Inaam - Article No. 1889
انعام - تحریر نمبر 1889
اگلے ہفتے اسکول میں مقابلہ ہے،اور مجھے آپ سے یہ کام سیکھنا ہے،تاکہ میں بھی مقابلے میں حصہ لے سکوں
جمعہ 5 فروری 2021
تبسم حسنی،کراچی
ایک چھوٹی سی کمہاروں کی بستی تھی،جہاں کمہار اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے۔فضل دین اسی بستی کا ایک محنت کش کمہار تھا، جس کے ہاتھ کی صفائی دور دور تک مشہور تھی۔گڑیا ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔گڑیا صبح سویرے اُٹھ کر گھر کے کام میں ماں کا ہاتھ بٹاتی پھر اسکول چلی جاتی،اسکول کے بعد وہ اور اس کی سہیلیاں خوب کھیلتیں۔
”میرے ابا مجھے مٹی کے برتن بنانا سکھائیں گے،پھر میں جب سیکھ جاؤں گی اپنے لئے بہت سارے برتن بناؤں گی۔“گڑیا کی سہیلی نے اسکول سے واپسی پر راستے میں کہا۔
”ہم بھی اپنے ابا سے سیکھیں گے۔“ان کے ساتھ چلتی دوسری لڑکیوں نے بھی کہا۔گڑیا نے گھر آکر بستہ رکھا اور فضل دین کے سامنے بیٹھ گئی۔
”بابا جان!یہ کتنا خوب صورت ہے،لیکن اسے بنانا بہت مشکل ہے نا؟“گڑیا نے ابا سے پوچھا۔
”کوئی بھی کام ہمیں تب تک مشکل لگتا ہے جب تک ہم اسے سیکھ نہیں جاتے،اسے سیکھنے کے لئے خوب محنت بھی کرنی پڑتی ہے،اور پھر ہمیں وہ کام آجاتا ہے اور آسان لگتا ہے۔اگر ہم محبت سے کوئی بھی کام کریں تو نہ محنت کا احساس اور نہ ہی کسی مشکل کا۔“
فضل دین نے گڑیا سے کہا۔گڑیا کو اس کام میں دلچسپی نہ تھی،مگر باپ کو کام کرتے دیکھ کر اسے مزہ آرہا تھا۔کچھ دن بعد اسکول میں ایک دلچسپ مقابلے کا اعلان ہوا۔ چونکہ یہ کمہاروں کی بستی کا اسکول تھا،اس لئے مقابلے میں مٹی سے اشیاء بنا کر لانی تھیں۔ایک ہفتہ بعد یہ مقابلہ رکھا گیا تھا۔
”بابا جان!اگلے ہفتے اسکول میں مقابلہ ہے،اور مجھے آپ سے یہ کام سیکھنا ہے،تاکہ میں بھی مقابلے میں حصہ لے سکوں۔“گڑیا نے گھر میں داخل ہوتے ہی فضل دین سے کہا۔
”کیوں نہیں،اپنی گڑیا کو ضرور سکھاؤں گا۔“
فضل دین نے پیار سے کہا:”کوئی بھی کام مضبوط ارادے کے علاوہ سخت محنت بھی مانگتا ہے۔اگر تمہارے پاس یہ دونوں ہیں تو پھر کوئی بھی تمہیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔“
آہستہ آہستہ اس کی دلچسپی ختم ہو رہی تھی۔وہ تھوڑا سا سیکھنے کی کوشش کرتی،پھر کھیلنے چلی جاتی۔ایک دن وہ اپنے ابا کے پاس بیٹھی تھی۔اس نے اپنی بیٹی سے کہا:”کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ جو بھی کام کرو وہ صبر اور محنت سے کرو،ورنہ پچھتانا پڑے گا۔“
”بابا جان!اب میں بھی پوری توجہ اور محنت سے سیکھوں گی۔“گڑیا نے کہا۔
اس دن کے بعد گڑیا بڑی محنت سے سیکھنے لگی۔اگر کام خراب ہو جاتا تو پھر کوشش کرتی۔بد دلی سے چھوڑ کر نہیں جاتی۔گڑیا نے اتنا تو سیکھ ہی لیا تھا کہ مقابلے میں حصہ لے سکے۔مقابلے والے دن سب ہی پُرجوش تھے۔گڑیا کو امید تھی کہ وہ بھی مقابلے میں انعام حاصل کر لے گی،لیکن اسے کوئی انعام نہیں ملا۔
”بابا جان!میں نے کتنی محنت کی تھی پھر بھی ہار گئی۔“گڑیا نے فضل دین سے کہا۔
