Hathi Ki Tarbiyat - Article No. 2064

Hathi Ki Tarbiyat

ہاتھی کی تربیت - تحریر نمبر 2064

بادشاہ نے دیکھا کہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور فرمانبردار ہو گیا ہے اور اس میں وحشی پن کے آثار نہیں رہے

جمعرات 16 ستمبر 2021

پرانے زمانے میں کشمیر کا ایک بادشاہ تھا جو عدل و انصاف میں مشہور تھا۔وہ ہاتھیوں کی پرورش اور نگہداشت میں بڑی دلچسپی لیتا تھا اس کے فیل خانے میں چار سو ہاتھی تھے جن کی دیکھ بھال کے لئے فیل بانوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔یہ فیل بان سنواری،جنگ اور سفر کے لئے ان ہاتھیوں کو تربیت دیتے تھے۔جب بادشاہ کو ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر درپیش ہوتا تو یہ فیل بان ہاتھیوں پر تخت کس دیتے۔
درباری ان پر سوار ہو جاتے۔ہاتھیوں کا یہ قافلہ قابل دید ہوتا تھا۔جب کسی جنگ کا سامنا ہوتا،جنگجو،ہاتھیوں کے ہمراہ میدان جنگ کا رخ کرتے اور دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیتے۔بادشاہ ہر روز ایک بار ہاتھیوں کا معائنہ کرتا۔فیل بانوں کے کام پر ان کی حوصلہ افزائی کرتا اور کبھی کبھی اپنے قریبی لوگوں کے ہمراہ شکار یا سیر کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر صحرا اور جنگل کی طرف نکل جاتا۔

(جاری ہے)

ایک روز بادشاہ خاص شکاریوں کے ایک گروہ کے ساتھ شکار کو روانہ ہوا۔انہوں نے جنگل میں ایک قوی ہیکل وحشی ہاتھی کو پکڑنے کے جتن کیے،ایسا قوی ہیکل ہاتھی جو اپنے بڑے جثے کے ساتھ بادشاہ کے فیل خانے میں تب تک نہیں دیکھا گیا تھا․․․․
ایک تنومند اور ہیبت ناک ہاتھی جس کے برف کی مانند سفید دو بڑے بڑے دانت تھے،جو اپنی سونڈ کے ساتھ کسی بھی گائے کو ہوا میں اچھال سکتا تھا اور جو بجلی کے کڑکے کی طرح چنگھاڑتا تھا۔
جو بجلی اور جھکڑ کی طرح دوڑتا تھا اور دور سے چار سنگین ستونوں پر بنے ایک گنبد کی طرح دکھائی دیتا تھا۔وہ جب اپنے بھاری بھر کم قدموں کے ساتھ چلتا تو اس کے پاؤں کے تلے کی زمین لرزتی تھی۔وہ ایک ٹکر سے کسی بھی پرانے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا تھا اور اپنے ایک حملے سے تمام ہاتھیوں کو خوف زدہ کرکے بھاگنے پر مجبور کر دیتا تھا۔وہ ہمیشہ جنگل میں بھاگ دوڑ میں مشغول رہتا تھا اور آدمی کی شکل و صورت سے بالکل واقف نہ تھا۔
اس نے زنجیر،رسی،طویلے اور فیل خانے کا نام تک نہیں سنا تھا․․․․․خوف ناک،غصیل اور وحشی ہاتھی!
شکاریوں نے اسے پکڑا اور اس کی ٹانگوں کو الگ الگ مضبوط زنجیروں سے جکڑ کر بادشاہ کے حضور لے آئے۔بادشاہ نے ہاتھی کے توانا اور خوبصورت ڈیل ڈول کو پسند کیا اور اس کو اپنی ملکیت میں لائے جانے پر خوش ہوا۔اس خوشی میں اس نے شکاریوں کو بھاری انعامات سے نوازا۔
پھر فیل بانوں کے سربراہ کو طلب کرکے اس سے پوچھا:اس ہاتھی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟سربراہ نے کہا:میں اس ہاتھی کے بارے میں کیا کہوں۔سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس ڈیل ڈول کا ہاتھی اس سے پہلے نہیں دیکھا۔افسوس صرف اس بات کا ہے کہ یہ جنگلوں میں گھومنے پھرنے والا جانور ہے اور اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ رکھ کر نہیں سدھایا جا سکتا۔بادشاہ نے کہا:جو بھی ہو اس ہاتھی کو سدھانا بہت ضروری ہے۔
میری خواہش ہے کہ میں اس پر سواری کروں اور لوگ دیکھیں کہ اس سے پہلے کسی اور کے پاس اس ڈیل ڈول کا ہاتھی نہیں تھا۔
فیل بانوں کے افسر نے کہا:اس ہاتھی کی تربیت بہت مشکل ہے۔اب یہ بچہ نہیں ،جنگل میں پلا بڑھا ہے اور اس نے بغیر کسی پابندی اور قید کے پرورش پائی ہے۔کسی بھی جانور کو چھوٹی عمر میں سدھانا چاہیے اور اسے جوانی میں کام اور آرام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
یہ ہاتھی اگر بعض باتیں سیکھ بھی لے،اس کا دل وحشی ہی رہے گا اور اس کی تربیت کے لئے لمبی مدت درکار ہو گی۔
بادشاہ نے کہا:میں تمہیں تین سال کی مہلت دیتا ہوں۔تمہیں چاہیے کہ اس ہاتھی کی اس طرح تربیت کرو کہ یہ خدمت کے لائق ہو جائے اور جنگ اور سفر میں کارآمد ہو۔میں آج ہی سے اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔اسے وعدے کے مطابق کام اور میدان جنگ کے لئے تیار ہونا چاہیے۔

