اگست کا ایک ابرآلودن تھا۔میاں بلاقی کو چوان،تھانے میں پریشان بیٹھا تھا۔تھانے دار غصے سے کہہ رہا تھا: میاں کوچوان! تاریخ کی دوپہر کو تم نے لیک ویو کے علاقے سے کچھ سامان اٹھایا تھا؟
جاویدبسام:
اگست کا ایک ابرآلودن تھا۔میاں بلاقی کو چوان،تھانے میں پریشان بیٹھا تھا۔تھانے دار غصے سے کہہ رہا تھا: میاں کوچوان! تاریخ کی دوپہر کو تم نے لیک ویو کے علاقے سے کچھ سامان اٹھایا تھا؟
جی ہاں۔ بلاقی بولا۔
وہ کیا چیز تھی؟تھانے دارنے پوچھا۔
کوئی میزیا اس قسم کی کوئی چیز تھی۔اس پر کپڑا ڈھکا ہوا تھا۔بلاقی بولا۔
وہ ایک پیانوتھا۔
تھانے دار گرج کربولا: ایک قیمتی پیانو نوجس پر مشہورموسیقار“ بتھوون“ نے اپنی مشہور ترین ڈھنیں تخلیق کی تھیں۔وہ چارلس خاندان کی ملکیت تھا۔چوروں نے اسے وہاں سے چرایا اور تمھاری گاڑی میں ڈال کرلے گے۔
اچھا وہ چور تھے؟بلاقی تعجب سے بولا۔
ہاں وہ چور تھے اور تم نے ان کی مدد کی۔تھانے دار نے کہا۔ لیکن گھرکاتالا انھوں نے چابی سے کھولا تھا۔
(جاری ہے)
بلاقی گھبرا کربولا۔
تمھیں پتا ہے اس پیانو کی کیا قیمت ہے؟ تھانے دار نے پوچھا۔
بلاقی نے نفی میں سرہلادیا۔
ایک لاکھ ڈالر۔تھانے دار بولا۔
چلیں میں آپ کوان کے گھرلے چلتا ہوں۔بلاقی بولا۔
ہاں وہاں تو ہمیں جاناہی ہوگا۔تھانے دار ا‘ٹھ کھڑا ہوا۔
وہ پولیس وین میں وہاں پہنچے۔بلاقی نے آٹھویں شاہراہ پر ایک بنگلے کی طرف اشارہ کیا۔اس کا پھاٹک کھلاہواتھا۔
وہ اندر داخل ہوئے۔بلاقی بولا:میں نے پیانو اُتار کریہاں رکھ دیا تھا،پھراُجرت لے کررخصت ہوگیا۔
تھانے دار زمین کاجائزہ لینے لگا۔بلاقی نے گھر پر نظر دوڑائی ،ایسا لگتا تھا وہاں کوئی موجود نہیں۔ پھر اس کی نظر ایک پرانے بورڈ پرپڑی جس پر”برائے فروخت“ لکھا تھا۔اس کے منھ سے ایک گہری سانس نکل گئی۔تھانے دار نے بھی بورڈ دیکھ لیا۔وہ بولا:خوب! وہ لوگ اتنے بے وقوف نہیں تھے۔
انھوں نے پیانو یہاں اُتار ااور جب تم چلے گے تو اسے کہیں اورلے گئے۔
میراخیال ہے وہ قریبی کسی گھر میں گئے ہوں گے۔بلاقی بولا۔
اپنا خیال اپنے پاس رکھو،ہم بغیر ثبوت کے کسی کے گھر کی تلاشی نہیں لے سکتے ۔تھانے دار گرج کر بولا۔
وہ واپس روانہ ہوگئے۔تھانے پہنچ کر بلاقی کابیان لیا گیا۔بلاقی نے بتایا:وہ دوآدمی تھے۔ایک ادھیڑ عمر کاگنجا تھا۔
اس کے گال پرموٹا تل تھا ، جب کہ دوسرا ایک نوجوان تھا۔
تھانے دار بولا”ہم تفتیش شروع کررہے ہیں۔تم ایک ہفتے تک قصبے سے باہر نہیں جاسکتے۔
بلاقی پریشانی سے بولا۔میر ی آج ہی ایک کسان سے بات ہوئی ہے۔اسے آلو کی بوریاں شمالی قصبے بھیجنی ہیں۔
نہیں تم قصبے سے قدم باہر نہیں نکال سکتے۔یہ میراحکم ہے۔اب یہاں سے جاسکتے ہو۔ تھانے دار نے حکم دیا۔
