Good Luck - Article No. 2262
گڈ لک - تحریر نمبر 2262
اگر عقل ہو تو اس جنگل میں شکار بہت ہے
ہفتہ 21 مئی 2022
ساجد کمبوہ
ایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔اس جنگل کا بادشاہ شیر کافی بوڑھا اور عقل مند تھا جس کی وجہ سے سبھی جانور پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ان سب کی آپس میں اچھی دوستی تھی۔وہ فارغ وقت میں خوب گپ شپ کرتے تھے۔لومڑی اور بھیڑیا بچپن کے دوست تھے۔وہ دونوں جب بھی ملتے تو خوب گھل مل کر باتیں کرتے۔
ایک دن دونوں کی راہ چلتے ملاقات ہوئی تو بھیڑیے نے کہا ”بی لومڑی!اب جنگل میں شکار کم ہوتا جا رہا ہے۔انسان نے اس جنگل کے جانوروں کا شکار کرکے ہم جانوروں پر بڑا ظلم کیا ہے۔اب تو جنگل کے اردگرد بھی بھیڑیں بہت کم ہو گئی ہیں۔میں تو کھانے کو ترس گیا ہوں،کہیں بھی شکار نہیں ملتا۔“
”اگر عقل ہو تو اس جنگل میں شکار بہت ہے“ بی لومڑی نے مکاری سے کہا۔
”بی لومڑی!اب تو جانور بھی بہت ہوشیار ہو گئے ہیں۔انسان کو دیکھ کر چھپ جاتے ہیں اور ہمیں دیکھ کر بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ٹی وی کیبل اور موبائل نے بھی انہیں اتنا ہوشیار کر دیا ہے کہ فوراً ہی مس کال کرکے اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دیتے ہیں،اب تو ٹویٹر اور وائی فائی بھی ان کی دست رس میں ہے۔“ بھیڑیے نے کہا۔
”اچھا آؤ ٹرائی کرتی ہوں“ یہ کہہ کر لومڑی نے بھیڑیے کو ساتھ لیا اور ندی کی طرف چل پڑی۔وہاں دیکھا کہ بہت سی مرغابیاں اور دوسرے پرندے پانی میں تیرتے ہوئے اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔لومڑی نے بھیڑیے کو جھاڑیوں میں چھپا دیا اور خود مرغا بی کی طرف بڑھ گئی۔پھر اس نے مسکراتے ہوئے مرغا بی سے کہا۔ ”کیسی ہو میری پیاری دوست؟“
مرغا بی بولی ”اچھی ہوں بی لومڑی!تمہاری چالاکی کے بڑے قصے سن رکھے ہیں اور اس لئے تمہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔تمہارا دوست بھیڑیا کہاں ہے؟“
وہ جھاڑیوں میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مان نہیں سکتا۔“ لومڑی نے مکاری سے کہا۔
”وہ کیا کہہ رہا ہے؟“ مرغا بی نے حیرت سے پوچھا۔
”چھوڑو بھی میری دوست!لومڑی نے مکاری سے کہا۔“
”پھر بھی وہ جھاڑیوں میں کیوں چھپا بیٹھا ہے؟“ مرغا بی ابھی تک حیران تھی۔
”وہ کہہ رہا تھا کہ مرغا بی کے پَر بڑے سخت ہوتے ہیں۔اگر اس کا تکیہ بنایا جائے تو اس پر سر رکھ کر کوئی سو نہیں سکتا۔مگر میں کہتی ہوں کہ تمہارے پَر بڑے نرم ہوتے ہیں،ان کا تکیہ بڑا نرم ہو گا۔“ لومڑی نے مکاری سے کہا۔
”میرے پَر واقعی نرم ہوتے ہیں۔تمہارا دوست غلط کہتا ہے۔“ مرغا بی نے پانی میں چکر لگاتے ہوئے کہا۔
”یہی بات میں نے بھیڑیے سے کہی تھی،مگر وہ مانتا ہی نہیں۔“ لومڑی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔
مرغا بی نے خوش ہو کر پانی میں غوطہ لگایا اور کافی دور جا کر پانی میں اُبھری۔اسے دیکھ کر لومڑی نے چالاکی سے کہا ”میں اسے بتا دیتی ہوں کہ تمہارے پَر کتنے نرم ہیں۔تم ایسا کرو کہ مجھے اپنا ایک پر دے دو،تاکہ وہ اسے چھو کر دیکھ لے۔“
”ٹھیک ہے میں تمہیں اپنی دم کے چند پَر دیتی ہوں۔“ یہ کہہ کر مرغا بی جونہی لومڑی کی طرف مُڑی تو لومڑی نے اسے دبوچ لیا اور چند لمحوں میں ہڑپ کر گئی۔پھر اس کے نرم و نازک پَروں کا تکیہ بنا کر اس پر بیٹھ گئی۔
بھیڑیا بڑی حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔بی لومڑی نے اس سے کہا ”دیکھا تم نے!یہاں ہر وقت شکار مل سکتا ہے،بس عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“
