Dushman Ki Dosti - Article No. 2439

Dushman Ki Dosti

دشمن کی دوستی - تحریر نمبر 2439

ایک گاڑی میں سے جو آدمی اُترا،اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اُتر آیا۔یہ وہی آدمی تھا،جس نے میرے والدین کی زندگی کا چراغ گل کیا تھا۔

بدھ 18 جنوری 2023

محمد عمر امتیاز
میں انسانوں سے سخت نفرت کرتا ہوں۔انھوں نے میری نظروں کے سامنے میرے شیر بابا اور شیرنی امی کو گولی مار دی اور ان کی کھال اُتار کر لے گئے۔بابا اور امی کی موت کے ساتھ میرے بچپن کی خوشیاں بھی ختم ہو گئیں۔ایسے کڑے وقت میں میرے بہترین دوست چیتے اور اس کے گھر والوں نے مجھے سہارا دیا۔دوسرے جانور بھی مجھ سے ڈرنے کی بجائے میری دل جوئی کرتے۔
اب میری زندگی کا مقصد انسانوں سے اپنے والدین کے خون کا بدلہ لینا تھا۔
اگر کوئی شکاری جنگل میں کیمپ لگاتے تو میں اور میرے دوست ان پر حملہ کر دیتے اور روپوش ہو جاتے۔میرے دوست چیتے کا بھائی بھی جب چھوٹا تھا تو اسے بھی شکاری پکڑ کر لے گئے تھے،مگر وہ بڑا ہو کر کسی نہ کسی طرح بھاگ کر جنگل میں واپس آ گیا تھا۔

(جاری ہے)

اب وہ بھی ہمارے گروہ میں شامل تھا۔

اس کا ایک فائدہ اور بھی ہوا،انسانوں کی زبان بھی سمجھنے لگا تھا۔اس طرح جب شکاری ہمیں پکڑنے کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہوتے تو وہ چھپ کر سن لیتا اور ہمیں آگاہ کر دیا کرتا۔
کچھ عرصے بعد ایک ادھیڑ عمر باوقار سا آدمی اپنے گھر والوں کے ساتھ جنگل میں آیا۔وہ ایک بڑی اور مضبوط گاڑی میں آئے تھے۔اس آدمی کے ساتھ اس کی بیوی ایک نوجوان لڑکا اور ایک چھوٹی بچی تھی۔
ہم حیران تھے کہ اس خطرناک جنگل میں کوئی شکاری گھر والوں کے ساتھ تو نہیں آتا۔چیتے نے گھات لگائی کہ سن سکے آخر معاملہ کیا ہے؟
اندھیرا سر پر تھا۔وہ آدمی اور عورت گاڑی سے باہر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔اس آدمی نے کہا:”میرے دشمن سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم اس خطرناک جنگل میں روپوش ہو سکتے ہیں۔مجھے وہ فائل لازمی کمشنر تک پہنچانی ہے۔ہمارے ملک کے غداروں نے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔
میں صبح ہی محفوظ راستے سے روانہ ہو جاؤں گا۔“
عورت بہت پریشان لگ رہی تھی بولی:”مجھے بہت خوف آ رہا ہے۔سنا ہے یہ جنگل خوف ناک درندوں سے بھرا پڑا ہے۔اگر انھوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو؟“
آدمی نے اسے تسلی دی:”فکر مت کرو،بس دعا کرو۔ویسے بھی اپنی گاڑی بہت مضبوط اور شیشے بلٹ پروف ہیں،اگر درندے آ بھی گئے تو صرف دھویں والا شیل استعمال کرنا۔
بس وہ بھاگ جائیں گے۔ان بے زبان جانوروں پر کوئی ہتھیار استعمال مت کرنا۔“
وہ دونوں گاڑی کے اندر چلے گئے۔چیتے نے ہمیں ان کی پوری گفتگو سے آگاہ کر دیا۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ انسان بھی کوئی اچھا کام کر سکتے ہیں،کیونکہ اب تک میں نے انسانوں کا ظالم روپ ہی دیکھا تھا،مگر یہ آدمی اپنی اور اپنی بیوی بچوں کی جان خطرے میں ڈال کر بھی جانوروں کی بھلائی کی بات کر رہا ہے۔

میں نے تمام ساتھیوں کو اپنے منصوبے سے آگاہ کر دیا کہ صبح جب یہ آدمی روانہ ہو تو کوئی اس پر حملہ نہیں کرے گا،بلکہ چھپ کر اس کے بیوی بچوں کی بھی حفاظت کریں گے۔صبح ہوتے ہی وہ آدمی روانہ ہو گیا۔ہم اس کے بیوی بچوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔اگلے دن چیتے نے بتایا کہ وہ عورت اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی کہ ”حیرت کی بات ہے تمہارے پاپا تو کہہ رہے تھے کہ یہ جنگل بہت خطرناک ہے،مگر مجھے تو ایک لومڑی تک نظر نہیں آئی۔