بلاقی خاموشی سے اُٹھ کرباہر نکل گیا۔اس کے دوستوں نے جب پابندی کاسنا تو کہنے لگے کہ وہ اپناکام کرتا رہے،تھانے دار کوپتا نہیں چلے گا،لیکن بلاقی نے کہا کہ وہ قانون کی ہمیشہ پابندی کرتا رہا ہے۔
ایک ہفتے بعد وہ تھانے پہنچا اسے دیکھ کر تھانے دار کامنھ بن گیا۔بلاقی بولا: جناب آپ کی تفتیش کہاں تک پہنچی ؟
تھانے دار عب دار لہجے میں بولا۔
ہم اس پر کام کررہے ہیں۔قصبے کا سالانہ میلا بھی شروع ہونے والا ہے ہمیں اس کے بھی انتظامات کرنے ہیں۔
آپ نے ان لوگوں کے خاکے بنوا کر پڑوسیوں کودکھائے؟ بلاقی بولا۔
سراغ رساں بننے کی ضرورت نہیں،ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ تھانے دار غصے سے بولا۔
بلاقی نے کہا: ٹھیک ہے آپ کاجودل چاہے کریں،آج میری پابندی ختم ہوگئی۔
ہرگز نہیں تم پر ایک ہفتے کی اور پابندی لگائی جارہی ہے۔
تھانے دار گرجا۔
یہ تو زیادتی ہے،مجھے بتائیں آپ نے پورے ہفتے کیا کام کیا ہے؟بلاقی غصے سے بولا۔
یہ ہم نہیں بتاسکتے ۔تم کوچوان ہو،کوچوان ہی رہو اور اب چلتے پھرتے نظرآؤ۔بلاقی مایوسی سے اُٹھ کر باہر نکل گیا۔
بازار میں کسی نے اسے بتایا کہ نیا تھانے دار کشتی کے مقابلے دیکھنے کابہت شوقین ہے۔ وہ میلے میں ہونے والے مقابلوں کی تیاری کررہا ہے۔
آج کل اس کا زیادہ وقت اکھاڑے میں گزرتا ہے۔ بلاقی سوچ میں گم آگے بڑھ گیا۔کچھ دورچل کر اسے اپنا مصور دوست راجر،اسٹول پر بیٹھا نظر آیا۔ بلاقی کو دیکھ کر وہ چہکا :آؤ میاں بلاقی !آج تمھیں بھی اپنی تصویر بنوانے کاخیال آہی گیا۔
وہ کئی دفعہ بلاقی سے تصویر بنوانے کاکہہ چکاتھا۔بلاقی پھیکی سی ہنسی ہنس کر بولا۔نہیں میں کسی اور کام سے آیاہوں۔
مجھے وہ لوگوں کے خاکے بنوانے ہیں۔
جب خاکے بن گئے تو راجرنے پوچھا:یہ کون ہیں؟تم پریشان نظر آرہے ہو؟
یہ چور ہیں۔ان کی وجہ سے مجھ پر قصبے سے باہر جانے کی پابندی لگ گئی ہے۔بلاقی بولا۔
تم جج صاحب کے پاس جاؤ،وہ تمھیں جانتے ہیں،ضرور مددکریں گے۔راجرنے مشورہ دیا۔
بلاقی بولا:” نہیں میں کبھی ذاتی کام سے ان کے پاس نہیں گیا۔مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔
خوب! ان باتوں کی وجہ سے تومیں تمھیں تصویربنوانے کے لیے کہتا ہوں۔
سنو تمھاری تصویر بناکر میرا شمار بھی بڑے مصوروں میں ہونے لگے گا۔راجرنے کہا۔
بلاقی جھلاکربولا۔میرے چہرے میں کیا ہے؟ہر محنت کش کاچہرہ ایسا ہی ہوتا ہےْ
ہاں لیکن اکثر ان میں ایمانداری ،حوصلہ مندی اور دوسروں کے کام آنے کاجذبہ نظر نہیں آیا۔ تمھارے چہرے سے ایک روشنی بھوٹتی ہے جو․․․ راجر نے کہا۔
بس بس زیادہ خوشامدنہ کرو۔یہ کہہ کربلاقی وہاں سے اُٹھ کرچل دیا۔اس نے خاکوں کی اُجرت چپکے سے ایک برش کے نیچے رکھ دی تھی،کیوں کہ راجر ہرگز اس سے پیسے نہیں لیتا۔
راجر چلایا”یقین کرو،یہ بات سچ ہے۔
