Eheem Cheez - Article No. 1656

Eheem Cheez

اہم چیز - تحریر نمبر 1656

وہ ایک ادیب کا کمرا تھا۔ویسا ہی جیسا ایک ادیب کے کمرے کو ہونا چاہیے۔ ہر طرف الماریاں تھیں،جن میں کتابیں اوررسالے بھرے تھے۔

جمعرات 6 فروری 2020

جاوید بسام
وہ ایک ادیب کا کمرا تھا۔ویسا ہی جیسا ایک ادیب کے کمرے کو ہونا چاہیے۔ ہر طرف الماریاں تھیں،جن میں کتابیں اوررسالے بھرے تھے۔ایک لکھنے کی میز تھی،جس پر کاغذوں کے پلندے اور کہانیوں کے مسودے دھرے تھے۔دائیں دیوار کے ساتھ ایک سوفا رکھا تھا۔جب وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتا تو سوفے پر بیٹھ کر لکھنے لگتا۔
ایک دیوار پر کیلنڈر لگا تھا۔جس پر گھنے جنگل میں جاتا راستہ نظر آرہا تھا۔ میز پر جہاں کچھ پرانی کتابیں رکھی تھیں۔وہاں پتیل کا ایک قلم دان بھی موجود تھا۔اس میں ایک بہت خوب صورت قلم اٹکا رہتا تھا۔ادیب ہمیشہ اسی قلم سے لکھتا، حالانکہ داز میں اور بھی قلم موجود تھے۔ایک طرف ریت گھڑی رکھی تھی،اگر چہ جدید گھڑیاں آچکی تھیں،مگر وہ پرانی چیزوں کا شوقین تھا اور وقت کا اندازہ اسی سے لگاتا تھا۔

(جاری ہے)

دیوار پر لگے ریک پر ایک باد بانی جہاز کا ماڈل بھی رکھا رہتا تھا۔بظاہر اس کا وہاں کوئی کام نہ تھا،مگر نہ جانے کیوں ادیب نے وہاں رکھا ہوا تھا۔
ادیب اپنے کام سے فارغ ہو کر روزانہ دوپہر کے بعد وہاں آتا،کرسی پر بیٹھتا ،کاغذ آگے رکھتا اور قلم ہاتھ میں لے کر سوچ میں ڈوب جاتا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی نئی کہانی کو ذہن میں ترتیب دے رہا ہے۔
پھر کچھ دیر بعد وہ قلم چلانے لگتا۔یہ اس کا روز کا معمول تھا۔وہ شام تک وہاں رہتا پھر ٹہلنے نکل جاتا۔
ایک دن جب کمرا خالی تھا۔قلم ،ریت گھڑی اور باد بانی جہاز آپس میں باتیں کرنے لگے۔
قلم بولا:”اس کمرے میں سب سے اہم چیز میں ہوں۔میرے بغیر وہ کچھ نہیں لکھ سکتا۔“
ریت گھڑی نے حیرت سے اسے دیکھا اور کہا:”اتنا غرور اچھا نہیں،اگر تم نہ ہو تو وہ کسی دوسرے قلم سے بھی لکھ سکتاہے۔

”میرا خیال ہے ،یہاں رکھی ہر چیز کی اہمیت ہے ،ورنہ وہ یہاں نہیں ہوتی ۔“باد بانی جہاز نے باتوں میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔
قلم غصے سے بولا:”مجھے تو تمھارا یہاں کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔دیکھنا کسی دن وہ تمہیں اُٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دے گا۔“
بادبانی جہاز طنزیہ انداز میں مسکراکر بولا:”پرانی کہاوت ہے”گدھا کیا جانے زعفران کا مزہ“ تمھیں نہیں پتا میں آرٹ کا ایک شاہکار ہوں۔
مجھے ایک فن کارنے بڑی محنت سے تیار کیا تھا اور ادیب نے بھاری قیمت ادا کرکے مجھے خریدا تھا۔“
”اور میں کئی بازاروں میں ڈھونڈنے کے بعد اسے ملی تھی۔“ریت گھڑی بولی۔
”مگر تم دونوں اس کے کسی کام نہیں آتے۔کام صرف میں آتا ہوں۔تم تو بس یوں ہی رکھے رہتے ہو۔“قلم نے کہا۔
ریت گھڑی ناگواری سے بولی:”میں بھی کام آتی ہوں۔
گھر میں اور گھڑیاں بھی ہیں،مگر وہ وقت ہمیشہ میرے چہرے پر دیکھتا ہے۔“
باد بانی جہاز نے اعتماد سے کہا:”تم نہیں جانتے،جب وہ لکھتے ہوئے کہیں اٹک جاتاہے تو اس کی نظریں مجھ پر ٹک جاتی ہیں۔جس سے اسے نئے خیالات آتے ہیں اس نے اپنی اکثر کہانیوں میں میرا ذکر کیا ہے۔“
”اونہہ ،میں نہیں مانتا۔سب سے زیادہ اہمیت میری ہے۔میں اگر نہ ہوں تو وہ لکھے بھی نہیں۔

قلم غرور سے بولا۔
”یہ تمھاری خام خیالی ہے۔ہم بھی اہمیت رکھتے ہیں۔“ریتے گھڑی بولی۔
”اچھا، ایسی بات ہے تو ہاتھ کنگن کو آر سی کیا،ایسا کرتے ہیں۔ہم کچھ کچھ دیر کے لئے غائب ہو جاتے ہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کے بغیر کام رکتا ہے اور کس کے بغیر نہیں۔“قلم بولا۔
ریت گھڑی اور باد بانی جہاز فوراً راضی ہو گئے۔

کچھ دیر بعد جب ادیب کمرے میں آتا تو قلم اپنی جگہ سے غائب تھا۔ادیب کرسی پر بیٹھا،کاغذ آگے رکھا اور ہاتھ بڑھا کر قلم اُٹھانا چاہا تو قلم دان خالی تھا۔اس نے اِدھر اُدھر دیکھا،کتابوں کو اُلٹا پلٹا،مگر قلم نہیں ملا۔اس نے میز کے نیچے نظر دوڑائی ،لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھا۔اس نے دراز کھولی وہاں کئی قلم موجود تھے۔اس کا ہاتھ انھیں اُٹھانے کے لئے بڑھا،مگر پھر وہ رک گیا اور ڈھیلے ڈھالے انداز میں کرسی کی پشت سے ٹک کر سوچ میں گم ہو گیا۔

