Hamara Karnama - Article No. 1545

Hamara Karnama

ہمارا کارنامہ - تحریر نمبر 1545

ابا جان کا غصہ آسمان پر پہنچ چکا تھا اور ہمیں اپنی عقل پر غصہ آرہا تھا۔آج کا دن واقعی غضب کا تھا

بدھ 16 اکتوبر 2019

علی حیدر
ابھی ہم اپنے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے کہ اچانک ہمارے اوپر سے رضائی کھینچ لی گئی۔سرد ہوا کی لہروں نے جب ہمارے کانوں کو چھوا تو ہم ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھے۔آنکھوں میں نیند اب بھی باقی تھی اور آنکھیں کھل نہیں پارہی تھیں۔دیکھا تو سامنے بڑے سے منھ پر چوڑی چوڑی مونچھوں والا کوئی شخص ہمیں گھوررہا تھا۔اس کے لپ ہل رہے تھے کہ جب کہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔


یہ شخص تو کسی ایلین کی طرح لگ رہا ہے،جسے ہم نے تھوڑی دیر پہلے اپنی کمال ہوشیاری اور بہادری سے اس کے جہاز سمیت تباہ کر دیا تھا۔“ہم نے دل میں سوچا اور نعرہ لگایا:”وہ مارا․․․․“اور پھر تکیے پر سر رکھ کر چاروں خانے چت ہو کر پڑ گئے۔دوسرے ہی لمحے ہمارے منھ پر ایک زور دار تھپڑ کسی ناگہانی آفت کی طرح پڑا۔

(جاری ہے)

ہم ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھے۔

وہ چوڑی چوڑی مونچھوں والا ایلین تو ہمارے اباہی تھے۔
“شرم نہیں آتی،میں تمھیں کتنی دیر سے اُٹھا رہا ہوں اور تم ہوش میں ہی نہیں آرہے۔“ابا جان کے لہجے میں غصہ تھا:”بر خور دار!جو بہادر مرد ہوتے ہیں ناں ،وہ دیر سے نہیں سویرے اُٹھتے ہیں۔“
”ابا جان!آپ تو خود روز انہ گیا رہ بجے اُٹھتے ہیں۔“ہمارے منھ سے نکل گیا۔
ابا جان کچھ جھنجلاگئے:”اپنے بھیا سے کچھ سیکھو،آج تمھیں شہر جانا ہے،وہ تیار بھی ہو چکا ہو گا اور تم ابھی پڑے سورہے ہو۔
“ابا جان نے کڑک آواز میں کہا۔
ہم نے ابا جان کی پشت کی جانب موجود بھائی جان کی چار پائی کی طرف نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ وہ بستر میں منھ پر اُنگلی رکھے مجھے خاموشی کا اشارہ کررہے تھے۔
”چلو جلدی کرو،تیار ہو جاؤ۔تمھیں وہاں آج ہی پہنچنا ہے۔“ابا جان نے کہا اور چلے گئے۔
ہم جلدی جلدی تیار ہوئے،آج ہمیں ابا جان نے یہ کام سونپا تھاکہ کچھ سامان ہمیں شہر میں خالہ نظیراں کے ہاں پہنچانا تھا۔
ویسے تو ہم اکیلے بھی جاسکتے تھے،لیکن ابا جان کو بھائی جان پر کچھ زیادہ ہی اعتماد تھا،سووہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔بھائی کے منھ پر ٹھنڈے پانی کا جگ اُلٹا کر انھیں اُٹھایا تو وہ غصہ ہو گئے ،لیکن فوراً ہی اس دھمکی پر نرم ہو گئے کہ ابا جان کے لیے ان کی خالہ نے جو دیسی گھی کے لڈو بھیجے تھے ،ان کی تعداد کم کرنے میں بھائی جان ملوث ہیں۔اس بارے میں ہم ابا جان تک اطلاع پہنچادیں گے۔
یہ سن کر بھائی جان چوکنا ہو کر تیار ہونے چلے گئے۔اماں کھانا بنا چکی تھیں۔ہم باتھ روم سے باہر آئے تو بھائی جان کھانا کھاچکے تھے۔ابھی ہم کھانا کھانے بیٹھے ہی تھے کہ ابا جان موت کے فرشتے کی طرح اچانک پہنچ گئے:”تم ابھی تک کھانا ہی کھارہے ہوتو پھر وہاں پہنچو گے کب؟اگر پہلی بس چھوٹ گئی تو پھر دوسری بس دو پہر کے وقت ہی ملے گی۔“ابا جان نے کہا۔
”لیکن کھانا تو کھانے دیں اسے،بچہ ہی ہے،سامان بھی پہنچ جائے گا خالہ کے گھر۔“اماں نے روایتی انداز میں ہماری طرف داری کی۔
ابا نے کہا:”ارے ابھی تک کیا بچہ ہی ہے!اتنا بڑا تو ہو گیا ہے،خالہ نظیراں کے گھر جا کر ہی کھالے گا۔“
پھر ہم سے مخاطب ہوئے:”ارے بہادر بچو!ہمارا دادا کے پڑدادا تو تین تین دنوں تک بغیر کچھ کھائے پیے مشقت کرتے رہے تھے۔

