Haal Mein Maazi - Article No. 1940

Haal Mein Maazi

حال میں ماضی - تحریر نمبر 1940

دراصل کل میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ میں نے اس گھر میں آگ لگی دیکھی

پیر 5 اپریل 2021

جاوید بسام
رات کا وقت تھا۔آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے۔میاں بلاقی بگھی دوڑاتا ایک جگہ سے گزر رہا تھا۔وہ بہت پرانا علاقہ تھا۔وہاں تمام گھر پیلے پتھروں کے بنے ہوئے تھے۔برسوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔اتفاق سے بلاقی وہاں پہلی دفعہ آیا تھا۔وہ ایک موڑ مڑ کر دوسری سڑک پر آیا تو کچھ دور لوگوں کا ہجوم نظر آیا۔
وہ سر اُٹھائے ایک عمارت کی طرف دیکھ رہے تھے۔جس میں سے دھواں نکل رہا تھا۔جلد ہی بلاقی قریب پہنچ گیا۔اس نے بگھی روکی اور نیچے اُتر آیا۔وہ چھوٹی سی دو منزلہ عمارت تھی۔آگ نیچے لگی تھی،عمارت میں رہنے والے باہر نکل آئے تھے۔ایک عورت زور زور سے چلا رہی تھی:”کوئی مدد کرو․․․․اوپر میری بچی ہے۔“
ایک آدمی نے اسے سنبھال رکھا تھا۔

(جاری ہے)

کچھ لوگ آگ بجھانے کے لئے اوپر جانے کی کوشش کر رہے تھے،لیکن لکڑی کے زینے نے آگ پکڑ لی تھی،اس لئے کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔بلاقی آگے بڑھ آیا۔پھر ایک آدمی زینے کی طرف بڑھا،مگر لوگوں نے اسے روک لیا۔بلاقی نے اُس سے پوچھا کہ بچی کس کمرے میں ہے؟
وہ بولا:”دائیں طرف والے کمرے میں۔“بلاقی نے گردن ہلائی،اپنا لمبا کوٹ اُتارا اور اسے ڈھال بناتے ہوئے تیزی سے زینہ چڑھ گیا۔
بہت سے لوگوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا:”ارے دیکھو!وہ آگ میں گھس گیا ہے۔“
عورتیں بھی چیخنے لگی تھیں۔بلاقی ایک ساتھ کئی سیڑھیاں پھلانگتا جلد اوپر پہنچ گیا۔وہاں آگ نہیں تھی،لیکن دھواں بھرا ہوا تھا۔وہ کھانستا ہوا دائیں کمرے میں داخل ہوا۔جہاں اس نے ایک بچی کو بستر پر بیٹھے دیکھا۔وہ پھرتی سے آگے بڑھا بچی کو اُٹھایا اور اسی طرح کوٹ کو ڈھال بنائے زینے کی طرف چلا۔
آگ بڑھتی جا رہی تھی،وقت بہت کم تھا۔وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا باہر نکل آیا۔اس کے کوٹ میں آگ لگ گئی تھی۔اس نے کوٹ زمین پر پھینکا اور بچی کو ماں کے حوالے کر دیا۔بچی محفوظ تھی،بس بلاقی کے ہاتھ میں کچھ جلن ہو رہی تھی۔لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے۔وہ اس کی بہادری پر اسے شاباش دے رہے تھے۔عورت نے روتے ہوئے بلاقی کا شکریہ ادا کیا۔کچھ دیر بعد وہاں آگ بجھانے والی گاڑی آگئی۔
سب پیچھے ہٹ گئے۔کوئی پڑوسن،بچی اور ماں کو اپنے گھر لے گئی تھی۔جلد ہی آگ بجھا دی گئی۔آدمی نے بلاقی کا پھر شکریہ ادا کیا۔بلاقی نے اس سے ہاتھ ملایا اور بگھی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔گھر پہنچ کر اس نے ہاتھ کا معائنہ کیا،ا س کی انگلیاں سرخ ہو رہی تھی۔اس نے دوا لگائی اور کھانا کھا کر سونے کے لئے لیٹ گیا۔
اگلے دن بلاقی کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔
اس نے ناشتہ کیا اور اپنے کام پر روانہ ہو گیا۔پہلے وہ سینٹرل پارک گیا،جہاں وہ اپنی بگھی کھڑی کرتا تھا اور گھوڑے کے آگے دانہ پانی رکھا۔جب وہ کھا چکا تو اسے پیار سے تھپتھپایا اور بگھی میں جوت کر ہلکی رفتار سے چلاتا ہوا بازار میں آگیا۔ایک چائے خانے کے باہر وہ بگھی سے اُترا اور اندر جا کر بیٹھ گیا۔پھر اس نے اخبار اُٹھایا اور خبروں پر نظر دوڑانے لگا،مگر آگ لگنے کی خبر کہیں نظر نہیں آئی،حیران ہو کر اس نے ایک بار پھر توجہ سے پورا اخبار دیکھا،لیکن اس میں ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔
وہ تعجب سے سر کھجانے لگا۔کچھ دیر وہ یونہی بیٹھا رہا پھر اس کی نظر اپنے دوست گراہم پر پڑی جو دوسری میز پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔وہ اخبار میں کام کرتا تھا۔ بلاقی اُٹھ کر اس کے پاس چلا گیا۔بلاقی کو دیکھ کر وہ بولا:”آؤ میاں بلاقی!ناشتہ کرو۔“
”نہیں میں کر چکا ہوں۔“یہ کہہ کر اس نے اخبار کھولا اور بولا:”اس میں آگ لگنے کی خبر نہیں ہے۔

