Dosti Ho Gayi - Article No. 2393
دوستی ہو گئی - تحریر نمبر 2393
شکر ہے مالک کا ․․․․ہم روج آپ کے واسطے دعا کر رہے تھے
پیر 14 نومبر 2022
عشرت جہاں
صبح کا وقت تھا۔عارف صاحب نے اپنی گاڑی نکالنے کے لئے بڑا گیٹ کھولا۔دروازے کے پیچھے رکھی کچرے کی ٹوکری اُلٹ گئی۔باہر نکلے تو ان کی نظر پڑی۔چند سیکنڈ انھیں صورتِ حال سمجھنے میں لگی۔دانت پیستے اور بڑبڑاتے ہوئے انھوں نے دروازہ بند کیا۔ان کے خیال میں کچرا اُٹھانے والا خاکروب اسی طرح انھیں پریشان کرتا ہے۔کوڑے کی ٹوکری ایک طرف رکھ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ارد گرد دیکھا۔خاکروب نظر نہیں آیا۔سب گھروں کے کوڑے دان خالی تھے۔اپنے گھر کا کچرا انھیں کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔واپس آ کر اس بھنگی کی خوب خبر لیتا ہوں،کوڑے پر منڈلاتی بھنبھناتی مکھیوں کو پیچھے چھوڑ کر وہ آفس کی طرف روانہ ہو گئے۔گلی کے خاکروب سے عارف صاحب کی کبھی نہیں بنتی تھی۔
نہ جانے کیوں وہ اسے ناپسند کرتے تھے۔اس کے جواب میں خاکروب بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنے میں ذرا نہیں جھجکا۔
اگلے دن انھوں نے کسی کام سے چھٹی کر لی تھی۔چائے پیتے وہ اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے کہ گلی میں ہل چل سی مچی۔خاکروب کی کڑک دار آواز دور ہی سے گونج رہی تھی۔ایک ایک گھر کے آگے سے کچرا اُٹھا رہا تھا۔عارف صاحب لپک کر باہر نکلے۔خاکروب اپنے مخصوص انداز میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔عارف صاحب دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے غصے سے گھور رہے تھے۔
”کل تو نے کچرا کیوں نہیں اُٹھایا تھا؟“
”ساری گلی کا کچرا میں نے ہی اُٹھایا تھا جی اور کون اُٹھائے گا!“
عارف صاحب اس کی دیدہ دلیری پر مزید خفا ہو گئے:”پوری گلی کا کوڑا اُٹھایا تھا،مگر ہمارے گھر کا نہیں اُٹھا سکا تو،ہیں!“
”روز ہی تو اُٹھاتے ہیں کوڑا،کل نظر نہیں پڑی ہو گی․․․“وہ لاپرواہی سے بولا۔
اُسی جگہ جھاڑیوں کے قریب کوڑے کی ٹوکری دھری ہوتی ہے اور تیری نظر نہیں پڑی۔“عارف صاحب اسے ڈانٹتے ہوئے بولے۔
”سویرے سویرے دماغ خراب نہ کرو صاحب!ابھی ناشتہ نہیں کیا ہے۔“
”اچھا تو اب تیرے ناشتے کا ذمے دار بھی میں ہی ہوں۔“
”مہینے کے پیسے دو اور عیدی بھی۔“خاکروب نے مطالبہ پیش کیا۔
”عید پر دو سو نقد دیے تھے،بھول گیا۔“
”یہ کوئی احساس نہیں صاحب!رمضان میں بھی کچھ نہیں دیا․․․․․مہینے کی رقم بھی دیر میں دی تھی۔“
”اس کچرے سے بھی تُو اچھا خاصا کما لیتا ہے،لیکن تیری حرص ختم نہیں ہوتی۔“
”بس بس صاحب!فالتو ٹیم نہیں ہے میرے پاس بہت سے کام ہیں۔“کہتے ہوئے خاکروب نے اپنے گدھے کو ہنکایا اور آگے بڑھ گیا۔
”ہونہہ آیا بڑا گلفام بنا پھرتا ہے۔“عارف صاحب بڑبڑائے گھر میں داخل ہو گئے۔
اتفاق ایسا ہوا کہ عارف صاحب اگلے دن گھر کے غسل خانے میں گر پڑے۔چوٹوں کے علاوہ پاؤں کی موچ نے انھیں درد سے بے حال کر دیا۔دفتر سے چھٹیاں ہوئیں اور وہ اپنے کمرے تک قید ہو کر رہ گئے۔کئی دن بعد آج وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے صحن میں آ کر بیٹھے تھے۔گلی میں مخصوص ہلچل مچی ہوئی خاکروب کے گدھے کی گھنٹی کی آواز آ رہی تھی۔بڑے گیٹ پر آ کر اس نے کوڑے کی ٹوکری خالی کی اور نیم وا دروازے سے اندر رکھنے لگا۔
