انہی لڑکوں کے پاس بیٹھتا ،انہیں اپنا دوست بناتا۔ان دوستوں میں اس کا ایک دوست ارشد تھا۔
(جاری ہے)
ارشد کا زیادہ وقت اسلم کے گھر ہی گزرتا تھا۔گھر میں اُٹھنے بیٹھنے کے لیے صاف ستھری جگہ تھی اور ہر طرح کا آرام بھی تھا،اس لیے ارشد کی ماں خود ہی اسے وہاں زیادہ وقت گزارنے کی اجازت دے دیتی تھیں۔محلے والے تو خیر ان سے واقف ہی تھے،لیکن دوسرے لوگ ان دونوں بچوں کو ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے،ایک ساتھ سکول آتے جاتے،اکٹھے لکھتے پڑھتے،کھیلتے دیکھتے تو یہی سمجھتے کہ دونوں سگے بھائی ہیں۔ایک دن کا ذکر ہے کہ اسلم کے ابا اپنے کاروبار کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر میں گئے تھے۔اسلم چاہتا تھا کہ ارشد کو ساتھ لے کر کوئی فلم دیکھنے جائے اس کی امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا:
”نہیں بیٹا!آج تم فلم دیکھنے مت جاؤ،کیوں کہ تمہارے ابا گھر پر نہیں ہیں اگر تم بھی فلم دیکھنے چلے گئے تو میں گھر پر اکیلی رہ جاؤں گی۔لہٰذا تم کل فلم دیکھنے چلے جانا۔“اس روز اسلم اور ارشد کا موڈ شاید اچھا نہیں تھا،اسی لیے وہ زیادہ دیر تک پڑھ نہ سکے اور پھر ارشد اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
ارشد کے جانے کے بعد اسلم بھی اٹھ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اور کافی دیر تک کروٹیں لیتا رہا۔اس کی امی سمجھیں،شاید اسلم فلم پر جانے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے کچھ اداس اور بے چین ہے۔انہوں نے اسلم سے پوچھا:”بیٹا!کیا بات ہے ،تم ابھی تک جاگ رہے ہو،کیا نیند نہیں آرہی ۔کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟“
اسلم نے جواب دیا:”نہیں امی،کوئی تکلیف نہیں،بس نیند نہیں آرہی۔معلوم نہیں طبیعت کیوں بے چین ہورہی ہے۔“
اس کی امی نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا:”چلو بیٹا !آنکھیں بند کرو۔نیند خود بخود آجائے گی۔“تھوڑی دیر کے بعد ماں بیٹا دونوں سوگئے۔رات کو اچانک اسلم کی امی کی آنکھ کھل گئی۔انہوں نے شاید کوئی ڈراؤنا سا خواب دیکھا تھا۔انہوں نے گھبرا کر ادھر ادھر نظر ڈالی تو دیکھا کہ اسلم کی چارپائی خالی پڑی ہے۔وہ ایک دم گھبرا کر اپنی چار پائی سے نیچے اتر آئیں۔کمرے سے باہر جھانک کر دیکھا۔اسلم چھجے کے ایک کونے میں کھڑا تھا۔امی نے اسے پیار کیا اور پوچھا:”بیٹا!کیا بات ہے،یہاں کیوں کھڑے ہو؟“
اسلم بولا:”امی !ادھر سے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے،ایسا لگتا ہے جیسے ارشد کی آواز ہے“۔
اسلم کی امی نے دیکھا کہ ارشد کے مکان میں روشنی ہورہی ہے۔کان لگا کر سنا تو واقعی ارشد کے کر اہنے کی آواز آرہی تھی۔اسلم کو جب یہ پتہ چلا تو وہ بے تاب ہو گیا اور سیڑھیوں کی طرف لپکا۔اس کی امی اس کے پیچھے پیچھے گئیں وہاں جا کر دیکھا کہ ارشد بیمار ہے اور سخت بے چین ہے اور اس کی امی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہیں۔اسلم تو جاتے ہی ارشد سے لپٹ گیا اور اسے تسلیاں دینے لگا۔اس کی امی بھاگ کر اپنے گھر گئیں اور نوکر کو بلا لائیں اور پھر فوراً سے ڈاکٹر کی طرف دوڑایا۔خود بیٹھ کر ارشدکی امی کو دلا سادینے لگیں۔چند ہی منٹوں میں نوکر ڈاکٹر کو لے کر آگیا۔اس نے ارشد کو دیکھا اور پھر کہا:”گھبرائیے نہیں،بچے کو بخار ہے۔ذرا تیز ہو گیا ہے۔اس لیے بے چین ہے،اللہ نے چاہا تو بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا“۔
ڈاکٹر نے فوراً ارشد کو ٹیکہ لگایا۔نسخہ لکھا،کچھ ہدایات دیں اور کہا کہ بچے کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھیں۔اسلم بڑے غور سے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔وہ اپنے گھر گیا اور فرج میں سے برف لایا۔ایک طشت میں ڈال کر پانی ٹھنڈاکیا۔اور پھر پٹی بھگو کر ارشد کے سر پر رکھ دی۔ارشد اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس کی حالت دیکھ کر اسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے ایک دم اپنا منہ دوسری طرف کرلیا۔
تھوڑی دیر کے بعد نوکر ڈاکٹر کے یہاں سے دوا لے کر آگیا۔ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ارشد کو دوا پلادی گئی۔کچھ ہی دیر بعد ارشد کی بے چینی کم ہو گئی اور پھر وہ سو گیا۔اسلم اور اس کی امی جب سے دونوں آئے تھے،ارشد کی امی کی ڈھارس بندھ گئی تھی۔اب جو بچے کی آنکھ لگ گئی تو ان کے دل کو ذرا تسکین ہوئی۔ارشد اب سکون سے سورہا تھا۔اس کی امی نے اسلم سے کہا :”اسلم بیٹا!اب تمہارے بھائی کی آنکھ لگ گئی ہے،تم بھی جاؤ،آرام کرو،رات کافی گزر چکی ہے‘’‘۔
لیکن اسلم نہیں مانا،کہنے لگا:”نہیں خالہ جان!میں نہیں جاؤں گا۔آپ آرام کریں۔میں یہیں ارشد کے پاس بیٹھوں گا۔“
بڑی مشکل سے اسے راضی کیا گیا،اسلم اور اس کی امی خدا حافظ کہہ کر رخصت ہوئے۔صبح سویرے جب ارشد کی امی کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ارشد کا بخار اتر گیا ہے اور وہ آرام سے سورہا ہے اور اسلم ایک طرف بیٹھا ہے۔ارشد کی امی نے اسے گلے سے لگا لیا۔
مزید اخلاقی کہانیاں