پھر ہمیں ان کی شجاعت اور ہمت کے ایسے ایسے قصے سنائے کہ ہمارے رگوں میں بھی بہادری کا جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ہم نے کھانے کو وہیں چھوڑا اور سامان والا تھیلا اُٹھایا اور گھر سے نکل گئے۔نکلنے سے پہلے اماں نے ہماری اور بھائی جان کی خوب نظر اُتاری۔لاری اڈے پر پہنچ کر ہم دونوں بس کا انتظار کرنے لگے۔
خدا خدا کرکے ایک گھنٹے بعد بس آئی تو اتنی بھری ہوئی تھی کہ لوگ دونوں طرف دروازوں پر لٹکے ہوئے تھے۔
یہ دیکھ کر ہماری سانس راستے میں رک گئی:”تو کیا ہمیں بھی ایسے ہی لٹک کر جانا پڑے گا۔“ہم
نے بہ مشکل تھوک نگلا۔
”ارے تم ڈر گئے کیا،ہمت رکھو،ابھی تو بس اور بھرے گی۔“بھائی جان نے مزید ڈرادیا۔بھائی جان نمونے کے طور پربس پر پہلے سوار ہو گئے کہ ہمیں کس طرح لٹکنا ہے،لیکن تب تک بس چل چکی تھی۔یہ دیکھ کر ہمارا رنگ اُڑ گیا اور ہم فوراً بس کے پیچھے بھاگے،بس کی رفتار بڑھتی جارہی تھی اور ہم اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے تھے۔
بھائی جان ایک ٹانگ اور ہاتھ پر لٹک کر ایک ہاتھ ہماری طرف بڑھائے ہوئے تھے۔آخر بھائی جان کے ہاتھ کی جگہ بس کا ڈنڈا ہمارے ہاتھ آگیا۔ہم فوراً اُچھل کر بس پر سوار ہو گئے۔آخر جان میں جان آئی،لیکن سامان کے وزن اور بھاگ بھاگ کر ہماری ٹانگیں بہت تھک چکی تھیں،لیکن ابھی تو ہمیں بہت دور تک لٹک کر ہی جانا تھا۔آخر کچھ دور جا کر بس سے کچھ سواریاں اُتریں تو ہم فوراً بس کے اندر پہنچے۔
ساری سیٹیں بھری ہوئی تھیں۔بھائی جان بھی ایک سیٹ پر ٹک چکے تھے۔آخر ہماری نظر ایک تقریباً خالی سیٹ پر پڑی،کیوں کہ اسے مکمل خالی کہنا غلط ہو گا۔اس سیٹ پر ایک ضرورت سے زیادہ صحت مند شخص دونوں سیٹوں پر پھیلا ہوا تھا۔اس کی بڑھی ہوئی تو نداگلی سیٹ کی پشت کو چھور ہی تھی ۔ہم اس کے پاس پہنچے اور کہا:”ذرا سی جگہ دے دیں،ہم یہاں بیٹھنا چاہتے ہیں۔