”ہار پہ دل چھوٹا نہیں کرتے بچے!ہو سکتا ہے کہ جن بچوں نے انعام حاصل کیا ہے انھوں نے زیادہ محنت کی ہو۔پہلی بات پر ہی سب ختم نہیں ہو جاتا اور یاد رکھو ناکامی ،کامیابی کی پہلی سیڑھی کو کہا جاتا ہے،اس لئے تمہاری یہ ہار آگے تمہارے لئے کامیابیاں لے آئے گی،مگر شرط صرف محنت اور لگن کی ہے۔“فضل دین نے گڑیا کو سمجھایا۔اس دن کے بعد گڑیا اسکول اور کھیل کے ساتھ ساتھ پھر سے مٹی کی چیزیں بنانے لگی۔کمہاروں کی بستی کا یہ اسکول صرف پانچویں جماعت تک تھا۔اس کے بعد پڑھنے کے لئے شہر جانا پڑتا تھا۔اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے سوچا اسی طرح کا ایک مقابلہ بڑے پیمانے پر رکھا جائے۔اہم تعلیمی افسران کو مدعو کیا جائے تاکہ وہ بچوں کی قابلیت پر ان کی حوصلہ افزائی کریں اور اسکول کی مزید جماعتوں کی منظوری بھی دے دیں۔
تین ماہ بعد اسکول کے سامنے بڑا سا پنڈال سجایا گیا تھا۔پنڈال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔اسٹیج پر مہمان بیٹھے تھے۔مقابلے میں حصہ لینے والے بچوں کے بنائے ہوئے شاہ کار بڑی سی میز پر سجائے گئے تھے۔مہمانان گرامی کی حوصلہ افزاء تقاریر کے بعد انعامات کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔گڑیا کو جیت کی اُمید تو تھی،مگر ہار کا خوف بھی تھا۔پہلے تیسرے انعام یافتہ کا نام پکارا گیا،پھر دوسرے اور آخر میں پہلے انعام یافتہ کا نام پکارا گیا۔گڑیا کی جیت کی آس ٹوٹ گئی تھی،مگر اس نے اپنا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔فضل دین نے غور سے گڑیا کو دیکھا کہیں ہار پر وہ دکھی تو نہیں ہو رہی۔
”کوئی بات نہیں بابا جان!ہار پر سب ختم تو نہیں ہو جاتا۔اگلی بار پھر کوشش کرلوں گی۔“
تینوں انعام یافتہ بچوں کو انعام دیا جا چکا تھا۔
”اُصولاً تو انعامات کی تقسیم تین درجوں میں کی جاتی ہے،مگر ہم نے سب سے خاص اور بہترین شاہ کار کے لئے الگ سے انعام کا فیصلہ کیا ہے۔“
ہیڈ ماسٹر نے یہ خبر سنا کر بچوں میں جیسے جوش سا بھر دیا۔ ”اور انعام دیا جاتا ہے․․․․․“انھوں نے تھوڑا وقفہ کیا جس سے سارے پنڈال میں تجسس پھیل گیا۔”گڑیا فضل دین“ہیڈ ماسٹر نے مسکراتے ہوئے گڑیا کا نام پکارا جو بے یقینی سے اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی۔
پھر گڑیا دوڑتی ہوئی اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی۔پورا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا۔
”بابا جان!میں جیت گئی۔“گڑیا نے ٹرافی لہراتے ہوئے فضل دین سے کہا۔
”ہاں!گڑیا،تمہاری محنت اور حوصلہ جیت گیا۔“فضل دین گڑیا کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
ایک چھوٹی سی کمہاروں کی بستی تھی،جہاں کمہار اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے۔فضل دین اسی بستی کا ایک محنت کش کمہار تھا، جس کے ہاتھ کی صفائی دور دور تک مشہور تھی۔گڑیا ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔گڑیا صبح سویرے اُٹھ کر گھر کے کام میں ماں کا ہاتھ بٹاتی پھر اسکول چلی جاتی،اسکول کے بعد وہ اور اس کی سہیلیاں خوب کھیلتیں۔
”میرے ابا مجھے مٹی کے برتن بنانا سکھائیں گے،پھر میں جب سیکھ جاؤں گی اپنے لئے بہت سارے برتن بناؤں گی۔“گڑیا کی سہیلی نے اسکول سے واپسی پر راستے میں کہا۔
”ہم بھی اپنے ابا سے سیکھیں گے۔“ان کے ساتھ چلتی دوسری لڑکیوں نے بھی کہا۔گڑیا نے گھر آکر بستہ رکھا اور فضل دین کے سامنے بیٹھ گئی۔
(جاری ہے)
فضل دین کوئی لوک گیت گاتے ہوئے کام کر رہا تھا گڑیا خاموشی سے ان کے ہاتھوں کی کاری گری دیکھنے لگی۔
جب مٹی کی صراحی تیار ہو گئی تو فضل دین نے اسے ایک طرف رکھ دیا۔”بابا جان!یہ کتنا خوب صورت ہے،لیکن اسے بنانا بہت مشکل ہے نا؟“گڑیا نے ابا سے پوچھا۔
”کوئی بھی کام ہمیں تب تک مشکل لگتا ہے جب تک ہم اسے سیکھ نہیں جاتے،اسے سیکھنے کے لئے خوب محنت بھی کرنی پڑتی ہے،اور پھر ہمیں وہ کام آجاتا ہے اور آسان لگتا ہے۔اگر ہم محبت سے کوئی بھی کام کریں تو نہ محنت کا احساس اور نہ ہی کسی مشکل کا۔“
فضل دین نے گڑیا سے کہا۔گڑیا کو اس کام میں دلچسپی نہ تھی،مگر باپ کو کام کرتے دیکھ کر اسے مزہ آرہا تھا۔کچھ دن بعد اسکول میں ایک دلچسپ مقابلے کا اعلان ہوا۔ چونکہ یہ کمہاروں کی بستی کا اسکول تھا،اس لئے مقابلے میں مٹی سے اشیاء بنا کر لانی تھیں۔ایک ہفتہ بعد یہ مقابلہ رکھا گیا تھا۔
”بابا جان!اگلے ہفتے اسکول میں مقابلہ ہے،اور مجھے آپ سے یہ کام سیکھنا ہے،تاکہ میں بھی مقابلے میں حصہ لے سکوں۔“گڑیا نے گھر میں داخل ہوتے ہی فضل دین سے کہا۔
”کیوں نہیں،اپنی گڑیا کو ضرور سکھاؤں گا۔“
فضل دین نے پیار سے کہا:”کوئی بھی کام مضبوط ارادے کے علاوہ سخت محنت بھی مانگتا ہے۔اگر تمہارے پاس یہ دونوں ہیں تو پھر کوئی بھی تمہیں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔“
آہستہ آہستہ اس کی دلچسپی ختم ہو رہی تھی۔وہ تھوڑا سا سیکھنے کی کوشش کرتی،پھر کھیلنے چلی جاتی۔ایک دن وہ اپنے ابا کے پاس بیٹھی تھی۔اس نے اپنی بیٹی سے کہا:”کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ جو بھی کام کرو وہ صبر اور محنت سے کرو،ورنہ پچھتانا پڑے گا۔“
”بابا جان!اب میں بھی پوری توجہ اور محنت سے سیکھوں گی۔“گڑیا نے کہا۔
اس دن کے بعد گڑیا بڑی محنت سے سیکھنے لگی۔اگر کام خراب ہو جاتا تو پھر کوشش کرتی۔بد دلی سے چھوڑ کر نہیں جاتی۔گڑیا نے اتنا تو سیکھ ہی لیا تھا کہ مقابلے میں حصہ لے سکے۔مقابلے والے دن سب ہی پُرجوش تھے۔گڑیا کو امید تھی کہ وہ بھی مقابلے میں انعام حاصل کر لے گی،لیکن اسے کوئی انعام نہیں ملا۔
”بابا جان!میں نے کتنی محنت کی تھی پھر بھی ہار گئی۔“گڑیا نے فضل دین سے کہا۔