کچھ دیر یوں ہی گزر گئی،پھر وہ چونک کر اُٹھا۔ٹوپی جھاڑ کر سر پر جمائی اور گھر سے باہر نکل گیا۔اس کارخ شمال کی طرف تھا۔جہاں درختوں کی طویل قطاریں تھیں۔آج وہ چہل قدمی کے لئے جلدی چلا گیا تھا۔کچھ دیر بعد قلم واپس آگیا۔وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولا:”دیکھا تم لوگوں نے آج اس نے کچھ بھی
نہیں لکھا،کیونکہ میں موجود نہ تھا۔“
وہ دونوں بولے:”اتنا خوش مت ہو۔
ابھی ہماری باری باقی ہے۔“
”پروا نہیں،مجھے معلوم ہے تم لوگ اس کے لئے اتنے اہم نہیں ہو۔“یہ کہہ کر قلم نے قہقہہ لگایا۔پھر وہ ساری رات خوشی سے گاتا رہا۔
اگلے دن ریت گھڑی کی باری تھی۔جب ادیب کمرے میں آیا تو وہ غائب ہو چکی تھی۔اس نے کاغذ قلم سنبھالا اور سوچ میں ڈوب گیا۔پھر اس کی نظر اس سمت میں گئی جہاں ریت گھڑی رکھی تھی۔
وہ جگہ خالی تھی۔وہ حیرانی سے اس جگہ کو تکنے لگا پھر کمرے میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں،مگر گھڑی کہیں نہیں تھیں۔وہ دروازے کی طرف منہ کر بولا:”میری ریت گھڑی کہاں گئی؟“
اندر کہیں سے اس کو نک چڑی بیوی کی آواز آئی:”ہمیں نہیں پتا کہاں گئی ۔“
اس نے اپنا سر کھجایا اور سادہ کاغذ پر نظریں گاڑھ دیں۔وہ اُنگلیوں میں قلم کو گھما رہا تھا۔
کچھ دیر وہ اسی طرح بیٹھا رہا پھر اُٹھا اپنی ٹوپی جھاڑ کر سر پر جمائی اور باہر نکل گیا۔اس کا رخ شمال کی طرف تھا۔اس دن بھی وہ کچھ نہیں لکھ سکا تھا۔کچھ دیر بعد ریت گھڑی واپس آگئی۔وہ خوشی سے سر شار تھی۔وہ بولی :”لو دیکھو میری بھی اہمیت ہے۔وہ آج بھی کچھ نہیں لکھ پایا۔“
قلم کا منہ ٹیڑھا ہو گیا۔اس رات ریت گھڑی بہت خوش تھی۔اس کی باریک ریت اوپر کے حصے سے گنگناتی ہوئی نیچے گرتی رہی۔

تیسرے دن بادبانی جہاز کی باری آئی۔ادیب کمرے میں آیا تووہ غائب ہو چکا تھا۔اس نے حیران ہو کر پورے کمرے میں ڈھونڈا ،مگر وہ نہیں ملا۔وہ دروازے میں چلا آیا اور پکارا:”آج میرا بادبانی جہاز غائب ہے،روز میری کوئی نہ کوئی چیز غائب ہو جاتی ہے۔آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟“
اس کی نک چڑی بیوی کی آواز آئی:”ہمیں نہیں پتا۔“
وہ واپس پلٹا اور کاغذ قلم سنبھال کر بیٹھ گیا۔
کچھ وقت یوں ہی گزر گیا پھر وہ اپنی ٹوپی جھاڑ کر سر پر جمائی اور گھر سے باہر نکل گیا آج بھی وہ چہل قدمی کے لئے جلدی چلا گیا تھا۔کچھ دیر بعد بادبانی جہاز واپس آگیا۔وہ ہنس رہا تھا۔اس کی ہنسی پانی میں ہچکولے کھاتے جہاز کی جلتر نگ جیسی تھی۔ ریت گھڑی بولی:”لوثابت ہو گیا۔ہم تینوں اس کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔“
قلم نے ایک بار پھر منہ بنا لیا اور چپ سادھ لی۔
اس کے پاس بولنے کے لئے اب کچھ نہیں بچا تھا۔اگلے دن سب چیزیں اپنی جگہ موجود تھیں۔ادیب حسب معمول کمرے میں آیا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔وہ سوچ میں گم تھا۔پہلے کچھ دیر تک وہ قلم کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا،پھر اس نے ریت گھڑی کو اُٹھایا اور غور سے اس کی گرتی ریت کو تکنے لگا پھر اسے رکھ کر ادیب کی سوچتی نظریں بادبانی جہاز پر جم گئیں۔وہ آگے جھکا اور اسے اپنی آنکھوں کے قریب لے آیا۔کچھ دیر وہ دیکھتا رہا۔
پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔اسے ایک انوکھی کہانی کا خیال سوجھ گیا تھا جو ان تینوں کے گردگھومتی تھی۔اس نے قلم اُٹھایا اور کہانی لکھنی شروع کردی۔یہ کہانی جو آپ پڑھ رہے ہیں،وہ ہی تو نہیں ہے؟

Browse More Moral Stories