Imaandari Ka Anjam - Article No. 1422

Imaandari Ka Anjam

ایمانداری کا انعام - تحریر نمبر 1422

قاضی صاحب! میرے پڑوس میں ایک انعام نامی نوجوان رہتا ہے- دو ماہ گزرے اس نے مجھ سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے- مگر اب وہ انہیں واپس کرنے کا نام ہی نہیں لیتا

بدھ 22 مئی 2019

مختار احمد (اسلام آباد)
ایک زمانہ گزرا کسی شہر میں ایک قاضی تھا جو بے حد انصاف پسند تھا-
ایک دفعہ ایک آدمی روتا پیٹتا اس کے پاس آیا اور بولا-
"قاضی صاحب! میرے پڑوس میں ایک انعام نامی نوجوان رہتا ہے- دو ماہ گزرے اس نے مجھ سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے- مگر اب وہ انہیں واپس کرنے کا نام ہی نہیں لیتا- میں غریب آدمی ہوں- میں نے پائی پائی جوڑ کر وہ روپے جمع کیے تھے- خدا کے لیے میرے ساتھ انصاف کیجیے"-
قاضی نے اسے تسلی دی اور اس کے پڑوسی انعام کو عدالت میں بلوایا اور کہا-
"نوجوان تم نے اس شخص سے جو پانچ سو روپے ادھار لیے تھے- تم اسے واپس کیوں نہیں دیتے؟"-
انعام کے چہرے پر حیرت کے آثار پیدا ہوگئے- اس نے کہا-
"جناب! وہ پانچ سو روپے تو میں نے ہی اسے ادھار دیے تھے- فرید نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ یہ روپے اپنے کاروبار میں لگانا چاہتا ہے اور مجھے بہت جلد واپس کردے گا"-
فرید نے چلا کر کہا-
"دیکھا حضور قاضی صاحب! اب یہ آپ کے سامنے صاف جھوٹ بول کر مجھ سے مزید پانچ سو روپے وصول کرنا چاہتا ہے- ہائے میں کیا کروں- میں تو برباد ہوگیا- "قاضی صاحب! اس جھوٹے شخص کو فوراً سزا دیجیے"-
قاضی نے ڈانٹ کر اسے خاموش کرایا- وہ بے حد حیران تھا کہ ان میں کون جھوٹا ہے اور کون سچا ہے-
فرید کہتا تھا کہ انعام نے اس سے پانچ سو روپے ادھار لیے تھے اور انعام کہتا تھا اس نے پانچ سو روپے فرید کو دیے تھے-
قاضی نے عدالت برخواست کی اور دو دن کے بعد ان دونوں کو عدالت میں آنے کا حکم دیا-
جب قاضی گھر پہنچا تو اسے پریشانی ہوئی- دو دن کے بعد اسے فیصلہ سنانا تھا- وہ اسی کے متعلق سوچ رہا تھا-
جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو ان دونوں نوجوانوں کی ایمانداری کا اندازہ لگانے کے لیے اس کے ذہن میں ایک ترکیب آگئی-
اگلے دن شام کو اس نے ایک بوڑھے سوداگر کا بھیس بدلا اور انعام کے دروازے پر اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی گرا دی- تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ انعام اپنے گھر سے نکلا- باہر نکلتے ہی اس کی نظر اشرفیوں کی تھیلی پر پڑی- اس نے وہ تھیلی اٹھا لی اور دوبارہ گھر کے اندر چلا گیا-
قاضی ایک جگہ چھپا ہوا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا-
تھوڑی دیر بعد اس نے اشرفیوں سے بھری دوسری تھیلی فرید کے دروازے پر پھینک دی اور دوبارہ اس جگہ چھپ کر کھڑا ہوگیا- اسے وہاں کھڑے ہوۓ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ فرید بازار کی طرف سے آتا دکھائی دیا- وہ جیسے ہی اپنے دروازے پر پہنچا اس کی نظر تھیلی پر پڑی- اس نے جھک کر تھیلی اٹھا لی اور گھر میں داخل ہوگیا-
