Dr Kamal Ka Telephone - Article No. 1442

Dr Kamal Ka Telephone

ڈاکٹرکمال کا ٹیلی فون - تحریر نمبر 1442

ڈاکٹر کمال الدین نے خدا خدا کرکے نوسال میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔یوں تو میڈیکل کالج کا کورس پانچ سال کا ہے

ہفتہ 15 جون 2019

تاجورنجیب آبادی
ڈاکٹر کمال الدین نے خدا خدا کرکے نوسال میں ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا۔یوں تو میڈیکل کالج کا کورس پانچ سال کا ہے،مگر ہے بڑا سخت کورس،اس لیے کمال الدین دماغ کے کچھ گٹھل تھے۔انھوں نے نوسال لگا کر یہ آخری امتحان پاس کرکے اس مصیبت سے پیچھاچھڑایا۔
اب فکر پڑی کمانے کی ،چوں کہ چلتا پر زہ قسم کے آدمی تھے،اس لیے سوچا کہ تاجروں کے محلے میں بڑا سا مکان کرائے پر لے کر کام شروع کیا جائے،تاکہ امیر بیماریوں کی آمد ورفت ہونے لگے۔
چناں چہ ایک بہت شان دار مکان کرائے پر لیا گیا،اسے خوب سجایا گیا،رنگ برنگی شیشیوں میں الابلا بھر کے الماری سجادی گئی اور نام چارے کو اپنے چھوٹے بھائی کو کمپاؤنڈر کے طور پر رکھ لیا گیا۔

(جاری ہے)

یہ مکان امیر لوگوں کے محلے میں تھا،اسی لیے نمائش کے انداز میں جی لگا کر سجایا گیا تھا،مگر ایک کسررہ گئی تھی،اس میں ٹیلی فون نہیں تھا۔آپ جانتے ہیں کہ ان دنوں بڑے بڑے ڈاکٹروں کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔

چناں چہ کمال الدین نے دوڑدھوپ کرکے فون کی بھی منظوری لے لی۔
ٹیلی فون آگیا،مگر ابھی کنکشن نہیں ملا تھا۔کنکشن لگانے کے لیے ٹیلی فون کے محکمے کا مستری آیا۔ڈاکٹر صاحب اس وقت اندر بیٹھے تھے۔انھوں نے مستری کو اندر آتا دیکھ کر ،یہ گمان کر لیا کہ کوئی مریض پھنسا ہے ۔اس پر اپنا رعب جمانا ضروری ہے ۔مستری کو کرسی پر بیٹھ جانے کااشارہ کرکے آپ نے ریسیور اُٹھایا اور بے کنکشن کے فون پر باتیں شروع کردیں اور آپ ہی آپ فرضی سوالوں کے جواب دینے لگے۔

”جی ہاں میں ڈاکٹر کمال الدین ہوں․․․․․اوہ،سر ابراہیم!السلام علیکم ۔نواب صاحب میں اپنے مطب میں تھا،نہیں۔کرنل ہاکسر بیمار ہیں۔انھوں نے طلب کیا تھا۔ابھی ابھی وہاں سے آرہا ہوں․․․․اچھا!اچھا آپ کی طبیعت ابھی خراب ہے․․․․․․؟لیکن چھے بجے سے پہلے تو میں حاضر نہ ہو سکوں گا۔ابھی تو میں کرنل باٹ کو دیکھنے چھاؤنی جارہاہوں․․․․ہاں ہاں انھیں جگر کی کچھ شکایت ہے۔
کرنل باٹ کو دیکھ کر پھر سر برہان کے ہاں جاؤں گا․․․․․․جی؟جی ہاں،جی ہاں ان کی طبیعت کچھ نا ساز ہے ۔ان کی کوٹھی سے فون پر فون آرہے ہیں ،مگر کیا کروں مجبور ہوں،وعدہ خلافی بھی تو نہیں کر سکتا․․․․․کیا فرمایا؟․․․․․وہاں سے پھر کہاں جاناہے؟․․․․․؟یہ نہ پوچھیے۔ڈاکٹروں کی زندگی بھی بڑی مصروف زندگی ہوتی ہے۔ہاں عرض تو کر رہاہوں۔
سر برہان کو دیکھ کر پھر وزیر اعظم صاحب کی کوٹھی جاؤں گا۔اُن کا کوئی دوست مجھ سے علاج کرانے کی خاطر کئی دن سے اُن کے گاؤں سے آیا ہوا ہے ۔قبلہ یہ سب کچھ صحیح !مگر یہ ہمارا پیشہ ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی کو انکار نہیں کر سکتے۔کوئی بلاتا ہے تو جانا ہی پڑتا ہے ۔جی؟․․․․․․کیا فرمایا؟نو بجے رات؟بالکل ٹھیک مجھے بھی یہ ہی ٹائم سوٹ کرے گا،کیوں کہ پونے دس بجے رات کا وقت علاؤ الدین صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس کے لیے مقرر ہے ۔
اُن کی ناک میں پھر غدود اُبھر آئے ہیں۔“
ڈاکٹر کمال یہ فرضی باتیں اس لیے کررہے تھے کہ آنے والا نوواردبیمار رعب میں آجائے گا اور انھیں معقول فیس اس سے وصول ہوجائے گی۔چناں چہ بے کرنٹ کے فون پر گپیں ہانک کر آپ نووارد سے بولے۔
”جناب معاف کیجیے گا،آپ کو بڑی دیر ہوگئی،کیا کروں یہ اونچے طبقے کے بیمار سانس ہی نہیں لینے دیتے ،بڑے ہیں،ان سے بے پروائی بھی تو نہیں برتی جاسکتی۔اچھا اب فرمائیں آپ کو کیا شکایت ہے ۔“
نو واردنے جواب دیا:”جناب میں اللہ کے کرم سے بیمار نہیں۔نہ علاج کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ٹیلی فون کے محکمے کا مستری ہوں۔آپ نے سپر نٹنڈنٹ سے کنکشن کی درخواست کی تھی،میں اسی لیے حاضر ہوا ہوں ،تاکہ آپ کے فون کو چالو کردوں۔“

Browse More Moral Stories