Ghanne Jangal Se Greater Iqbal Park Tak - Article No. 1706
گھنے جنگل سے گریٹر اقبال پارک تک - تحریر نمبر 1706
پرانے وقتوں کی بات ہے دریائے راوی بادشاہی مسجد اور قلعہ اکبری کی شمالی دیواروں کے قریب سے گزرا کرتا تھا ۔کئی صدیاں اس جگہ بہنے کے بعد دریا آہستہ آہستہ اپنا رُخ تبدیل کرتا ہوا اپنی موجودہ گزرگاہ تک جا پہنچا۔
جمعرات 9 اپریل 2020
پیارے بچو!آئیے آپ کو گریٹر اقبال پارک کی کہانی سناتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی بات ہے دریائے راوی بادشاہی مسجد اور قلعہ اکبری کی شمالی دیواروں کے قریب سے گزرا کرتا تھا ۔کئی صدیاں اس جگہ بہنے کے بعد دریا آہستہ آہستہ اپنا رُخ تبدیل کرتا ہوا اپنی موجودہ گزرگاہ تک جا پہنچا۔ گویا جس جگہ راوی کی لہریں کبھی ٹھاٹھیں مارا کرتی تھیں وہاں ایک وسیع وعریض میدان وجود میں آگیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہاں ایک خطر ناک گھنا جنگل اُگ آیا۔شالا مار باغ سے بادامی باغ تک پھیلا ہوا یہ جنگل اس وقت گنجان تھا کہ یہاں دن کے وقت بھی کوئی شخص گزرتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا ۔سکھوں کا دور آتے آتے یہ جنگل ڈاکوؤں اور لٹیروں کی پناہ گاہ بن گیا تھا ۔انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا تو انہوں نے اپنی حفاظت کے پیش نظر اس جنگل کو صاف کر دیا تاکہ انگریز مخالف گر وہ یا دیگر سماج دشمن عناصر یہاں چھپ کر کارروائیاں نہ کر سکیں ۔
(جاری ہے)
جنگل کٹنے کے بعد یہاں چٹیل میدان وجود میں آگیا جسے انگریزوں نے پلٹن میدان کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا جہاں انگریز فوج کی پریڈ وغیرہ ہوا کرتی تھی ۔علاوہ ازیں گھڑ دوڑ اور نیزہ بازی کے مقابلے بھی اس میدان میں منعقد کرائے جاتے تھے ۔شام کے وقت اندرون شہر کے لوگ میدان میں چہل قدمی اور سیر کے لئے آیا کرتے تھے ۔1930ء کے لگ بھگ میدان میں آم اور دوسرے پھلوں کے درخت لگوائے گئے ۔علاوہ ازیں میدان کو گھاس اور پودوں سے بھی آراستہ کیا گیا ۔اس طرح یہاں جو باغ وجود میں آیا اُسے اس وقت کے گورنر جنرل ہند (وائسرائے) لارڈ منٹو کی نسبت سے منٹو پارک کا نادم دے دیا گیا۔ یہ نام قیام پاکستان تک مشہور رہا اور اب تک یہ نام ذہنوں میں محفوظ ہے ۔
جس زمانے میں لاہور شہر صرف قلعہ اور اس کے گردو نواح تک محدود تھا اس وقت منٹو پارک بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ شہر کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے منٹو پارک عوام میں بے پناہ مقبول تھا۔ اس وقت تک لاہور کے دوسرے پارک اور باغات صرف انگریز حکمرانوں اور امراء کے لئے مخصوص تھے اسی لئے منٹو پارک کی اہمیت زیادہ ہو گئی تھی ۔عام شہریوں کی تفریح وعوامی تقریبات کے لئے منٹو پارک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔اس لئے یہ مقام اپنے اندر کئی یاد گار داستانیں سمیٹے ہوئے ہے ۔پتہ چلتا ہے کہ شروع ہی سے یہ پارک ادبی محافل ،بڑے پہلوانی دنگلوں اور سیاسی اجتماعات کا مرکز رہا ۔بسنت پر یہاں پتنگ بازی کے مقابلے ہوئے جن میں ہر مذہب کے لوگ ذوق وشوق سے حصہ لیتے تھے ۔منٹو پارک میں فٹ بال، ہاکی، کبڈی ،کُشتی اور کرکٹ کے مقابلے ہوا کرتے ۔پارک کا مغربی حصہ مختلف کھیلوں اور ادبی محافل کے لئے مخصوص تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا 27ویں اجلاس 22،23اور 24مارچ1940کو اسی منٹو پارک میں منعقد ہوا۔ 23مارچ کو یہاں پاکستان کے قیام کی تاریخی قرار داد پیش کی گئی جسے 24مارچ کو منظوری دے کر تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ۔اور بعد ازاں اسی جگہ پر مینار پاکستان تعمیر کیا گیا ۔اب اس کا نام گریٹر اقبال پارک ہے۔
Browse More Moral Stories
جادو کا شیشہ اور شہزادی
Jadu Ka Sheesha Aur Shehzadi
گڈ لک
Good Luck
پیچھے ہٹو اور جیت جاؤ
Peechay Hato Aur Jeet Jao
عقاب ایک شکاری پرندہ
Eagle - Aik Shikari Parinda
آخرت کی تکلیف
Akhirat Ki Takleef
نانی،دادی اور ہم
Nani Dadi Aur Hum
Urdu Jokes
ایک مالدار
Aik maldaar
ڈاکٹر اپنے مریض سے
Dr apne mareez se
ایک بے وقوف
aik bewakoof
پھٹیچر کار
phateechar car
کرنل صاحب
karnal Sahib
ایک بچہ رو رہا تھا
Aik Bacha Ro Raha Tha
Urdu Paheliyan
جیسا تو ہے وہ بھی ویسی
jaisa tu hai wo bhi wesi
رکھی تھی وہ چپ چاپ کیسی
rakhi thi wo chup chaap kaise
اک منا پانی میں نہائے
ek munna pani me nahae
اس کا دیکھا ڈھنگ نرالا
uska dekha rang nirala
پردے میں وہ چھپ کر آیا
parde me wo chup kar aya
ایک ادا سے جب وہ تھرکے
ek ada se jab wo tharke