تو وہ شخص ہمیں ایسے گھورنے لگا جیسے ہم نے اس سے دیا ہوا اُدھار واپس مانگ لیا ہو۔پھر اس نے جگہ دینے کی اداکاری کی ،لیکن اب بھی وہ پہلی جگہ پر ہی قائم تھی۔خیر ہم نے اپنے غصے کو چھپایا اور صبرکا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی تھوڑی سی جگہ پر قناعت کرکے بیٹھ گئے۔آخر ٹانگوں کو کچھ سکون ملا۔تب تک بس پھر بھر چکی تھی،لیکن ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص سگریٹ کے کش لگانے لگا۔
سگریٹ سے ہمیں سخت الرجی تھی۔اس کا دھواں جو ہمارے نتھنوں تک چڑھاتو ہمیں قے سی محسوس ہونے لگا۔آخر اس اذیت سے بچنے کے لیے ہم اس سیٹ سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ہمارے اُٹھنے کی دیر تھی کہ بس میں موجود سواریاں اس سیٹ پر ایسے جھپٹیں جیسے بلی چھیچھڑوں پر جھپٹتی ہے۔
ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم شہر پہنچ گئے۔بھائی جان بس میں سو گئے تھے۔انھیں اُٹھا کر ہم بس سے نیچے اُترآئے۔
یہاں سے آگے ہمیں رکشے پر جانا تھا۔ابھی ہم سڑک عبور کررہی رہے تھے کہ بھائی جان کی نظر سڑک کے کنارے ایک شخص پر پڑی جو ایک چھوٹے سے بچے کو زبردستی اپنے ساتھ کھینچ کرلے جارہا تھا،جب کہ بچہ رورہا تھا۔بچے کے کندھوں پر اسکول بیگ لٹکا ہوا تھا۔ہم بھی یہ صورت حال دیکھ چکے تھے۔بھائی جان نے ہمارے طرف دیکھا،پھر ان پر جیسے جوش سا طاری ہو گیا۔
بولے:”ضرور یہ کوئی غنڈہ ہے جو بچے کو زبردستی اغوا کرکے لے جارہا ہے،ہمیں اس بچے کی مدد کرنی چاہیے۔“
”لیکن یہ کوئی خطرہ بھی تو ہوسکتاہے۔“ہم نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا توبھائی جان گرج کر بولے:”نہیں ،یہ وقت ڈرنے کا نہیں کچھ کرد کھانے کا ہے،آج اپنی بہادری دکھانے کا دن آگیاہے،آج نہیں تو پھر کبھی نہیں،ہمارے بازوؤں میں جان ہے تو صرف اسی لیے کہ ہم بہادر بنیں اور دوسروں کی مدد کریں۔

بھائی جان کی ولولہ انگیز تقریر سن کر ہماری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور ہم پر بھی بہادری کا جنون چڑھ گیا ،ورنہ تو ہم اتنے بہادر تھے کہ باتھ روم نہ جاتے جب تک دیوار پر چپکی ہوئی چھپکلی کسی سوراک میں گھس نہ جائے۔اسی وقت بھائی جان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،ان کی آن میں اس شخص پر ٹوٹ پڑے ۔ہم بھی ان کے پیچھے لپکے اور بچے کو سنبھالا۔بھائی جان اپنے مکوں کے تابڑ توڑ حملوں سے اس شخص پر وار کیے جارہے تھے۔
بچہ اب رونا بند ہو چکا تھا اور پریشانی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔
”ارے،یہ میرے ابو ہیں۔یہ انکل انھیں کیوں ماررہے ہیں،مجھے اسکول نہیں جانا۔“بچے نے یہ کہہ کر گویا ہمارے سر پر بم ہی پھوڑ دیا۔ہماری جان ہی نکل گئی۔ہم نے فوراً بھائی جان کی طرف دیکھا،جو اس شخص کو مارمار کر ادھ مواسا کر چکے تھے۔پھر اچانک ایک طرف سے کچھ لوگ ہماری طرف بڑھتے چلے آئے۔

”انکل تنویر آگئے،انکل تنویر آگئے۔“بچے نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر خوشی سے اُچھلتے ہوئے کہا۔یہ سننا تھاکہ ہمارے ہاتھوں کے توتے اُڑگئے۔یہ لوگ ضرور اس شخص کو جانتے تھے۔وہ لوگ آتے ہی بھائی جان پر ٹوٹ پڑے۔بھائی جان سنبھل نہ سکے۔اتنے سارے لوگوں نے مل کر بھائی جان کا بھر کس نکال دیا۔ہم نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی تو ایک دو گھونسوں سے ہمارا چہرہ بھی ”سرخ رو“ہو گیا۔
ان لوگوں نے اپنی طاقت کے بے شمار ثبوت بھائی جان کے چہرے پر چھوڑ ے تھے۔آخر جب وہ تھک کر چلے گئے ہم نے بھائی جان کی طرف نظریں دوڑائیں اور ان کی شکل دیکھ کر ہی ڈرگئے۔بھائی جان بہت ہی بھیانک لگ رہے تھے۔اس وقت ہم ان کے واحد سہارا تھے۔آخر ایک کلینک سے بھائی جان کی پٹی کروانے کے بعد ہم خالہ نظیراں کے گھر پہنچ ہی گئے۔بھائی جان کی حالت دیکھ کر وہ گھبراگئیں،لیکن ہم نے انھیں تسلی دی اور اندر آگئے۔
خالہ نظیراں کو تھیلا تھمایا۔
”تم لوگ کھانا تو کھا کر آئے ہو گے؟“انھوں نے پوچھا پھر خود ہی بولیں:”ہاں ،ہاں کھاپی کر ہی آئے ہو گے۔اس وقت تک توتم نے ضرور کھانا کھالیا ہو گا۔“
اس وقت ہمارے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔صبح سے صرف مارہی کھائی تھی۔ہم نے فوراً اجازت طلب کی اور وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔خالہ نظیراں پیچھے سے:”ارے بیٹھو،بیٹھو․․․․“کہتی رہ گئیں،لیکن ہم نے وہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھی۔

تقریباً شام کے وقت ہم گھرپہنچے تو اباجان دروازے پر ہمارے استقبال کے لیے تیار تھے۔بھائی جان کی حالت کا پوچھا تو ہم نے سب گول مول کر دیا۔
”اچھا بر خور دار! اب مجھے ایک بات بتاؤ۔اباجان نے پوچھا:”یہ بتاؤ تم دونوں میں سے تھیلا کون اُٹھا کرلے گیا تھا․․․․․․؟“
ابا جان نے ہمیں دیکھتے ہوئے کہا تو ہم نے سینہ پھلا کر جواب دیا:”ہم نے ،سارے راستے تھیلا ہم نے
اُٹھایا تھا،ہم ہیں وہ ہوشیار اور ہونہار ،ہم نے یہ کارنامہ انجام دیاہے۔
بھائی جان توکسی کام کے نہیں۔“
ابھی ہماری بات ختم نہ ہوئی تھی کہ اباجان کا ایک زور دار تھپڑ ہمارے گال پر پڑا:”ارے بد بخت!ستیاناس ہوتمھارا ،جو تھیلا لے کر جانا تھا وہ تو تم یہیں بھول گئے اور میرے اوزاروں کا تھیلا اُدھر دے آئے ہو۔“ابا جان کا غصہ آسمان پر پہنچ چکا تھا اور ہمیں اپنی عقل پر غصہ آرہا تھا۔آج کا دن واقعی غضب کا تھا۔

Browse More Moral Stories