یہ سُن کر بھیڑیا جھاڑیوں سے نکلا اور اپنے جسم پر مٹی اور کیچڑ لگا کر ندی کی طرف بڑھ گیا۔اب اسے بھی لومڑی کی طرح کسی بے وقوف اور نادان مرغا بی کی تلاش تھی۔لومڑی نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور ”گڈ لک“ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
پیارے بچو!آپ نے اکثر سنا ہو گا خوشامد بُری بلا ہے۔مگر آج کل ترقی کی معراج خوشامد بن گئی ہے۔ہر افسر کی کوشش کہ میری خوشامد کی جائے میری آؤ بھگت کی جائے مجھے اعلیٰ درجہ دیا جائے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ماتحت اپنے افسران کی چاپلوسی کرتے ہیں غیبت کرتے ہیں اور سہولیات حاصل کرتے ہیں۔
وقتی طور پر تو فائدہ ہوتا ہے۔مگر آخرت خراب ہوتی ہے۔خوشامد پسند اپنا الو سیدھا کرتا ہے خواہ وہ انسان ہو یا جانور سچا اور کھرا بندہ کسی کو پسند نہیں۔مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اقوال زریں ہے کہ سچ بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسے یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ورنہ جھوٹ بولنے والے کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس نے پہلے کونسا بیان دیا تھا۔
ایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سے جانور رہتے تھے۔اس جنگل کا بادشاہ شیر کافی بوڑھا اور عقل مند تھا جس کی وجہ سے سبھی جانور پُرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ان سب کی آپس میں اچھی دوستی تھی۔وہ فارغ وقت میں خوب گپ شپ کرتے تھے۔لومڑی اور بھیڑیا بچپن کے دوست تھے۔وہ دونوں جب بھی ملتے تو خوب گھل مل کر باتیں کرتے۔
ایک دن دونوں کی راہ چلتے ملاقات ہوئی تو بھیڑیے نے کہا ”بی لومڑی!اب جنگل میں شکار کم ہوتا جا رہا ہے۔انسان نے اس جنگل کے جانوروں کا شکار کرکے ہم جانوروں پر بڑا ظلم کیا ہے۔اب تو جنگل کے اردگرد بھی بھیڑیں بہت کم ہو گئی ہیں۔میں تو کھانے کو ترس گیا ہوں،کہیں بھی شکار نہیں ملتا۔“
”اگر عقل ہو تو اس جنگل میں شکار بہت ہے“ بی لومڑی نے مکاری سے کہا۔
(جاری ہے)
”بی لومڑی!اب تو جانور بھی بہت ہوشیار ہو گئے ہیں۔انسان کو دیکھ کر چھپ جاتے ہیں اور ہمیں دیکھ کر بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔ٹی وی کیبل اور موبائل نے بھی انہیں اتنا ہوشیار کر دیا ہے کہ فوراً ہی مس کال کرکے اپنے ساتھیوں کو ہوشیار کر دیتے ہیں،اب تو ٹویٹر اور وائی فائی بھی ان کی دست رس میں ہے۔“ بھیڑیے نے کہا۔
”اچھا آؤ ٹرائی کرتی ہوں“ یہ کہہ کر لومڑی نے بھیڑیے کو ساتھ لیا اور ندی کی طرف چل پڑی۔وہاں دیکھا کہ بہت سی مرغابیاں اور دوسرے پرندے پانی میں تیرتے ہوئے اٹکھیلیاں کر رہے ہیں۔لومڑی نے بھیڑیے کو جھاڑیوں میں چھپا دیا اور خود مرغا بی کی طرف بڑھ گئی۔پھر اس نے مسکراتے ہوئے مرغا بی سے کہا۔ ”کیسی ہو میری پیاری دوست؟“
مرغا بی بولی ”اچھی ہوں بی لومڑی!تمہاری چالاکی کے بڑے قصے سن رکھے ہیں اور اس لئے تمہیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔تمہارا دوست بھیڑیا کہاں ہے؟“
وہ جھاڑیوں میں بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مان نہیں سکتا۔“ لومڑی نے مکاری سے کہا۔
”وہ کیا کہہ رہا ہے؟“ مرغا بی نے حیرت سے پوچھا۔
”چھوڑو بھی میری دوست!لومڑی نے مکاری سے کہا۔“
”پھر بھی وہ جھاڑیوں میں کیوں چھپا بیٹھا ہے؟“ مرغا بی ابھی تک حیران تھی۔