چاروں طرف گہری تاریکی چھانے لگی تھی- قاضی پہلے انعام کے مکان پر پہنچا- اس نے دروازے پر دستک دی- دروازہ پہلی دستک پر ہی کھل گیا-
دروازہ کھولنے والا انعام ہی تھا-
قاضی نے ایک بوڑھے سوداگر کا بھیس بدل رکھا تھا- اس لیے انعام اسے نہیں پہچان سکا-
"فرمائیے جناب! آپ کو کس سے ملنا ہے؟"- انعام نے بڑے اخلاق سے پوچھا-
"بیٹا میں پردیسی ہوں- پیاس لگی تو دروازہ کھٹکھٹا دیا- کیا تھوڑا سا پانی مل جائے گا؟"- قاضی نے پوچھا-
"اندر آجائیے بابا"- انعام ایک طرف کو ہٹتے ہوۓ بولا-
قاضی گھر میں داخل ہوگیا- انعام اسے لے کر ایک کمرے میں آیا جہاں پر دسترخوان بچھا ہوا تھا- دسترخوان پر دو بچے بھی بیٹھے ہوۓ تھے-
"بابا آپ دور سے آرہے ہیں- بھوک بھی لگ رہی ہوگی- پہلے کھانا کھا لیں" انعام نے کہا- "یہ دونوں میرے چھوٹے بھائی ہیں"-
قاضی نے بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہاتھ دھو کر دسترخوان پر بیٹھ گیا- کھانے کے بعد ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں- انعام کی ماں نے قہوہ بھی تیار کرلیا تھا اور اب وہ لوگ گرما گرم قہوہ کی چسکیاں لے رہے تھے-
انعام نے بتایا-
"شہر میں میری شکر کی ایک دکان ہے- الله کا کرم ہے کہ اس سے اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے- ہمارے ابا سات سال پہلے انتقال کر گئے تھے- اس لیے اب گھر کو سنبھالنے کی ذمہ داری میری ہی ہے"-
قاضی اس کی باتیں بڑی دلچسپی کے ساتھ سن رہا تھا-
تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر اس کا چہرہ فق ہوگیا- اس کی بدلتی ہوئی حالت کو انعام نے بھی محسوس کر لیا تھا-
"کیا ہوا- بابا- کیا آپ کی کوئی چیز کھو گئی ہے"- اس نے پوچھا-
"میری اشرفیوں کی تھیلی پتہ نہیں کیا ہوئی"-
قاضی اپنی جیبیں ٹٹولتے ہوۓ بولا-
اشرفیوں کی تھیلی کا سن کر انعام چونکا-
"ایک اشرفی کی تھیلی تو مجھے بھی اپنے دروازے پر سے پڑی ہوئی ملی تھی"- اس نے اٹھتے ہوۓ کہا-
پھر وہ اشرفیوں کی تھیلی لے کر آگیا-
تھیلی دیکھ کر قاضی کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں-
"ارے ہاں بھئی! یہ تو میری ہی تھیلی ہے اور اس میں پوری ستانوے اشرفیاں ہیں"- قاضی نے کہا-
"شکر ہے آپ کی امانت آپ کو مل گئی"- انعام نے کہا-
قاضی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بولا-
"بیٹا تم نے اپنی ایمانداری سے میرا دل خوش کردیا ہے- خدا تم جیسی نیک اور فرمابردار اولاد ہر کسی کو دے"-
پھر وہ انعام کے گھر سے نکل کر فرید کے مکان پر آیا- اس نے دروازہ پر دستک دی-
اندر سے فرید کی دھاڑ سنائی دی-
"کون ہے بے- کیا دروازہ توڑ دے گا"-
اس کے ساتھ ہی ایک بچے نے دروازہ کھولا اور قاضی کو دیکھ کر اندر کی طرف منہ کر کے بڑی زور سے چلایا-
"ابا جان! دروازے پر ایک بوڑھا بابا کھڑا ہے"-
تھوڑی دیر بعد وہاں پر فرید آگیا- وہ بھی قاضی کو نہیں پہچان سکا تھا-
بوڑھے کو گھورتے ہوۓ بولا-
"کون ہو تم- کیا کام ہے؟"-