وہ لڑکا بھی حیران تھا میں یہ سن کر مسکرا کر رہ گیا۔
کچھ دیر بعد اچانک کچھ گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ہم فوراً چوکنے ہو گئے اور تیز رفتاری سے بھاگتے ہوئے اس آدمی کی گاڑی کے آس پاس گھنی جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھنے لگے۔وہ تین بڑی گاڑیاں تھیں،جس میں سے اٹھارہ بیس افراد باہر نکل آئے۔ان کے ہاتھوں میں خطرناک ہتھیار تھے۔
ایک گاڑی میں سے جو آدمی اُترا،اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اُتر آیا۔یہ وہی آدمی تھا،جس نے میرے والدین کی زندگی کا چراغ گل کیا تھا۔آج بھی اس کے ہاتھ میں ایک خطرناک بندوق تھی۔اس کے دوسرے ہاتھ میں گیند جیسی کوئی چیز تھی۔میرا رواں رواں اس پر حملہ کرنے کے لئے بے تاب تھا،مگر ابھی صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا۔
چیتے نے بتایا کہ اس نے دوسرے ہاتھ میں بم پکڑا ہوا ہے۔
یہ ایک خطرناک چیز ہے،جس سے لمحوں میں گاڑی اور ان لوگوں کے پرخچے اُڑ جائیں گے۔وہ چیخ چیخ کر انھیں باہر آنے کا کہہ رہا تھا۔وہ تینوں روتے ہوئے گاڑی سے باہر آ گئے۔اس آدمی نے بم اپنے ساتھی کو پکڑا دیا اور عورت اور لڑکے کو گھٹنوں کے بل بیٹھا دیا اور بچی کا بازو پکڑ کر اسے بے دردی سے ماں کی طرف دھکیل دیا۔عورت نے لپک کر اسے گود میں لے لیا۔
لڑکے کو غصہ آ گیا اس نے اُٹھ کر اس آدمی پر ہاتھ اُٹھانا چاہا،مگر اس کے ایک ساتھی نے لڑکے کے سر پر گن کا بٹ مارا وہ لڑکا تیورا کر گر پڑا۔
وہ آدمی مکروہ انداز میں ہنسنے لگا اور بولا:”تمہارا باپ کیا سمجھتا تھا کہ میرے منصوبے اتنی آسانی سے منظر عام پر آ جائیں گے۔اس کا ایک قریبی ساتھی،جس پر تمہارا باپ دل و جان سے اعتماد کرتا تھا،میں نے خرید لیا ہے۔
اسی نے مجھے تمہاری روپوشی کی جگہ بتائی تھی۔تمہارے باپ کو کمشنر کے آفس پہنچنے سے پہلے ہی ہم نے پکڑ لیا۔“
یہ کہہ کر اس نے ایک ساتھی کو اشارہ کیا۔اس نے پچھلی سیٹ پر پڑے آدمی کو گھسیٹ کر نیچے اُتارا اور زمین پر پٹخ دیا۔اسے دیکھ کر اس عورت کی چیخیں نکل گئیں۔وہ اس کا شوہر تھا۔وہ زخمی اور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔بچے بھاگ کر اپنے باپ سے لپٹ گئے۔
اس آدمی کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ تھی۔وہ بولا:”پہلے میں تمہاری عزیز بیٹی کو گولی ماروں گا،تاکہ تم نشانِ عبرت بن جاؤ اور تمہیں پتا چل جائے کہ مجھ سے ٹکر لینے کا انجام کتنا بھیانک ہوتا ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے گن بچی کی طرف سیدھی کر لی۔اب یہی وقت تھا حملہ کرنے کا۔میں نے ایک زور دار دھاڑ ماری۔میرے تمام ساتھیوں نے بیک وقت ان ظالم لوگوں پر حملہ کر دیا۔
انھیں اپنی گنیں سیدھی کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔وہ آدمی اور اس کے بیوی بچے حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ کوئی درندہ ان کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا ہے۔وہ آدمی کو سہارا دے کر گاڑی تک پہنچ گئے۔عورت اور بچے گاڑی کے اندر چلے گئے،مگر پروفیسر گاڑی کا سہارا لے کر باہر کھڑا رہا۔
میں اس ظالم آدمی کو اپنے نوکیلے دانتوں سے بُری طرح اُدھیڑ رہا تھا۔
کچھ لمحوں بعد اس کی چیخیں تھم گئیں۔تمام ظالم اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔ہمارا کوئی بھی ساتھی زخمی یا مرا نہیں تھا۔میں اس آدمی کے قریب پہنچ گیا۔اس آدمی کی آنکھوں میں خوف کے بجائے دوستانہ چمک تھی۔اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔میں دو قدم پیچھے ہٹا اور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔میرے ساتھیوں نے بھی میری تقلید کی۔وہ لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے۔

دوسرے دن صبح ہی جنگل میں پولیس افسران اور بہت سے لوگ کیمرے لئے آن پہنچے۔وہاں کا منظر دیکھ کر سب کے ہوش اُڑ گئے۔وہ آدمی یعنی پروفیسر بھی ان کے ساتھ موجود تھا۔اس کی حالت بہتر لگ رہی تھی۔اس نے سب ماجرا پولیس والوں کو سنایا،جسے سن کر سب حیران تھے۔اس نے میڈیا والوں کو بتایا:”یہ لاشیں دیکھ کر آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ ان درندوں کا مقصد ان ظالم لوگوں کا خاتمہ کرنا تھا،ورنہ وہ اب تک انھیں کھا چکے ہوتے۔

تھوڑی دیر بعد وہ سب وہاں سے روانہ ہو گئے۔وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا ہو کر اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔میں نے جھاڑیوں میں سے اپنا چہرہ ذرا سا اوپر اُٹھایا اُس آدمی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور ہاتھ ہلا کر گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔میں نے خوشی میں زور دار دہاڑ ماری اور بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں تک پہنچ گیا۔

Browse More Moral Stories