”وہ کہہ رہا تھا کہ مرغا بی کے پَر بڑے سخت ہوتے ہیں۔اگر اس کا تکیہ بنایا جائے تو اس پر سر رکھ کر کوئی سو نہیں سکتا۔مگر میں کہتی ہوں کہ تمہارے پَر بڑے نرم ہوتے ہیں،ان کا تکیہ بڑا نرم ہو گا۔“ لومڑی نے مکاری سے کہا۔
”میرے پَر واقعی نرم ہوتے ہیں۔تمہارا دوست غلط کہتا ہے۔“ مرغا بی نے پانی میں چکر لگاتے ہوئے کہا۔
”یہی بات میں نے بھیڑیے سے کہی تھی،مگر وہ مانتا ہی نہیں۔“ لومڑی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔
مرغا بی نے خوش ہو کر پانی میں غوطہ لگایا اور کافی دور جا کر پانی میں اُبھری۔اسے دیکھ کر لومڑی نے چالاکی سے کہا ”میں اسے بتا دیتی ہوں کہ تمہارے پَر کتنے نرم ہیں۔تم ایسا کرو کہ مجھے اپنا ایک پر دے دو،تاکہ وہ اسے چھو کر دیکھ لے۔“
”ٹھیک ہے میں تمہیں اپنی دم کے چند پَر دیتی ہوں۔“ یہ کہہ کر مرغا بی جونہی لومڑی کی طرف مُڑی تو لومڑی نے اسے دبوچ لیا اور چند لمحوں میں ہڑپ کر گئی۔پھر اس کے نرم و نازک پَروں کا تکیہ بنا کر اس پر بیٹھ گئی۔
بھیڑیا بڑی حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔بی لومڑی نے اس سے کہا ”دیکھا تم نے!یہاں ہر وقت شکار مل سکتا ہے،بس عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“
یہ سُن کر بھیڑیا جھاڑیوں سے نکلا اور اپنے جسم پر مٹی اور کیچڑ لگا کر ندی کی طرف بڑھ گیا۔اب اسے بھی لومڑی کی طرح کسی بے وقوف اور نادان مرغا بی کی تلاش تھی۔لومڑی نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور ”گڈ لک“ کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
پیارے بچو!آپ نے اکثر سنا ہو گا خوشامد بُری بلا ہے۔مگر آج کل ترقی کی معراج خوشامد بن گئی ہے۔ہر افسر کی کوشش کہ میری خوشامد کی جائے میری آؤ بھگت کی جائے مجھے اعلیٰ درجہ دیا جائے۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ماتحت اپنے افسران کی چاپلوسی کرتے ہیں غیبت کرتے ہیں اور سہولیات حاصل کرتے ہیں۔
وقتی طور پر تو فائدہ ہوتا ہے۔مگر آخرت خراب ہوتی ہے۔خوشامد پسند اپنا الو سیدھا کرتا ہے خواہ وہ انسان ہو یا جانور سچا اور کھرا بندہ کسی کو پسند نہیں۔مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اقوال زریں ہے کہ سچ بولنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسے یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ورنہ جھوٹ بولنے والے کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اس نے پہلے کونسا بیان دیا تھا۔
Browse More Moral Stories
بارہ مہینے
Barah Mahine
آدھی موت
Aadhi Maut
پر اسرار دستانے۔۔تحریر:مختار احمد
Purisrar Dastany
کبھی کسی کا دل نہ توڑو
Kabhi Kissi Ka Dil Na Toro
غریب کسان کی نیکی ہی کام آئی
Ghareeb Kissan Ki Naiki Hi Kaam Aayi
چھوٹی سی نصیحت
Choti Si Naseehat
Urdu Jokes
غریب دیہاتی
Gareeb dehati
کمرہ امتحان
kamra e imtihan
ست واری
Sat wari
ماسٹر صاحب فیل؟
master sahib fail ?
مینڈک
mendak
سمندر میں طوفان
samandar mein toofan
Urdu Paheliyan
جاگو تو وہ پاس نہ آئے
jagu tu wo paas na aaye
کہہ دیں اس کو آتا جاتا
keh dena usko aata jata
مٹھی میں وہ لاکھوں آئیں
muthi me wo lakho aye
سونے کا بن کر آتا ہے
sony ka ban kar ata hai
پانی کے اندر ہی بولے
pani ke andar hi bole
ہے شرط اس میں خاموش ہونا
he sharat is me khamosh hona
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos