Gulehri Or Darakhat - Article No. 1508

Gulehri Or Darakhat

گلہری اور درخت - تحریر نمبر 1508

”بڑی خوش نظر آرہی ہو اور پھد کتی پھر رہی ہو۔“درخت نے گلہری کو روک کر پوچھا۔ایسا کیا ہو گیا ہے؟“

جمعرات 29 اگست 2019

”بڑی خوش نظر آرہی ہو اور پھد کتی پھر رہی ہو۔“درخت نے گلہری کو روک کر پوچھا۔ایسا کیا ہو گیا ہے؟“
”ارے میاں درخت!مجھ سے پنگانہ لینا ۔ابھی ابھی پہاڑ کو آرام کرواکرآرہی ہوں ۔وہ بھی بہت بول رہا تھا،اُسے میں نے بتادیا ہے کہ میں چیز بہت کام کی ہوں ۔اب تم کیا چاہتے ہو ؟تمہارے سامنے بھی تقریرکروں ؟گلہری نے درخت پر چڑھتے چڑھتے ہی درخت کو جواب دیا۔

ہلکا بھو را درخت کچھ اور گہرے رنگ والا ہو گیا۔اُسے شاید غصہ آگیا تھا۔”ارے بی بی گلہری !غرور کا ہے کو کررہی ہو؟میں نے تو تم سے یونہی خوشی کا سبب پوچھ لیا اور تم تو سر پر ہی چڑھی جارہی ہو۔اگر تم کوئی کام کی شے ہوتو میں بھی کسی سے کم نہیں۔“
میاں درخت کو شاخیں لہراتے جھومتے دیکھ کر بی گلہری غصے میں آگئی۔

(جاری ہے)

”ہاں ہاں!تم کام کے ہو ۔

کام کے ہو گے لیکن ہل تو نہیں سکتے ناں؟بڑھتے ضرور ہو لیکن اسی ایک جگہ پر کھڑے رہتے ہو ۔اس دن وہ بچہ تمہاری جڑوں میں بیٹھ کر سائنس کا سبق یاد کر رہا تھا ،وہیں سے میں نے جانا کہ تم Locomotionنہیں کر سکتے۔یعنی حرکت کرتے ہو ،لیکن اپنی جگہ تبدل نہیں کر سکتے ۔بے چارے چچ چچ!
”اچھا میں حرکت نہیں کر سکتا؟تم نے سنا نہیں تھا وہ بچہ مجھے دیکھ کر سبق یاد کررہا تھا کہ جڑیں زمین کی طرف بڑھتی ہیں اور زمین سے اپنی بڑھوتری کے لیے پانی لیتی ہیں۔
اسے ہائیڈروٹراپیزم(Hydrotropism)کہتے ہیں۔اور شاخیں سورج کی روشنی سے نشوونما پا کر سورج کی طرف (یعنی آسمان کی طرف)بڑھتی ہیں ۔اور روشنی کے پیچھے اُن کی یہ متحرک کا وش
(Phototropism)فوٹو ٹراپیزم کہلاتی ہے۔“درخت کو تو غصہ ہی آگیا۔اُس نے اپنی سب سے بلند شاخ کو لہرا کر جرح کی۔
”پاگل ہو گئے ہو ؟بڑھتے تو ہو تم۔یہ تو میں بھی کہہ رہی ہوں ،لیکن اپنی جگہ نہیں بدلتے ۔
سائنسی وضاحتیں نہ دو۔جواب دو۔کیا تمہارا جی نہیں چاہتاکہ اپنی مٹی بدل کر دیکھو۔اپنی جگہ تبدیل کرو،لیکن بے چارے ایک ہی جگہ پر پھنس کررہ گئے ہو ۔مجھے تمہاری بے چارگی پر افسوس ہوتا ہے۔بہت افسوس !چچ چچ۔“گلہری نے درخت کو باقاعدہ چڑایا۔
درخت کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گیا ۔اس کا ہر پتہ ساکن تھا۔ جیسے اُس نے سانس روک لیا ہو۔گلہری اپنی فتح کا جشن منانے ہی لگی تھی کہ ایک دفعہ درخت پھر جھوما ۔
جیسے گہرا سانس لیا ہو۔”بی بی گلہری!میں تمہاری طرح بہت زیادہ بحث کرنا تو نہیں چاہتا تھا لیکن سنو!میں بہت کام کاہوں ۔مجھ سے فرنیچر بنتا ہے اور میں مختلف گھروں میں جاتا ہوں ۔میری لکڑی سے بنی کرسیوں پر استاد بیٹھتے ہیں اورعلم کے پیا سے اپنی پیاس بھی مجھ پر ہی بیٹھ کر بجھاتے ہیں ۔مسافر میری گھنی چھاؤں تلے آتے ہیں اور ان کی تھکان دور ہو جاتی ہے۔
گاؤں کے بوڑھے میرے سائے میں پنچایت لگاتے ہیں ۔اور لڑکیاں بالیاں میری مضبوط شاخوں میں جھولا جھولتی ہیں ۔جہاں تک بات رہی مٹی بدلنے کی۔میں کیوں اپنی مٹی بدلوں؟مجھے تو اپنی مٹی سے اپنی خوشبو آتی ہے۔روح میں اترنے والی مسحور کن خوشبو ۔یہ میری مٹی کی خوشبو ہی ہے جو میرے پھول سے بھی آتی ہے۔اور سب سے بڑی بات یہ کہ اگر ہم جگہ بدل لیں تو بتاؤ پھر تم کہا ہو گے؟پرندے اپنا بسیرا کہاں کریں گے ؟اور تم جیسی پھدک پھدک کرتی گلہریاں ٹرٹر تو بہت کریں گی ۔
اوپر نیچے بھی ہونگی لیکن بے چاریوں کو مسکن نہیں ملے گا ۔اب بتاؤ تمہارا گھر ایک جگہ پڑا ہوا اچھا ہے یا تم روز اسے تلاشنا چاہتی ہو؟“
گلہری جواباً شرمندہ ہو گئی اور درخت کے تنے میں بنے اپنے گھرمیں داخل ہو گئی۔اُسے اب درخت کو گلے بھی لگانا تھا کیونکہ روٹھے ہوئے کو جتنی جلدی منالیا جائے ،اتناہی اچھا ہوتا ہے۔

Browse More Moral Stories