Dou Chuhey - Article No. 1755

Dou Chuhey

دو چوہے - تحریر نمبر 1755

دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔

جمعہ 26 جون 2020

ڈاکٹر جمیل جالبی
دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا،اس لئے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔
ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا،”بھائی!ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔
کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔“
شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کرلی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔گاؤں کا چوہا بہت عزت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔کھانے میں مٹر،گوشت کے ٹکڑے ،آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔

(جاری ہے)

شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔

اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے،وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آستہ چباتا رہا۔
جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا،”ارے یار جانی!اگر اجازت ہوتو میں کچھ کہوں؟“
گاؤں کے چوہے نے کہا،”کہو بھائی!ایسی کیا بات ہے؟“
شہری چوہے نے کہا،”تم ایسے خراب اور گندے بل میں کیوں رہتے ہو؟اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔
چاروں طرف پہاڑ،ندی اور نالے ہیں۔دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔سرکار دربار ہیں۔صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔کھانے کے لئے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے ۔بس اب تم میرے ساتھ چلو۔دونوں پاس رہیں گے۔باقی زندگی آرام سے گزر ے گی۔

گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بل تھا۔حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر،تاجر،زمیندار،وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔
شہری چوہے نے اپنے دوست ،گاؤں کے چوہے کو ریشمی یرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا،”واہ یار!کیا مزیدار کھانے ہیں۔ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔“
ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکا یک کسی نے دروازہ کھولا۔
دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔اتنے میں دو کتے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غزانے کی آواز سنائی دی۔گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا،”اے بھائی!اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔میں تو باز آیا۔ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں ،اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔“

Browse More Moral Stories