بلاقی خاکے لے کرعلاقے میں پہنچا اور برابروالے مکان پر دستک دی۔ایک عورت نے دروازہ کھوالا اور غصے سے بولی۔مجھے کچھ نہیں خریدنا۔
پھرکیوں میرادروازہ بجایاہے؟یہاں سے چلتے بنو،تم مجھے شکل سے چور اُچکے لگتے ہو۔
بلاقی گھبرا کربولا:’میں اپنے کچھ رشتے داروں کی تلاش میں ہوں۔ان کی شکلیں ایسی ہیں ۔اس نے جلدی سے خاکے آگے کردیے۔عورت بھنا کربولی”یہ کسی کوڈھونڈنے کاکون ساطریقہ ہے،میں نے انھیں کبھی نہیں دیکھا۔اس نے دروازہ زور سے بند کردیا۔
بلاقی نے آپ بھری اور شرمندہ ہوکر سرکھجانے لگا۔پہلے گھر میں ہی جھاڑ پڑگئی تھی۔ابھی دونوں جانب دس دس گھروں میں بھی جانا تھا۔
آخر وہ ہمت کرکے آگے بڑھا۔اس نے ہر دروانے پر دستک دی۔کچھ لوگوں نے ناراضگی سے اور کچھ نے اخلاق سے بات کی ،لیکن کوئی بھی خاکوں کو نہیں پہچانا۔ بلاقی بہت تھک گیا تھا،لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ان میں ایک مکان بالکل بند تھا۔بلاقی نے نئے عزم کے ساتھ مکان کی تلاشی لینے کافیصلہ کیا۔دروازے پرتالا لگا ہواتھا۔اس نے کھڑکیوں پر قسمت آزمائی۔
وہ بھی بندتھیں،لیکن ایک کھڑکی کاشیشہ ٹوٹا ہوا تھا۔اس نے ہاتھ ڈال کر چٹخنی کھول لی۔ اندر دھول اور جالے نظر آرہے تھے۔بلاقی کو خیال آیاکہ اس طرح کسی کے گھر میں داخل ہونا ٹھیک نہیں۔ لیکن مجبوری تھی ۔وہ اُچھل کرکھڑکی پر چڑھا اور اندر اُتر گیا تھا۔دیواروں پر بیلیں بھی چڑھی تھیں۔بلاقی درختوں کے درمیان سے آگے بڑھا۔وہاں اندھیراچھایا ہوا تھا۔
اچانک اسے ایک درخت کے پیچھے دیوار میں ایک چھوٹا دروازہ نظر آیا۔اس نے پرخیال انداز میں گردن ہلائی۔دروازے پر مٹی جمی ہوئی تھی۔لگتا تھا عرصے سے بند ہے۔بلاقی زمین کاجائزہ لینے لگا۔آخر اسے ایک تازہ نشان نظر آیا۔ ایسا لگتا کسی نے دروازہ کھولا ہے۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے بیلیں اور پتے ہٹائے اور دروازہ کھول کر پچھلی گلی میں نکل آیا۔
وہ ساتویں شاہراہ تھی۔ اس کادل کہہ رہاتھا کہ چور وہیں کہیں چھپے ہوئے ہیں۔وہ کچھ دیر گلی کاجائزہ لیتا رہا پھر واپس لوٹ گیا۔
اگلے دن بلاقی صبح سویرے ہی وہاں چلا آیا اور ایک گھر کے باہر گھنی جھاڑی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ وہ ایک موٹی چادر بھی ساتھ لایا تھا۔گلی میں ابھی سناٹاتھا۔اسی وقت ایک سبزی فروش آواز لگاتا ہوا آیا۔ کچھ لوگوں نے اس سبزی خریدی۔
بلاقی انھیں غور سے دیکھ رہا تھا۔جھاڑیوں میں چھپنا یوں آسان نہیں تھا۔موٹی چیونٹیاں اور گرگٹ ادھر اُدھر بھاگتے پھر رہے تھے۔پھر ایک خوف ناک کتا بھی آنکلا۔ بلاقی نے جلدی سے اپنے اوپر چادر ڈال لی اور زمین سے چپک گیا۔کتا کچھ دیر اس کے قریب رکا رہا،پھر بھونک کر آگے بڑھ گیا۔بلاقی پھر نگرانی کرنے لگا۔لوگ اب اپنے کاموں پر جانے لگے تھے۔