عارف صاحب پر نظر پڑتے ہی اس نے بڑی گرم جوشی سے سلام کیا۔
”ٹھیک ہو صاحب!“خاکروب نے کھلی مسکراہٹ سے ان کی خیریت دریافت کی:”اپن کو بھوت پھکر تھی صاحب!شکر خدا کا تم بھلا چنگا ہو گیا۔“
”تم بھی ٹھیک ٹھاک ہو؟“عارف صاحب نے جواباً پوچھا۔
”شکر ہے مالک کا ․․․․ہم روج آپ کے واسطے دعا کر رہے تھے۔“اسی دوران عارف صاحب نے جیب سے نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔
”نہ صاحب!ہم تو سچ مچ آپ کے لئے پھکر کرتے تھے۔“خاکروب نے پانچ سو کے نوٹ کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔
”لے لو،لے لو تمہارے صاحب اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔“بیگم عارف برآمدے سے بولیں۔
پھر اپنے شوہر سے کہا:”بلاناغہ آپ کی خیریت پوچھا کرتا تھا۔“
آج عارف صاحب کو خاکروب کے چہرے کی معصومیت اور بے ریا محبت نظر آ رہی تھی۔نہ جانے یہ احساس پہلے کیوں نہ ہوا!وہ سوچ میں گُم تھے۔خاکروب نوٹ لے کر دعائیں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
صبح کا وقت تھا۔عارف صاحب نے اپنی گاڑی نکالنے کے لئے بڑا گیٹ کھولا۔دروازے کے پیچھے رکھی کچرے کی ٹوکری اُلٹ گئی۔باہر نکلے تو ان کی نظر پڑی۔چند سیکنڈ انھیں صورتِ حال سمجھنے میں لگی۔دانت پیستے اور بڑبڑاتے ہوئے انھوں نے دروازہ بند کیا۔ان کے خیال میں کچرا اُٹھانے والا خاکروب اسی طرح انھیں پریشان کرتا ہے۔کوڑے کی ٹوکری ایک طرف رکھ کر وہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔ارد گرد دیکھا۔خاکروب نظر نہیں آیا۔سب گھروں کے کوڑے دان خالی تھے۔اپنے گھر کا کچرا انھیں کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔واپس آ کر اس بھنگی کی خوب خبر لیتا ہوں،کوڑے پر منڈلاتی بھنبھناتی مکھیوں کو پیچھے چھوڑ کر وہ آفس کی طرف روانہ ہو گئے۔گلی کے خاکروب سے عارف صاحب کی کبھی نہیں بنتی تھی۔
(جاری ہے)
اگلے دن انھوں نے کسی کام سے چھٹی کر لی تھی۔چائے پیتے وہ اخبار کا مطالعہ کر رہے تھے کہ گلی میں ہل چل سی مچی۔خاکروب کی کڑک دار آواز دور ہی سے گونج رہی تھی۔ایک ایک گھر کے آگے سے کچرا اُٹھا رہا تھا۔عارف صاحب لپک کر باہر نکلے۔خاکروب اپنے مخصوص انداز میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔عارف صاحب دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اسے غصے سے گھور رہے تھے۔
”کل تو نے کچرا کیوں نہیں اُٹھایا تھا؟“
”ساری گلی کا کچرا میں نے ہی اُٹھایا تھا جی اور کون اُٹھائے گا!“
عارف صاحب اس کی دیدہ دلیری پر مزید خفا ہو گئے:”پوری گلی کا کوڑا اُٹھایا تھا،مگر ہمارے گھر کا نہیں اُٹھا سکا تو،ہیں!“
”روز ہی تو اُٹھاتے ہیں کوڑا،کل نظر نہیں پڑی ہو گی․․․“وہ لاپرواہی سے بولا۔
اُسی جگہ جھاڑیوں کے قریب کوڑے کی ٹوکری دھری ہوتی ہے اور تیری نظر نہیں پڑی۔“عارف صاحب اسے ڈانٹتے ہوئے بولے۔
”سویرے سویرے دماغ خراب نہ کرو صاحب!ابھی ناشتہ نہیں کیا ہے۔“
”اچھا تو اب تیرے ناشتے کا ذمے دار بھی میں ہی ہوں۔“
”مہینے کے پیسے دو اور عیدی بھی۔“خاکروب نے مطالبہ پیش کیا۔
”عید پر دو سو نقد دیے تھے،بھول گیا۔“
”یہ کوئی احساس نہیں صاحب!رمضان میں بھی کچھ نہیں دیا․․․․․مہینے کی رقم بھی دیر میں دی تھی۔“
”اس کچرے سے بھی تُو اچھا خاصا کما لیتا ہے،لیکن تیری حرص ختم نہیں ہوتی۔“
”بس بس صاحب!فالتو ٹیم نہیں ہے میرے پاس بہت سے کام ہیں۔“کہتے ہوئے خاکروب نے اپنے گدھے کو ہنکایا اور آگے بڑھ گیا۔
”ہونہہ آیا بڑا گلفام بنا پھرتا ہے۔“عارف صاحب بڑبڑائے گھر میں داخل ہو گئے۔
اتفاق ایسا ہوا کہ عارف صاحب اگلے دن گھر کے غسل خانے میں گر پڑے۔چوٹوں کے علاوہ پاؤں کی موچ نے انھیں درد سے بے حال کر دیا۔دفتر سے چھٹیاں ہوئیں اور وہ اپنے کمرے تک قید ہو کر رہ گئے۔کئی دن بعد آج وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے صحن میں آ کر بیٹھے تھے۔گلی میں مخصوص ہلچل مچی ہوئی خاکروب کے گدھے کی گھنٹی کی آواز آ رہی تھی۔بڑے گیٹ پر آ کر اس نے کوڑے کی ٹوکری خالی کی اور نیم وا دروازے سے اندر رکھنے لگا۔
عارف صاحب پر نظر پڑتے ہی اس نے بڑی گرم جوشی سے سلام کیا۔
”ٹھیک ہو صاحب!“خاکروب نے کھلی مسکراہٹ سے ان کی خیریت دریافت کی:”اپن کو بھوت پھکر تھی صاحب!شکر خدا کا تم بھلا چنگا ہو گیا۔“
”تم بھی ٹھیک ٹھاک ہو؟“عارف صاحب نے جواباً پوچھا۔
”شکر ہے مالک کا ․․․․ہم روج آپ کے واسطے دعا کر رہے تھے۔“اسی دوران عارف صاحب نے جیب سے نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔
”نہ صاحب!ہم تو سچ مچ آپ کے لئے پھکر کرتے تھے۔“خاکروب نے پانچ سو کے نوٹ کی طرف دیکھا بھی نہ تھا۔
”لے لو،لے لو تمہارے صاحب اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔“بیگم عارف برآمدے سے بولیں۔
پھر اپنے شوہر سے کہا:”بلاناغہ آپ کی خیریت پوچھا کرتا تھا۔“
آج عارف صاحب کو خاکروب کے چہرے کی معصومیت اور بے ریا محبت نظر آ رہی تھی۔نہ جانے یہ احساس پہلے کیوں نہ ہوا!وہ سوچ میں گُم تھے۔خاکروب نوٹ لے کر دعائیں دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
Browse More Moral Stories
دولت اور علم
Daulat Aur Ilm
نقلی مچھیرے
Naqli Machirey
درویش اور اس کا چیلا
Darwaish Aur Is Ka Chaila
خوشگوار زندگی
Khushgawar Zindagi
دو ڈاکٹر
2 Doctor
پانی کا فیصلہ (آخری حصہ)
Pani Ka Faisla - Aakhri Hissa
Urdu Jokes
ایک کنجوس
Aik kanjoos
بیٹا باپ سے
Beta baap se
شاعر
Shayar
شوہر بیوی سے
Shohar biwi se
چار پائی
Charpai
استاد شاگرد سے
Ustaad shagird se
Urdu Paheliyan
ایک خزانہ پانے والا
ek khazana pane wala
ایک ہے ایسا کاری گر
ek hai aisa karigar
سیج سدا اک بہتی جائے
saij sada ek behti jaye
آتا نہ دیکھا جاتا نہ دیکھا
ata na dekha jata na dekha
گھر سے نکلی باہر آئی
ghar se nikli bahir ai
فٹ بھر ہے اس کی لمبائی
fut bhar he uski lambai
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos