Hathi Ki Tarbiyat - Article No. 2071

Hathi Ki Tarbiyat

ہاتھی کی تربیت(آخری حصہ) - تحریر نمبر 2071

تین برس پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا کہ جنگلی جانور کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تربیت اس کے بچپن سے کی جائے کیونکہ تب تک وہ وحشی پن سے واقف نہیں ہوتا

جمعہ 24 ستمبر 2021

جب انہیں اطمینان ہو گیا،بادشاہ نے حسب عادت،جیسا کہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اس کا معمول تھا،اسے تیز بھاگنے کا حکم دیا۔ہاتھی نے تیزی پکڑی اور فیل بان سے بھی آگے نکل گیا۔اس نے جب یہ دیکھا کہ فیل بان کہیں پیچھے رہ گیا ہے،وہ شیر کی طرح جوش اور جولانی میں آیا اور جنگل کا رُخ کیا اور گویا یہ کہتا ہوا سرپٹ دوڑنے لگا کہ اب نہیں دوڑو گے تو کب دوڑو گے،گویا ماضی کی طرح وہی وحشی اور جنگلی ہاتھی بن گیا جیسا کہ تین سال پہلے تھا۔
وہ اس قدر سرپٹ دوڑے جا رہا تھا جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔وہ بجلی اور جھکڑ کی طرح پہاڑ اور صحرا عبور کرتا جا رہا تھا۔بادشاہ نے ہر چند اسے قابو میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔وہ ”رک جا“ کا حکم دیئے جانے پر اور غصے میں آتا اور پہلے سے زیادہ تیزی دکھاتا۔

(جاری ہے)

ایسی صورت میں ہاتھی پر سے چھلانگ لگانا ناممکن بھی تھا اور خطرناک بھی۔
یہ عظیم الجثہ ہاتھی صبح سے رات گئے تک پہاڑ اور صحرا کے اطراف میں بھاگتا دوڑتا رہا حتیٰ کہ تھک گیا۔

اس کی بھوک پیاس زوروں پر تھی۔ اب اسے ناند،گھاس اور طویلے کی یاد آئی اور جیسا کہ پچھلے تین سال میں اس کی عادت پختہ ہو چلی تھی،وہ اپنے فیل خانے کے تھان پر لوٹ آیا اور پُرسکون ہو گیا۔بادشاہ ہراساں تھا۔وہ شدید غصے کے عالم میں ہاتھی سے نیچے اُترا اور فیل بان کو طلب کیا اور طلب کرتے ہی حکم جاری کیا کہ اس کی مشکیں کس دی جائیں،اسے ایک کھلے رستے پر ڈال دیں اور طویلے کے چار سو کے چار سو ہاتھی اس کے اوپر سے گزار دیں تاکہ آئندہ کسی کو جرأت نہ ہو کہ بادشاہ کی سواری کے لئے کسی ان گھڑ اور اکھڑ ہاتھی کو پیش کریں۔