چوری کی سزا
Chori Ki Saza

نیک اندیش
Naik Andesh

زندہ مشینیں
Zindah Mashinain

پانی پیو توانا رہو
Paani Piyo Tawana Raho

نوبل پرائز
Nobel Prize

سعودی عرب کے پرچم کی کہانی کیا ہے؟
Saudi Arab K Parcham Ki Kahani Kiya Hai?

بلاعنوان انعامی کہانی
Bila Unwan Inaami Kahani

پُراسرار جزیرہ
Pur Israar Jazeera

پچھتاوا
Pachtawa

پانڈا
Panda

بارہ شہزادیاں
12 Shehzadiyan

غلطی ہماری ہے۔۔۔تحریر:مختار احمد
Galti Hamari Hai
Your Thoughts and Comments
مزید مضامین
-
کھڑکی کے پار
Khirki K Paar
-
چائلڈلیبر۔۔۔معاشرتی ناسور
Child Labour
-
قاتل موبائل
Qatil Mobile
-
بندر کی شرارت
Bandar Ki Shararat
-
بچوں کو موبائل اورانٹر نیٹ کے منفی اثرات سے کیسے بچایاجا سکتا ہے؟
bachon ko mobile aur internet ky manfi asraat say kaisay bachaya jay sakta hai?
-
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Hazrat Khalid Bin Waleed RTA
-
وہ سرخ آنکھیں
Woh Surkh Ankhain
-
اُڑنے والا گھوڑا
Urne wala ghora
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2022, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.