فیل بان نے اطاعت کے لئے سر جھکایا۔اس عظیم الجثہ ہاتھی کو ہاتھیوں کے طویلے میں لے جایا گیا۔ایک بڑا گھر اور باغ اس کے لئے مخصوص کر دیا گیا اور فیل بان اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کی تربیت میں مشغول ہو گیا۔اس نے ایک مدت تک مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر اس کی نگہداشت کی۔وہ اسے اپنے ہاتھ سے خوراک اور پانی دیتا۔رفتہ رفتہ ہاتھی تھوڑا تھوڑا رام ہو گیا۔
اب وہ فیل بان کو پہچاننے لگا اور اس کی مہربانیوں کا عادی ہونے لگا تھا۔
آہستہ آہستہ فیل بان ہاتھی کو یہ بات سکھانے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کس طرح بیٹھے اُٹھے،حکم دینے پر کس طرح حرکت میں آئے اور کس طرح ’رُک“ کہنے پر رُک جائے۔کبھی کبھی فیل بان اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا اور اسے جنگل میں لے جاتا اور کبھی ایک لمبے عرصے تک اسے طویلے میں باندھے رکھتا۔
بعض اوقات اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ لڑاتا اور کبھی اسے ان کے ساتھ باندھ دیتا اور ضروری آداب اور عادتیں سکھاتا۔یوں تین سال کی مدت گزر گئی اور وعدے کا دن آپہنچا۔بادشاہ نے ہاتھی کو لانے کا حکم دیا تاکہ وہ خود دیکھے کہ اس کی تربیت کیسی ہوئی ہے۔فیل بان نے ہاتھی کو حاضر کیا۔اب اس کے ہاتھ پاؤں زنجیر سے آزاد تھے۔بادشاہ نے دیکھا کہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور فرمانبردار ہو گیا ہے اور اس میں وحشی پن کے آثار نہیں رہے۔

بادشاہ نے پوچھا:کیا میں ہاتھی پر سوار ہو سکتا ہوں؟
فیل بان بولا:میں خود اس پر بیسیوں بار سوار ہوا ہوں،جنگل کو گیا ہوں اور صحیح سلامت واپس آیا ہوں۔ہاتھی نے کبھی میرے حکم سے سرتابی نہیں کی۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ ہاتھی کے نزدیک پائیدان رکھ دیا جائے۔بادشاہ اس پر پاؤں رکھ کر ہاتھی پر سوار ہو گیا۔فیل بان بھی ایک الگ ہاتھی پر سوار ہو کر بادشاہ کے ہمراہ ہوا۔سفر شروع ہوا اور انہیں محسوس ہوا کہ ہاتھی آرام آرام سے آگے بڑھ رہا ہے اور حکم بجا لا رہا ہے۔

Browse More Moral Stories