بلاقی انھیں غورسے دیکھ رہاتھا۔آخر وہ کام یاب ہوا،تیسرے گھر سے وہ گنجا آدمی موٹرسائیکل پر باہر نکا اور تیزی سے روانہ ہوگیا۔بلاقی نے خدا کا شکرادا کیا اور تھانے کی طرف چل دیا۔
بلاقی تھانے پہنچا تووہاں تھانے دار میٹنگ میں مصروف تھا۔بلاقی ایک گھنٹے تک انتظار کرتا رہا۔ آخر تھانے دار بارہ آیا،بلاقی نے کہا: میں نے چوروں کاسراغ لگالیا ہے۔
تھانے دارنے حقارت سے اسے دیکھا اور بولا۔میرے پاس ابھی بالکل وقت نہیں ہے۔یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔
بلاقی نے افسوس سے گردن ہلائی اور بڑبڑایا۔دوست تم اپناکام کرنا چاہتے ہی نہیں۔
وہ کوئی ترکیب سوچتے ہوئے گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں اسے اپنا ایک کوچوان دوست نظر آیا۔ وہ دوسرے قصبے میں کام کرتا تھا۔بلاقی اسے دیکھ کر چونک اُٹھا۔اس نے کوچوان کوچاے کی دعوت دی۔
دونوں چاے خانے میں آبیٹھے۔ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد بلاقی نے اس کے وہاں آنے کا سبب پوچھا وہ بولا یہاں سے کچھ سامان لے کر جانا ہے۔ایک آدمی نے مجھے بلایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس قصبے کے کوچوان بے ایمان ہیں۔ٹھیک طرح کام نہیں کرتے۔
ہاں میں سمجھ گیا۔وہ ایک گنجا آدمی ہے۔اس کے منھ پر تل ہے اور وہ ساتویں شاہراہ پر رہتاہے۔ بلاقی نے ہوا میں تیر چھوڑا۔
ہاں لیکن تم اسے کیسے جانتے ہو؟کوچوان نے پوچھا۔
بلاقی پرخوش لہجے میں بولا۔وہ کچھ دن پہلے ایک کوچوان سے جھگڑرہا تھا۔میں نے بچ بچاؤ کرایا تھا۔اس کاکہنا تھا کہ میں اب تم لوگوں سے کام نہیں کراؤں گا۔
اچھا اسی لیے اس نے مجھے بلایا ہے۔کوچوان نے کہا۔
بلاقی نے پوچھا “ہاں تم کب اس کاکام کرو گے۔
کوچوان نے کہا: کل صبح دس بجے۔
ٹھیک ہے کل سے میلا بھی شروع ہورہا ہے،راستے پر بہت ہجوم ہوگا۔
تم بگھی ذرا دھیان سے چلانا۔بلاقی بولا پھر وہ وہاں سے اُٹھ گیا۔
دوسرے دن وہ پھر جھاڑیوں میں چھپابیٹھا تھا۔وہ اپنے ساتھ ایک لمبا ڈنڈا بھی لایا تھا۔دس بجے بلاقی کے دوست کی بگھی گلی میں داخل ہوئی اور تیسرے گھر کے آگے آکر رک گئی۔بلاقی تیار ہوگیا۔ دروازہ کھلا اور وہ دونوں چور کپڑے میں لپٹا پیانو باہر نکال لائے۔وہ تیزی سے بگھی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ بلاقی اُچھل کر جھاڑیوں سے باہر آگیا اور چلا کر بولا۔
رکو دوستوں ایسی بھی کیا جلدی ہے؟
وہ اس کی آواز سن کر اچھل پڑے۔بلاقی ڈنڈا لہراتا ہوا ن کی طرف بڑھ رہا تھا۔ان کے منھ حیرت سے کھلے تھے۔پھر وہ چونکے اور دونوں نے مل کر بلاقی پر حملہ کیا۔بلاقی لاٹھی چلانا جانتا تھا۔وہ تیزی سے ڈنڈا گھمانے لگا۔وہ دونوں بلاقی کے نزدیک نہیں آپارہے تھے۔
بلاقی بولا: تم لوگوں کی وجہ سے میں نے بہت پریشانی اُٹھائی،اب تم بھی تھوڑی تکلیف برداشت کرو۔
