Hoshiyar Larka - Aakhri Hissa - Article No. 2095

Hoshiyar Larka - Aakhri Hissa

ہوشیار لڑکا (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2095

قاضی نے لڑکے کو عدالت میں طلب کیا اور جب اس کی باتوں میں ذہانت اور ہوش مندی کے آثار دیکھے تو حکم دیا کہ لڑکے کی تعلیم و تربیت کے لئے وسائل اچھے طریقے سے فراہم کریں یہی وہ لڑکا تھا جو آگے چل کر ایک ممتاز دانشور بنا

ہفتہ 23 اکتوبر 2021

بڑھیا چھت پر گئی۔اس نے دیکھا کہ دونوں دوسرے ساتھی گلی میں کھڑے ہیں۔اس نے ان سے پوچھا:آیا یہ درست ہے کہ تمہیں حمام کے لئے رقم چاہیے۔انہوں نے جواب دیا:ہاں حمام کے لئے چاہیے۔بڑھیا بولی،بہت اچھا۔اس نے روپیہ اس پہلے شخص کے حوالے کیا۔اس نے روپوں کی تھیلی،جو دراصل اسی کی محنت کا حاصل تھے،تھامی اور ایک دوسرے رستے سے ہوتا ہوا اپنے شہر کو جانے کے لئے روانہ ہو گیا۔

دوسرے دونوں ساتھی دیر تک پہلے کا انتظار کرتے رہے مگر اسے نہ آنا تھا نہ آیا۔ناچار وہ بڑھیا کے دروازے پر آئے اور صدا لگائی:ہمارا ساتھی ابھی تک لوٹا نہیں۔کیا ہوا؟بڑھیا بولی:وہ تو کافی دیر پہلے یہاں آیا تھا۔اس نے روپوں کی تھیلی لی اور باہر چلا گیا۔پھر کیا ہوا مجھے نہیں معلوم۔
دونوں معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے اور لگے داد فریاد کرنے:بڑھیا!تم نے ہمارے پیسے اسے کیوں دیئے؟شور و غوغا سن کر وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے اور لگے پوچھنے :کیا ہوا،کیا ہوا؟بڑھیا نے ساری کتھا کہانی کہہ سنائی۔

(جاری ہے)

اہل محلہ کہنے لگے:بڑھیا حق پر ہے۔اس نے تم سے اجازت لے کر روپے اس شخص کے حوالے کیے۔اب تمہارا بڑھیا سے کیا لینا دینا؟
مگر وہ دونوں ساتھی مطمئن نہ ہوئے۔انہوں نے ایک گواہ بنا کر اسے ساتھ لیا اور شہر کے قاضی کے پاس جا کر شکایت کی اور اپنی حق تلفی سے اسے آگاہ کیا۔قاضی شہر نے بڑھیا کو طلب کیا اور کہا:انسان کو یا تو کسی کی امانت قبول نہیں کرنی چاہئے یا اگر کر لے تو اس کی شرائط پر عمل ضروری ہے۔
اگر اُس شخص نے تجھے فریب دیا اور تین لوگوں کا مال لے اُڑا تو مال کی ضامن تو ہے لہٰذا لازم ہے کہ لوگوں کا مال واپس کر۔
بڑھیا نے ہر چند عرض معروض کی اور کہا کہ میری کوئی غلطی نہیں قاضی نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا جب کسی نے امانت قبول کر لی تو اگر غفلت سے وہ امانت ہاتھ سے چلی گئی یا ضائع ہو گئی تو امانتدار ہی اس کا ذمہ دار ہے اور اس پر لازم ہے کہ لوگوں کا حق انہیں لوٹائے۔

