Gumshuda Sherwani - Article No. 868

Gumshuda Sherwani

گم شدہ شیروانی - تحریر نمبر 868

نام تو ان کامشتاق تھا، مگر خاندان بھر میں مُشی بھائی کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ایک مہربان اور ہمدرد انسان تھے،

ہفتہ 21 نومبر 2015

انوار آس محمد:
نام تو ان کامشتاق تھا، مگر خاندان بھر میں مُشی بھائی کے نام سے مشہور تھے۔ وہ ایک مہربان اور ہمدرد انسان تھے، سب کے کام آنے والے انھوں نی ہرایک کادل جیت رکھاتھا۔ یہ اس دن کی بات ہے جب مُشی بھائی کی شادی تھی۔ وہ اپنی پسند سے سنہری شیروانی سلواکرلائے تھے۔ اس وقت پریشانی یہ تھی کہ مُشی بھائی کی شیروانی گم ہوگئی تھی دورکہیں بھی نہ مل رہی تھی۔
مغرب کا وقت ہوچکاتھا۔ مُشی بھائی چاہتے تھے کہ برات وقت پر روانہ ہوجائے لیکن یہاں تو یہ مشکل آن پڑی تھی۔
سب میرے کمرے میں آجاتے ہیں اور ہر چیز بکھیر دیتے ہیں، اسی لیے شیروانی گم گئی۔ مُشی بھائی نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
ارے سنبھال کررکھنی چاہیے تھی۔ اُدھر سے دادا جی بولے۔

(جاری ہے)


داداجی!شیروانی تومُشی چاچا کے کمرے میں ہی تھی۔

مُشی بھائی کے بھتیجے بُرہان نے گواہی دی۔
ہاں ہاں ، میں نے بھی دیکھی تھی۔ بھتیجی ربیعہ نے بھی تصدیق کی۔
میں کب کہہ رہاہوں کہ کمرے میں نہیں تھی۔ مُشی بھائی نے کہا، سوال یہ ہے کہ اب شیروانی کہاں ہے۔
سب کے چہروں سے پریشانی عیاں تھی۔ اسی دوران داداجی کے موبائل پر گھنٹی بجی۔
داداجی نے فون کان سے لگاتے ہوئے”ہیلو“ کہا تو سب خاموش ہوگئے ۔

جی جی ․․․ہاں ہاں․․ ضرور․․․ضرور ان شاء اللہ جی۔ دادا جی نے بس اتنی بات کرنے کے بعد کال کاٹ دی۔ سب دادا جی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
مشتاق کے سسرال سے کال آئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وقت پر برات لائیے گا۔ داداجی نے بتایا اور ان کے الفاظ نے جیسے بم پھاڑدیاہو۔ بس پھر کیاتھا، ایک بار پھر سب شیروانی کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ اِدھر اُدھر چیخ پکار، سب اپنی تیاری بھول کرمُشی بھائی کی شیروانی ڈھونڈنے لگے۔
اوپری حصے سے لے کر نچلی منزل تک سب کچھ کھنگال کردیکھ لیاگیا، مگر شیروانی کوتونہ ملنا تھانہ ملی۔
اب تونئی شیروانی لے لیں چاچا“ برہان نے کہا۔
نہیں ملی تویہیں کرنا پڑے گا۔ داداجی نے کہا۔
میں توبارات لے کرہی بہیں کاؤں گا۔ میں سب کے کام کرتا ہوں، پر سب سے بُرا میرے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ مُشی بھائی غصے میں آچکے تھے۔
وقت تیزی سے گزرہاتھا۔
اب سب یہی چاہ رہے تھے کہ مُشی بھائی نزدیکی بازار سے کوئی دوسری شیروانی خرید کرلے آئیں، کیوں کہ سب کوتیار ہونا تھا اور اب کوئی بھی شیروانی کی تلاش میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مُشی بھائی بھانپ چکے تھے کہ سب کیا چاہتے ہیں۔ وہ تھکے ہوئے لہجے میں بولے، اب میں شیروانی نہیں لوں گا۔ بس کوئی اچھا ساکرتا شلوار لے آتا ہوں۔
ارے یہ کیابات ہوئی! آپ شیروانی ہی لے کرآئیں، ورنہ مزہ نہیں آئے گا۔
مُشی بھائی کی بھابی عمارہ نے کہا۔
بس اب دل نہیں چاہ رہا شیروانی پہننے کا۔ مُشی بھائی نے کہا۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب جوکرنا ہے جلدی کرو، وقت ضائع ہورہاہے۔ داداجی نے حکم دیا۔
شیروانی آخر گئی کہاں! یہ تو اب شادی کے بعد ہی پتاچلے گا۔ ٹھیک ہے لے آتا ہوں قمیض شلوار۔ مُشی بھائی نے کہا۔
جنید گاڑی سجانے لے کرگیا ہوا ہے ، وہ آجائے تو اس کے ساتھ چلے جائیے گا۔
عمارہ بھابی نے جیسے ہی جملہ مکمل کیا، گاڑی کے ہارن کی آواز آئی۔
لوجنید آگیا۔ ایک ساتھ سب کے منھ سے نکلا۔ بس پھر اگلے ہی لمحے مُشی بھائی کی منھ بولی بہن ماہ نور مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی۔ سب کوسلام کرنے کے بعد ماہ نور نے کہا۔ مُشی بھائی ماشاء اللہ سے آپ کی شیروانی بہت خوب صورت ہے۔
ہائیں !تم نے کہا دیکھ لی شیروانی؟ وہ توگم گئی ہے۔
ماہ نور نے بتایا ۔
کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ یہ سب کیاہورہا ہے کیسے ہورہاہے۔ اسی وقت جنید اندر گھرمیں داخل ہوا اور بولا: آپ کی شیروانی میں غلطی سے اپنی سمجھ کرلے گیا تھا۔ اصل میں مجھے اپنی شیروانی پراستری کروانی تھی۔
اسی لیے کہا تھا کہ ملتی جُلتی شیروانی مت لواور مجھے بتاتو دیتے۔ مُشی بھائی نے کہا۔ ان کے چہرے پر غصے کے ساتھ اطمینان بھی تھا۔
مجھے وقت ہی نہیں ملا، گاڑی سجانے والے نے اچانک بلالیا تھا۔ جنید نے صفائی پیش کی۔
چلو بھائی شیروانی تو مل گئی نا، اللہ کاشکراداکرو۔ داداجی نے کہا۔
سب لوگوں نے سکون کاسانس لیا، سب کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور برات لے کرجانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔

Browse More Moral Stories