”ہار پہ دل چھوٹا نہیں کرتے بچے!ہو سکتا ہے کہ جن بچوں نے انعام حاصل کیا ہے انھوں نے زیادہ محنت کی ہو۔پہلی بات پر ہی سب ختم نہیں ہو جاتا اور یاد رکھو ناکامی ،کامیابی کی پہلی سیڑھی کو کہا جاتا ہے،اس لئے تمہاری یہ ہار آگے تمہارے لئے کامیابیاں لے آئے گی،مگر شرط صرف محنت اور لگن کی ہے۔“فضل دین نے گڑیا کو سمجھایا۔اس دن کے بعد گڑیا اسکول اور کھیل کے ساتھ ساتھ پھر سے مٹی کی چیزیں بنانے لگی۔کمہاروں کی بستی کا یہ اسکول صرف پانچویں جماعت تک تھا۔اس کے بعد پڑھنے کے لئے شہر جانا پڑتا تھا۔اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے سوچا اسی طرح کا ایک مقابلہ بڑے پیمانے پر رکھا جائے۔اہم تعلیمی افسران کو مدعو کیا جائے تاکہ وہ بچوں کی قابلیت پر ان کی حوصلہ افزائی کریں اور اسکول کی مزید جماعتوں کی منظوری بھی دے دیں۔
تین ماہ بعد اسکول کے سامنے بڑا سا پنڈال سجایا گیا تھا۔پنڈال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔اسٹیج پر مہمان بیٹھے تھے۔مقابلے میں حصہ لینے والے بچوں کے بنائے ہوئے شاہ کار بڑی سی میز پر سجائے گئے تھے۔مہمانان گرامی کی حوصلہ افزاء تقاریر کے بعد انعامات کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔گڑیا کو جیت کی اُمید تو تھی،مگر ہار کا خوف بھی تھا۔پہلے تیسرے انعام یافتہ کا نام پکارا گیا،پھر دوسرے اور آخر میں پہلے انعام یافتہ کا نام پکارا گیا۔گڑیا کی جیت کی آس ٹوٹ گئی تھی،مگر اس نے اپنا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔فضل دین نے غور سے گڑیا کو دیکھا کہیں ہار پر وہ دکھی تو نہیں ہو رہی۔
”کوئی بات نہیں بابا جان!ہار پر سب ختم تو نہیں ہو جاتا۔اگلی بار پھر کوشش کرلوں گی۔“
تینوں انعام یافتہ بچوں کو انعام دیا جا چکا تھا۔
”اُصولاً تو انعامات کی تقسیم تین درجوں میں کی جاتی ہے،مگر ہم نے سب سے خاص اور بہترین شاہ کار کے لئے الگ سے انعام کا فیصلہ کیا ہے۔“
ہیڈ ماسٹر نے یہ خبر سنا کر بچوں میں جیسے جوش سا بھر دیا۔ ”اور انعام دیا جاتا ہے․․․․․“انھوں نے تھوڑا وقفہ کیا جس سے سارے پنڈال میں تجسس پھیل گیا۔”گڑیا فضل دین“ہیڈ ماسٹر نے مسکراتے ہوئے گڑیا کا نام پکارا جو بے یقینی سے اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی۔
پھر گڑیا دوڑتی ہوئی اسٹیج پر اپنا انعام لینے گئی۔پورا پنڈال تالیوں سے گونج اُٹھا تھا۔
”بابا جان!میں جیت گئی۔“گڑیا نے ٹرافی لہراتے ہوئے فضل دین سے کہا۔
”ہاں!گڑیا،تمہاری محنت اور حوصلہ جیت گیا۔“فضل دین گڑیا کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
Browse More Moral Stories
لکڑی کے سپاہی
Lakri Ke Sipahi
آدھا کمبل
Aadha Kambal
کامل یقین
Kamil Yaqeen
قارون کا خزانہ
Karoon Ka Khazana
قبولِ حج
Qabool E Hajj
اہم چیز
Eheem Cheez
Urdu Jokes
زبان
Zaban
ایک آدمی
Aik admi
سب سے اونچا
Sab se uncha
دودھ والا
doodh wala
ملازمت
Mulazmat
زبان بندی
Zuban bandi
Urdu Paheliyan
ہاتھ میں لے کر ذرا گھمایا
hath me leke zara ghumaya
ٹانگیں چار مگر بے کار
taangen chaar magar bekar
کوئی رنگ نہ بیل نہ بوٹے
koi rang na bale na booty
دو چڑیا رکھتی ہیں پر
do chirya rakhti hen par
دیکھی ہے اک ایسی رانی
dekhi hai aik esi raani
دیکھی ہم نے ایک مشین
dekhi hum ne ek machine
ArticlesStoriesMiscellaneousGamesBaby NamesUrdu Videos