فیل بان کو موت اپنے سر پر منڈلاتی نظر آئی اور خوف اور دہشت سے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔خدمت گاروں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور اسے ایک کھلے رستے میں لا پھینکا۔پھر حکم دیا کہ ہاتھیوں کو لایا جائے اور ان کا غول کا غول اسے کچل ڈالے۔
جونہی فیل بان نے موت کو اپنے قریب دستک دیتے سنا،اس نے نالہ و زاری کرتے ہوئے بادشاہ سے عرض کی:میں ایک مدت سے آپ کی میں کمر بستہ رہا۔
کسی نے مجھ سے بدی سرزد ہوتے نہ دیکھی،نہ میں نے کوئی خیانت یا گناہ کیا۔کیا یہ مناسب ہو گا کہ میں انہی ہاتھیوں تلے کچل دیا جاؤں جن کی خود میں نے تربیت کی تھی؟مجھ پر رحم کھایئے۔ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کی ناانصافی کا چرچا کریں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ آخر میرا گناہ کیا ہے؟
بادشاہ نے کہا:اس سے بدتر کیا گناہ ہو گا کہ میں نے اس ہاتھی کی تربیت کے لئے تمہیں تین سال کی مہلت دی۔
کیا کوئی کسر رہ گئی تھی کہ یہ مجھے ہلاک کر ڈالے۔آخر تمہاری تربیت کا اس پر کیا اثر ہوا؟فیل بان نے کہا:بادشاہ سلامت!اس میں شک نہیں کہ آج ہاتھی کا طرز عمل بڑا ہی ناپسندیدہ رہا اور اس لحاظ سے قابل افسوس ہے لیکن میں نے اس کی جو تربیت کی،اس کے اثر کی نشاندہی کرکے میں خود کو بیگناہ ثابت کر سکتا ہوں۔اگر میں ایسا نہ کر سکا تو ہر طرح کی سزا کیلئے تیار ہوں۔
میری تجویز یہ ہے کہ بادشاہ سلامت اجازت دیں کہ میں ان کی موجودگی میں ہاتھی کا امتحان لوں۔اگر میں اس تربیت کے اثر کی نشاندہی ہی کر سکوں تو پھر ہر طرح کی سزا کا مستحق ہوں۔چونکہ میرے پاس کوئی راہ فرار نہیں لہٰذا بہتر ہے کہ دشمنوں کی زبان بند رہنے دیں۔ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی ناانصافی کے چرچے کریں۔
بادشاہ یقینا نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اسے ظالم قرار دیں،سو اس نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور حکم دیا کہ فیل بان کے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دیں ۔
حکم کی تعمیل ہوئی۔ہاتھی لایا گیا۔بادشاہ نے کہا:لو یہ رہے تم اور یہ رہا ہاتھی۔اب بتاؤ تم نے اس کی کس طرح تربیت کی؟
ہاتھی نے جونہی فیل بان کو اپنے سامنے پایا،وہ پُرسکون ہو گیا کیونکہ اس نے اس فیل بان کے ہاتھ سے راتب کھایا تھا اور اس کی طرف سے مہربانی دیکھی تھی۔فیل بان نے معمول کے مطابق اس سے ہمدردی کی۔پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوا اور کہا کہ گھاس کا پولا اور پانی کی بڑی بالٹی لائی جائے۔
دونوں چیزیں لائی گئیں اور ہاتھی کے سامنے رکھ دی گئیں۔ہاتھی نے اپنی سونڈ بڑھائی تاکہ گھاس اُٹھائے۔فیل بان نے اسے کہا:گھاس کو چھوڑ،پانی پی اور پانی کی بالٹی مجھے دے۔ہاتھی نے اپنی سونڈ سے بالٹی اُٹھائی اور اپنی دائیں طرف سے اسے اوپر لے گیا۔فیل بان نے بالٹی تھام لی اور کہا:اب گھاس کھا ہاتھی نے تھوڑی سی گھاس کھا لی۔فیل بان نے کہا:اب پانی کی بالٹی پکڑ۔
ہاتھی نے اپنی سونڈ بلند کی اور بالٹی پکڑ لی اور نیچے رکھ دی۔فیل بان نے کہا:اچھا،دو قدم پیچھے ہٹ۔ہاتھ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔فیل بان نے کہا:اب ،دو قدم آگے۔ ہاتھی نے حکم کی تعمیل کی۔پھر فیل بان نے کہا:اب بادشاہ کی تعظیم بجا لا۔ہاتھی نے اپنا سر خم کیا اور اپنا ایک ہاتھ اپنے سینے کی طرف بڑھا سلام کیا۔
اب کیا تھا،فیل بان ہاتھی سے نیچے اُتر آیا اور کہا:بادشاہ!آپ سلامت رہیں۔
میں اپنی سی کوشش کرتا رہا اور ہاتھی کے دست و پا،سونڈ اور جسم سے جو کچھ ہونا ممکن تھا،اسے سکھا دیا اور اس کو راستے پر چلنے،رکن،کھانے اور نہ کھانے کے آداب سکھائے۔ہاتھی چونکہ میرے ہاتھ سے راتب کھایا تھا اور میں اس سے مہربانی اور محبت کا برتاؤ کرتا تھا،لہٰذا وہ اپنی حیوانی عقل کے مطابق میری اطاعت کرتا تھا۔میں اسے بارہا صحرا میں لے گیا اور واپس لایا۔
بارہا اسے چھڑی سے مارا پیٹا اور اس سارے عرصے میں اس نے وحشت نہ دکھائی اور میرا کہا کرتا رہا۔لیکن میں ہاتھی کی زبان نہیں سمجھتا اور اس کے دل کی خواہشیں مجھ پر ظاہر نہیں اور میرے لئے ممکن نہیں کہ اس کی فکر اور سوچ کو بدل ڈالوں کیونکہ وہ عقل نہیں رکھتا اور سوائے گھاس پانی کے اور کسی شے کی پہچان نہیں رکھتا۔تین برس پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا کہ جنگلی جانور کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تربیت اس کے بچپن سے کی جائے کیونکہ تب تک وہ وحشی پن سے واقف نہیں ہوتا۔
وہ مخلوق جو ہمیشہ اور ہرحال میں تربیت قبول کرتی ہے،صرف انسان ہے کہ عقل رکھتا ہے،نپے تلے طریقوں کا شعور رکھتا ہے اور گھاس پانی اور اچھے برے کے باہمی فرق سے واقف ہوتا ہے۔بس مجھے یہی کہنا تھا اور اب میں بادشاہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں۔
بادشاہ نے انصاف سے کام لیا اور کہا:تم نے سچ کہا۔اب چونکہ بات صاف ہو گئی لہٰذا یہ ہاتھی بھی تمہیں بخشتا ہوں۔میرے لئے یہی کافی ہے کہ لوگ کہیں:بادشاہ کے پاس چار سو ہاتھی تھے اور وہ انصاف کرتا تھا۔میری عظمت اور میرا فخر یہ نہیں کہ میں کسی بڑے ہاتھی کا مالک بنوں بلکہ میری بزرگی عدل و انصاف کرنے میں ہے۔

Browse More Moral Stories