"بھائی صاحب! میں ایک پردیسی ہوں- میری ایک اشرفیوں کی تھیلی یہیں کہیں گر گئی ہے- اگر تمہیں ملی ہو تو دیدو بڑی مہربانی ہوگی"- قاضی نے بہت ہی نرم لہجے میں کہا-
"کیوں! کیا تم نے ہم لوگوں کو چور اچکا سمجھ رکھا ہے جو اشرفیوں کی تھیلی کا ہم سے پوچھنے آئے ہو- تھیلی جہاں گرائی ہے وہیں دیکھو- اونٹ کی طرح منہ اٹھا کر یہاں چلے آنا ضروری تھا"-
فرید نے قاضی کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا-
"ناراض کیوں ہوتے ہو بھائی- اگر میری اشرفیوں کی تھیلی تمہیں نہیں ملی ہے تو کوئی بات نہیں- خدانخواستہ میں تم پر الزام تو نہیں لگا رہا ہوں"- قاضی نے کہا-
"الزام لگا کر دیکھو- ہاتھ پاؤں ایک کردیتا ہوں میں"- فرید نے نتھنے پھڑ پھڑاتے ہوۓ کہا-
"بیٹا میں تیرے باپ کی عمر کا ہوں- تمہیں مجھ سے ایسے انداز میں بات کرنا زیب نہیں دیتی"- قاضی اسے سمجھانے لگا-
فرید نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور ایک دھڑاکے سے دروازہ بند کردیا-
قاضی اپنے گھر واپس لوٹ آیا-
اگلے دن انعام اور فرید دونوں پھر قاضی کے سامنے حاضر ہوۓ- وہاں پر اور بہت سارے لوگ بھی بیٹھے ہوۓ تھے- قاضی نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ فرید کو گرفتار کرلیں-
قاضی کے اس اچانک فیصلے پر تمام لوگ ہکا بکا رہ گئے-
قاضی ان کی حیرت سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ بولا-
"میں نے یہ فیصلہ بالکل صحیح کیا ہے- کل میں ایک بوڑھے سوداگر کا بھیس بدل کر انعام اور فرید کے گھر گیا تھا- میں نے ان دونوں کے دروازوں پر ایک ایک اشرفیوں کی تھیلی پھینکی پھر میں چھپ کر ان کی نگرانی کرتا رہا-
آخر کار ان دونوں نے اشرفیوں کی تھیلیاں اٹھا لیں- کچھ دیر کے بعد میں پہلے انعام کے گھر گیا- انعام نے میری خوب خاطر مدارات کی- پھر میں نے اس سے اپنی گمشدہ اشرفیوں کی تھیلی کا تذکرہ کیا تو اس نے میری اشرفیوں کی تھیلی جوں کی توں لادی-
مگر جب میں فرید کے گھر پہنچا تو اس نے مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کی بلکہ مجھے بری طرح ذلیل کر کے دھتکار دیا- اور اس نے اس بات سے بھی انکار کیا تھا کہ اسے اشرفیوں کی کوئی تھیلی ملی ہے-
اس لیے میں نے اندازہ لگایا ہے کہ انعام ایک بااخلاق، باکردار اور ایماندار نوجوان ہے- جب کہ فرید جھوٹا، فریبی اور مکار شخص ہے-
فرید کو انعام نے جو پانچ سو روپے ادھار دیے تھے ان کو لوٹانا پڑے گا اور اس کو عدالت سے جھوٹ بولنے، امانت میں خیانت اور ایک اچھے نوجوان پر جھوٹا الزام لگانے کے جرم میں پچاس کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے"-
انعام کے روپے اسے واپس مل گئے- انعام اپنی ایمانداری کی وجہ سے پورے شہر میں مشہور ہوگیا- قاضی بھی انعام کی ایمانداری سے بہت خوش تھا-
جب کہ فرید جیسے مکار شخص سے لوگ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے- وہ پورے شہر میں بدنام ہوگیا تھا- آخر ایک روز تنگ آ کر اس نے وہ شہر ہی چھوڑ دیا اور دوسرے گاؤں روانہ ہوگیا-

Browse More Moral Stories