”کیسی آگ؟“گراہم نے پوچھا۔
”کل رات قصبے کے شمالی علاقے کے ایک گھر میں آگ لگ گئی تھی۔“بلاقی بولا۔
گراہم حیرت سے بولا:”ایسی تو کوئی خبر نہیں آئی تھی،میں پوری رات دفتر میں تھا۔“
”ہو سکتا ہے تمہارے اخبار کو اطلاع نہ ملی ہو۔“
”اگر ہمارا رپورٹر نہ پہنچ پائے تو آگ بجھانے والا عملہ خبر دے دیتا ہے۔
“وہ بولا۔
بلاقی حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
گراہم ہنس کر بولا:”بلاقی تم نے خواب دیکھا ہو گا۔“
بلاقی نے اپنا جلا ہوا ہاتھ آگے کیا اور اسے پورا واقعہ سنایا،مگر گر اہم کو یقین نہیں آیا۔وہ بولا:”مجھے معلوم ہے تم کہانیاں بہت پڑھتے ہو اور یہ ہاتھ تم نے چائے بناتے ہوئے جلا لیا ہے۔“یہ کہہ کر وہ اُٹھا اور چل دیا۔
بلاقی چلایا:”مگر میں جھوٹ نہیں بولتا۔

گراہم ہاتھ ہلائے ہوئے بولا:”مجھے دیر ہو رہی ہے،پھر ملیں گے۔“
بلاقی نے منہ بنایا اور اُٹھ کر باہر نکل گیا۔کچھ دور اسے اخبار فروش آواز لگاتا نظر آیا۔بلاقی نے اس سے دوسرا اخبار خریدا اور بگھی میں بیٹھ کر پڑھنے لگا،مگر اس میں بھی آگ لگنے کی خبر نہیں تھی۔
بلاقی دوپہر تک وہاں رہا۔اسے قریب کی دو ایک سواریاں ملیں،لیکن اس کا دماغ رات والے واقعہ میں اُلجھا رہا۔
آخر اس نے وہاں چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔کچھ دیر بعد وہ اس علاقے میں پہنچ گیا۔جب وہ،عمارت کے قریب گیا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔اس نے بگھی روکی اور غور سے عمارت کو دیکھنے لگا۔اس پر جلنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔بلاقی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو سامنے پانی کا گول ٹینک نظر آیا۔اسے وہ جگہ اچھی طرح یاد تھی،پھر بھی اس نے پورے علاقے کا چکر لگایا،مگر کہیں جلی ہوئی عمارت کے آثار نظر نہیں آئے۔
آخر وہ دوبارہ وہاں آگیا۔اس کی نظریں عمارت پر جمی تھیں۔یہ بہت حیران کن معما تھا۔کچھ دیر بعد وہ بگھی سے اُترا اور دھیرے دھیرے قدم بڑھاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھا۔قریب جاکر کراس نے جھجکتے ہوئے دروازے پر دستک دی۔قدموں کی آہٹ ہوئی، دروازہ کھلا اور ایک بوڑھی عورت نے باہر جھانکا۔وہ سوالیہ نظروں سے بلاقی کو دیکھ رہی تھی۔بلاقی گھبرا کر بولا:”جی․․․میں بلاقی کوچوان ہوں۔
“اس نے بگھی کی طرف اشارہ کیا۔
عورت حیرت سے بولی:”مگر میں نے تو بگھی نہیں منگوائی۔“
”جی خاتون!بے شک آپ نے بگھی نہیں منگوائی دراصل میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔“
عورت کا نام ماریا تھا۔اس نے بلاقی کو اندر بلا لیا۔دونوں نشست گاہ میں بیٹھ گئے۔ماریا منتظر تھی۔بلاقی کچھ دیر سوچتا رہا۔پھر بولا:”بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کو کس طرح بتاؤں؟دراصل کل میں یہاں سے گزر رہا تھا کہ میں نے اس گھر میں آگ لگی دیکھی۔

”آگ!تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے وہ کوئی اور عمارت ہو گی۔“ماریا حیرت سے بولی۔
”مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں نے پورا علاقہ دیکھ لیا ہے،کہیں بھی آگ کے آثار نہیں آئے۔“
ماریا تعجب سے اسے تکنے لگی۔
”کیا آپ کے ہاں کوئی چھوٹی بچی ہے؟“بلاقی نے پوچھا۔
”نہیں،میں یہاں اکیلی رہتی ہوں۔“
”آپ کب سے یہاں رہتی ہیں؟“
”اپنے بچپن سے۔

بلاقی کی نظریں کمرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔
”تم بچی کا کیوں پوچھ رہے ہو؟“ماریہ نے سوال کیا۔
وہ دراصل․․․․میں ابھی بتاتا ہوں۔“بلاقی بولا اور اُٹھ کر آتش دان کے قریب چلا گیا۔پھر بولا:”معاف کیجئے گا کیا،میں یہ تصویر میں دیکھ سکتا ہوں؟“
”ہاں ضرور۔“ماریا بولی۔
بلاقی نے ایک فریم اُٹھایا اور ماریا کے قریب چلا آیا:”یہ خاتون کون ہیں؟“اس نے پوچھا۔
ماریا آنکھوں پر چشمہ درست کرتے ہوئے بولی:”یہ میری ماں ہیں۔“(باقی آئندہ شمارے میں)

Browse More Moral Stories