ناچار بڑھیا نے ضمانت دی اور کہا:ممکن ہے کل تک میں فرار ہونے والے کا سراغ لگا لوں۔قاضی نے بھی اُن دو لوگوں سے کل تک کی مہلت لے لی۔
بیچاری بڑھیا پریشانی کے عالم میں کمرہ عدالت سے باہر آئی۔وہ اس قدر پریشان تھی کہ گلی میں اپنے آپ سے باتیں کرتی بڑبڑاتی اور روتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔وہ خود سے کہہ رہی تھی میں عجیب مصیبت میں گرفتار ہوں میں بڑی مشکل میں پھنس گئی ہوں۔
گلی میں کچھ بچے کھیل رہے تھے جب انہوں نے بڑھیا کو اس حال میں دیکھا تو اس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔ایک لڑکے نے جو بڑھیا کو پہچانتا تھا اس سے پوچھا اماں جان!آپ کیوں رو رہی ہیں؟بڑھیا بولی مجھ سے ایک غلطی ہو گئی ہے اور اب مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔کام مشکل ہے اور تم اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکتے۔لڑکا بولا۔ہم خوش تھے اور کھیل کود کر رہے تھے کہ آپ اس حال میں یہاں آ پہنچیں اور ہم بے چین ہو گئے۔
آپ کو بتانا چاہئے کہ ہوا کیا؟بڑھیا نے سارا احوال کہہ سنایا اور کہا اب تم نے دیکھا کہ یہ باتیں تمہاری عقل سے بالا ہیں۔لڑکا بولا کیوں بالا ہیں؟میں خوب سمجھ سکتا ہوں۔اگر میں اس مشکل کو حل کر دوں اور آپ کو اس غم سے نجات دلا دوں تو آپ میرے لئے کیا کریں گی؟بڑھیا بولی میں وعدہ کرتی ہوں کہ کھجور کے ایک خوشے سے تمہاری دعوت کروں گی۔
لڑکا ہنسا اور بولا:اس مشکل کا حل یہ ہے کہ آپ جونہی قاضی کے سامنے پیش ہوں تو کہیں کہ دونوں استغاثہ کرنے والوں کو بلایا جائے اور محلے کے چند معتبر لوگوں کو بھی حاضر کیا جائے تاکہ گواہ رہیں۔
اُس وقت آپ یہ کہیں کہ ہر دو شکایت کنندگاں تمام معروف و معتبر لوگوں کے سامنے امانت کے سپرد کیے جانے کی تفصیل اول سے آخر تک بیان کریں اور اس کارروائی کی تفصیل قاضی کے حضور تحریری طور پر پیش کریں پھر جب یہ سب باتیں وہ تفصیل سے کہہ دیں تو آپ یہ کہیں بہت خوب یہ بالکل سچ اور صحیح ہے لیکن میں نے یہ رقم تینوں لوگوں کی موجودگی میں دی ہے،تاہم اگر یہ بات ان کے لئے قابل قبول نہیں تو اس کی تلافی میری گردن پر ہے۔
لازم ہے کہ تینوں لوگ یہاں حاضر ہو کر مجھ سے رقم کا مطالبہ کریں۔اُس وقت اپنے ساتھی کو حاضر کرنا ان دونوں کی ذمہ داری ہو گی اور ایسی صورت میں قاضی بھی آپ پر زور نہیں ڈال سکے گا۔
ہوشیار لڑکے سے یہ باتیں سن کر بڑھیا بڑی خوش ہوئی اور اس نے فوراً قاضی کی عدالت کا رُخ کیا اور اسی طرح عمل کیا۔قاضی نے جب استغاثے والوں کی باتیں سن لیں اور بڑھیا کا جواب بھی سماعت کر لیا تو گویا ہوا یہی بات صحیح ہے اور بڑھیا سچی ہے۔
تم لوگوں کو چاہئے کہ تینوں مل کر آئیں اور اپنی امانت لے جائیں اب چونکہ تم صرف دو لوگ ہو لہٰذا جاؤ اور تیسرے ساتھی کو لے کر آؤ اور اپنی امانت کا مطالبہ کرو میں یہیں منتظر ہوں۔
اب اُن دونوں کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ جائیں اور قاضی کی ہدایت پر عمل کریں۔پھر حاکم بڑھیا کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے پوچھا بڑی بی!یہ کیسے ہوا کہ پہلی بار تم نے یہ جواب نہ دیا اور جب تم واپس آئیں تو تم نے یہ باتیں کہیں؟بڑھیا بولی حقیقت یہ ہے کہ میں نے یہ جواب کھجوروں کے ایک خوشے کے عوض خریدا ہے۔
پھر اس نے ہوشیار لڑکے کا سارا قصبہ کہہ سنایا۔
قاضی نے لڑکے کو عدالت میں طلب کیا اور جب اس کی باتوں میں ذہانت اور ہوش مندی کے آثار دیکھے تو حکم دیا کہ لڑکے کی تعلیم و تربیت کے لئے وسائل اچھے طریقے سے فراہم کریں یہی وہ لڑکا تھا جو آگے چل کر ایک ممتاز دانشور بنا۔

Browse More Moral Stories