ڈنڈا گھوم کر گنجے کے سرپرلگا،وہ چکرا کر گر گیا، پھر لڑکے کابھی یہی حشر ہوا۔بلاقی کوچوان سے بولا:دوست میں تمھار ا نقصان پورا کروں گا۔انھیں باندھنے میں میری مددکرو۔
دونوں نے مل کر ان کے ہاتھ پاؤں باندھے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔اُدھر تھانے کے باہر اخباری نمائندے بھی موجود تھے۔انھیں بلاقی نے خط کے ذریعے سے بلایا تھا لیکن تھانے دار غائب تھا۔
وہ انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر بعد تھانے دار آپہنچا اسے پتا چل گیا تھا کہ پیانو کے چور پکڑے گئے ہیں،لیکن اخباری نمائندوں کو دیکھ کر اس کامنھ لٹک گیا۔وہ سارے راستے پلان بناتا آیا تھا کہ کس طرح اس کام یابی کواپنے کھاتے میں ڈالے گا۔بلاقی کو وہ دودھ میں مکھی کی طرح نکال پھینکنا چاہتا تھا۔خیر سب اندرداخل ہوئے۔بلاقی نے بتایا کہ اس نے چوروں تک پہنچنے کے لیے کیا کیا پاپڑبیلے۔
وہ اخباری نمائندوں سے مخاطب تھا۔تھانے دار منھ لٹکائے بیٹھا تھا۔بلاقی نے کہا: دوستو! ان چوروں تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں تھا،لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ آدمی اپنے کام سے مخلص ہوا ور اپنے فرض ٹھیک طر ح ادا کرے۔
چوروں نے اپنے جرم کااقرار کرلیا۔انھوں نے بتایا کہ پیانو کا سودا ہوچکا تھا۔
جیسے ہی وہ دوسرے قصبے میں پیانو پہنچانے انھیں پیسے مل جاتے ہیں۔
اخباری نمائندے بلاقی سے سوالات کررہے تھے،جن کا جواب وہ خوشی خوشی دے رہا تھا۔ پھر وہ چہک کر بولا: جناب تھانے دار صاحب بچپن میں مجھے موسیقی کابہت شوق تھا۔میں نے سیکھی بھی تھی۔ کیا آپ مجھے اس عظیم پیانو پر ایک دھن بجانے کی اجازت دیں گے۔
تھانے دار غصے سے اسے دیکھنے لگا۔
کوئی بولا: میں ان رض شناس لوگوں کوخراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں،جو کبھی اپنے فرض سے غافل نہیں ہوسکتے تھے، افسوس آج وہ ہم میں موجود نہیں ہیں۔
لوگ اس کے طنز کو سمجھ کر مسکرانے لگے۔تھانے دار کامنھ کچھ اور لٹک گیا تھا۔ پھر سب وہاں سے اُٹھ گئے۔چوروں کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔
اگلے دن تھانے دار کو اعلاحکام کی جانب سے ایک خط موصول ہوا،جس میں اسے سخت ڈانٹ ڈپٹ کی گئی تھی ،ساتھ ہی تبادلے کے احکامات بھی تھے اور اس کا عہدہ بھی کم کردیا گیا تھا۔ایک خط میاں بلاقی کوبھی ملاتھا۔جس میں اس کی خوب تعریف کی گئی تھی۔ساتھ ہی اسے پیش کش کی گئی تھی کہ اگروہ چاہے تو اسے خفیہ پولیس میں عہدہ دیا جاسکتا ہے۔خط پڑھ کر بلاقی ہنس پڑا۔اس نے جواب میں لکھا تھا جناب !میں پیدائشی کوچوان ہوں، میراباپ بھی ایک کوچوان تھا۔مجھے اپنا کام بہت پسند ہے آپ کی پیش کش کاشکریہ۔