Farakh Dil - Article No. 2160

Farakh Dil

فراخ دل - تحریر نمبر 2160

جو بات وہ اپنے شوہر کو نہ سمجھا سکی وہ پَل بھر میں بیٹی نے سمجھا دی

پیر 10 جنوری 2022

شہلا جمال
ان کا اپنا کاروبار تھا،جس میں دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی ہوتی جا رہی تھی۔پیسہ آنے کے باوجود انہوں نے اپنا آبائی محلہ نہ چھوڑا۔حالانکہ اب وہ کسی بھی مہنگے علاقے میں گھر خرید سکتے تھے۔
”آج پانی پھر نہیں آیا؟“انہوں نے گھر میں داخل ہو کر اپنی بیوی سے پوچھا۔
”نہیں۔“بیوی نے کھانا میز پر رکھتے ہوئے کہا۔

”اچھا،پانی کا ٹینکر منگواتا ہوں۔“انہوں نے یہ کہہ کر کھانا شروع کیا۔
طویل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے انہوں نے بڑا جنریٹر خرید لیا تھا۔گرمی سے لوگ بے حال ہوتے اور ان کے گھر سے جنریٹر چلنے کی آواز سنائی دیتی اور رات کو جب پورا محلہ تاریکی میں ڈوب جاتا تو ان کا گھر روشن ہو جاتا۔جب بجلی طویل عرصے کے لئے غائب ہوتی تو قریبی پڑوسی اپنے فریج کا گوشت رکھوانے آتے،تاکہ خراب ہونے سے بچ جائے۔

(جاری ہے)

وہ گھر پر ہوتے تو ناگواری کا اظہار کرتے اور بیوی پر غصہ کرتے۔
”ہم نے کیا ٹھیکا لے رکھا ہے لوگوں کا۔میرا گھر کوئی فلاحی ادارہ نہیں،جہاں میں لوگوں کی مدد کروں۔“غصے میں ان کی آواز تیز ہو گئی۔
بیوی نے وضاحت کی:”آخر یہ ہمارے پڑوسی ہیں،بجلی نے اتنا تنگ کر رکھا ہے کہ ان کے فریج میں رکھا گوشت خراب ہو جاتا ہے،اس لئے یہ دو تین پڑوسی ہمارے گھر گوشت رکھوا دیتے ہیں۔

”تم ہی نے انہیں اتنا منہ لگایا ہے جبھی یہ لوگ گھڑی گھڑی تنگ کرنے آ جاتے ہیں۔“ان کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
آخر پڑوسیوں کا بھی تو کچھ حق ہوتا ہے۔ہم اس طرح ان کے کام آتے ہیں اور جب آپ رات گئے دیر سے آتے ہیں تو یہ پڑوسی خواتین ہی ہوتی ہیں جو میرا دل بہلانے کے لئے میرے پاس بیٹھی رہتی ہیں۔“بیوی نے کہا۔
ایک دن انہوں نے پانی کا ٹینکر منگوایا جس سے ان کا پورا ٹینک بھر گیا۔
کچھ دیر بعد پڑوس کی دو خواتین تھوڑا پانی لینے آ گئیں۔بیوی نے خوش دلی سے انھیں پانی دے دیا۔بیوی کا یہ عمل وہ دیکھ رہے تھے۔اس وقت تو چپ رہے بعد میں بیوی سے کہا:”تمہاری یہ خدمت خلق کی عادت مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔“
”میں تو بس دعا کرتی ہوں کہ اللہ نے جس طرح آپ کے رزق میں فراخی عطا کی ہے،اسی طرح آپ کو فراخ دل بھی بنا دے۔“بیوی نے جواب دیا ان کے پاس بڑبڑانے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔

”کیا بات ہے غصے میں لگ رہے ہیں۔“بیوی نے پوچھا۔وہ ابھی جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر آئے تھے۔وہ پانچ وقت کے نمازی تھے اور حج بھی کر چکے تھے۔
”یہ محلے کے لوگ بھی عجیب ہیں مجھے بہت سخی سمجھتے ہیں،کہتے ہیں کہ پانی کی جو نئی لائن آپ اپنے گھر ڈلوا رہے ہیں،اگر اُسے محلے کی مرکزی لائن سے منسلک کر دیں تو سب کا بھلا ہو جائے گا ہم سب آپ کو زندگی بھر دعائیں دیں گے۔
اب پیسہ میں لگاؤں اور فائدہ سب اُٹھائیں۔“انہوں نے ناگوار لہجے میں کہا۔
اسی وقت ان کی چھوٹی بیٹی کمرے میں داخل ہوئی:”بابا!آپ مجھے فراخ دلی کا جملہ بنا دیجیے۔“
”فراخ دل انسان کو اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں۔“انہوں نے جملہ بنا دیا۔
”بابا!اب مجھے اس کا مطلب بھی تو بتائیے۔“بیٹی نے ضد کی۔
”دیکھو بیٹا!فراخ دلی کا مطلب ہے دل بڑا ہونا اور جب انسان کا دل بڑا ہو گا تو وہ دوسرے انسانوں کا خیال بھی رکھے گا اور ان کی مدد بھی کرے گا۔
“انہوں نے وضاحت کی۔
”بابا!فراخ دلی کی اُلٹ کیا ہو گی وہ بھی لکھنا ہے مجھے۔“بیٹی نے کہا۔
”بیٹا!فراخ دلی کی ضد ہے تنگ دلی یعنی دل کا چھوٹا ہونا اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی کسی دوسرے کی مدد نہ کرنا۔“انہوں نے بیٹی کو سمجھایا۔
”اچھا بابا!اب آپ مجھے دو چاکلیٹ لا دیجیے۔“بیٹی نے اپنے بابا سے لاڈ سے کہا۔
”میں اپنی پیاری سی گڑیا کے لئے چاکلیٹ لا دوں گا،مگر یہ بتائیے کہ آپ ہر چیز دو کیوں منگواتی ہیں؟“انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔

”بابا!ایک میری چاکلیٹ اور ایک میری سہیلی کی۔میری استانی کہتی ہیں کہ مل بانٹ کر کھانا چاہیے۔مل جل کر کھانے میں جو مزہ ہے وہ اکیلے میں نہیں اور ابھی آپ نے فراخ دلی اور تنگ دلی کا فرق بتایا تو میں فراخ دل بننا چاہتی ہوں ،تنگ دل نہیں۔؟“بیٹی نے جواب دیا۔
انہوں نے بیٹی کو پیار کیا اور گھر سے باہر جانے لگے۔
”آپ اس دھوپ میں چاکلیٹ لینے جا رہے ہیں،شام کو چلے جائیے گا۔
“بیوی نے انہیں روکا۔
”بیگم!چاکلیٹ لینے بھی جا رہا ہوں اور محلے والوں کو یہ بتانے بھی کہ ہماری پانی کی لائن محلے کی مرکزی پانی کی لائن سے ہی منسلک ہو گی۔میں خود کو تنگ دل کے بجائے فراخ دل کہلانا چاہتا ہوں۔“انہوں نے مسکرا کر جواب دیا۔
بیوی نے سکون کا سانس لیا کہ اس کی دعائیں رنگ لے آئیں۔جو بات وہ اپنے شوہر کو نہ سمجھا سکی وہ پَل بھر میں بیٹی نے سمجھا دی۔

Browse More Moral Stories