Hikmat E Amli - Article No. 2306

Hikmat E Amli

حکمتِ عملی - تحریر نمبر 2306

میں نے حکمت عملی سے کام لیا اور گندم اور مکئی اُگانے کے بجائے ٹماٹر اُگانے کا فیصلہ کیا۔اس دن میرا بہت مذاق بنا،کیونکہ پچھلے سال ٹماٹر اتنی بڑی مقدار میں لگائے گئے تھے کہ آخر میں ان کا خریدار ملنا مشکل ہو گیا تھا اور کسانوں کا بڑا نقصان ہوا تھا

ہفتہ 16 جولائی 2022

جدون ادیب
جب میں محکمہ مال کے افسران اور پٹواری کی مدد سے اپنی زمینوں کا قبضہ لے کر گھر پہنچا تو بہت پُرسکون تھا۔چچا نے جائیداد کے بٹوارے کے لئے بڑے بھائی کے ساتھ بڑی زیادتی کی۔مجھے چند کھیت ملے تھے۔مال مویشی کا بڑا حصہ چچا کو مل گیا تھا۔میں نے شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی اور گاؤں کے لوگوں سے مختلف سوچا کرتا تھا۔
میرے پاس کتابیں اور انٹرنیٹ کی دنیا موجود تھی تو میں نے سیکھنے کا عمل شروع کیا۔جب میں نے اپنے باغ کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ وہاں زیادہ تر درخت آلو بخارے اور سیب کے ہیں،تب ایک خیال میرے دماغ میں آیا اور میں نے اس پر تحقیق شروع کر دی۔پتا چلا کہ فصل تیار ہوتے ہی کھڑی فصل کو بیوپاریوں کو بیچ دیا جاتا تھا۔
جب میں کھیتوں کی طرف گیا تو ان کا بُرا حال تھا۔

(جاری ہے)

والد صاحب آخر میں بہت بیمار رہے تو وہ کھیتوں کی طرف توجہ نہ دے سکے تھے،چنانچہ میں نے مزدور لگا کر کھیتوں میں کام شروع کر دیا۔میں نے حکمت عملی سے کام لیا اور گندم اور مکئی اُگانے کے بجائے ٹماٹر اُگانے کا فیصلہ کیا۔اس دن میرا بہت مذاق بنا،کیونکہ پچھلے سال ٹماٹر اتنی بڑی مقدار میں لگائے گئے تھے کہ آخر میں ان کا خریدار ملنا مشکل ہو گیا تھا اور کسانوں کا بڑا نقصان ہوا تھا۔
دراصل وہ ماضی دیکھ رہے تھے اور میں مستقبل۔
جب ٹماٹر تیار ہوئے تو پتا چلا کہ اس مرتبہ لوگوں نے ٹماٹر کم اُگائے ہیں،چنانچہ ان کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے یوں میں نے کئی گنا منافع حاصل کیا۔
اب چچا کی آنکھیں کھلیں،مگر وہ اپنی اکڑ میں رہے،البتہ چچا کا لڑکا یعنی میرا چچا زاد بھائی خرم میرا دوست بن گیا۔میں نے اسے سکھایا کہ ایک اَن پڑھ اور پڑھے لکھے کسان میں کیا فرق ہوتا ہے۔
میری آمدنی بہت بڑھ چکی تھی،اس لئے میں نے لوگوں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔میری والدہ نے دو غریب لڑکیوں کی شادی کرائی۔میں نے گاؤں کے واحد اسکول کو فرنیچر تحفے میں دیا۔میری فصل گاؤں کے غریب ترین لوگوں کے گھر میں مفت پہنچی اور یوں ہر طرف برکت ہی برکت ہو گئی۔
چچا حیران تھے کہ وہ اتنے تجربے اور چار بیٹوں کے ہوتے ہوئے اتنا نہیں کما رہے تھے جتنا میں اکیلا کما رہا تھا۔
پھر وہ حسد کا شکار ہو کر میرے خلاف ہو گئے۔پہلے میری چار بھینسیں چوری ہوئیں پھر کسی نے میرے کھیتوں میں تیار فصل کو آگ لگا دی۔مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کس کا کام ہے،مگر میں نے صبر کیا اور کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔
لوگوں کے کہنے پر اپنے گاؤں کی طرف سے کونسلر کے انتخاب میں میں نے بھی لڑنے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے سے ہر طرف ایک ہل چل پیدا ہو گئی۔
پھر پتا چلا کہ چچا بیمار ہیں۔میں ان کی عیادت کو گیا۔وہ سخت علیل تھے۔انھوں نے مجھ سے تنہائی میں بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔سب چلے گئے تو وہ بولے:”خالد بیٹا!یوں لگتا ہے،میرا آخری وقت قریب ہے۔“
”ایسا مت کہیں چچا!خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔“میں نے خلوص سے بھرے لہجے میں کہا۔
انھوں نے میری طرف غور سے دیکھا پھر دکھ بھرے لہجے میں بولے:”میں چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود تمہارے باپ سے برتری کے خواب دیکھتا تھا،مگر عزت،دولت،شہرت وہ ہر معاملے میں مجھ سے بہتر ہی رہے۔
بھائی صاحب کا دکھ اندر ہی اندر مجھے کھوکھلا کر چکا ہے۔میں اب تم سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہتا ہوں۔تمہارا جو نقصان ہوا،اس کی ادائی کرنا چاہتا ہوں۔تم چاہو،لے لو تاکہ میں اطمینان سے مر سکوں۔“
میرے والد اپنے چھوٹے بھائی سے جو چاہتے تھے،جیسا ان کو دیکھنا چاہتے تھے،وہ آج ویسے ہی بن گئے تھے۔تبدیل ہو گئے تھے۔تب میں مسکرایا اور جیب سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے کیا:”آپ مرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔
بغیر کسی بیماری کے خود کو بیمار کیے ہوئے ہیں۔ادھر گاؤں والوں کو آپ کی ضرورت ہے اسی لئے یہ انتخاب آپ لڑ رہے ہیں۔دیکھیے،یہ پمفلٹ میں نے تیار کروایا ہے اور کل سے سوچ رہا تھا کہ آپ کو دکھاؤں۔“
چچا کے دکھ اور بیماری کا مداوا شاید یہی الفاظ تھے۔میں نہیں چاہتا تھا کہ چچا کے ہوتے ہوئے بھتیجا گاؤں والوں کی نمائندگی کرے۔چچا نے خود ہی احساسِ ندامت ظاہر کر دیا تو میں نے بھی ان کو وہ کچھ دے دیا جس کے وہ مستحق تھے۔

چچا نے انتخاب لڑا،مگر معمولی فرق سے ہار گئے،مگر ان کو اس کا کوئی دکھ نہیں تھا۔اس کے بعد چچا اور میں نے مل کر محنت کی۔لوگوں کی فصلوں کو اچھے داموں خرید کر منڈیوں تک خود پہنچانے اور بیچنے کا نظام قائم کیا۔نئی شجرکاری کی بے آباد جگہوں پر پھل دار درختوں کے پودے لگائے۔جنگلی جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرکے ان کو سکھانے اور جمع کرنے لگے۔کچھ ہی سالوں میں ہم گاؤں کے سب سے مال دار لوگ بن گئے۔چچا نے لوگوں کی اتنی خدمت کی کہ وہ ان میں ہمارے دادا کا عکس دیکھنے لگے اور ان کی عزت اور احترام میں اضافہ ہو گیا۔

Browse More Moral Stories