Insaan Or Machine - Article No. 1568

Insaan Or Machine

ا نسان اور مشین - تحریر نمبر 1568

زرار احمد بیگ اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اکاؤنٹنٹ عبدالحسیب اندر داخل ہوا اور بولا:”السلام علیکم سر!وہ․․․․․میرا بیٹا کئی دن سے بہت بیمار ہے۔بخار کسی طرح نہیں اُتر رہا۔براہ مہربانی مجھے کچھ دن کی چھٹیاں دے دیں،کیوں کہ اس کو اسپتال میں داخل کرانا ہو گا اور

جمعہ 8 نومبر 2019

فوزیہ خلیل
زرار احمد بیگ اپنے آفس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اکاؤنٹنٹ عبدالحسیب اندر داخل ہوا اور بولا:”السلام علیکم سر!وہ․․․․․میرا بیٹا کئی دن سے بہت بیمار ہے۔بخار کسی طرح نہیں اُتر رہا۔براہ مہربانی مجھے کچھ دن کی چھٹیاں دے دیں،کیوں کہ اس کو اسپتال میں داخل کرانا ہو گا اور ․․․․․“
”اور ․․․․․اور․․․․تاکہ تم بچے کے بہتر نگہداشت کر سکو،مگر عبدالحسیب یہ بھی تو سوچو کہ اگر میں تمام ملازمین کو اسی طرح چھٹیاں دیتا رہوں گا تو آفس کیسے چلے گا؟“
”سر پلیز۔

آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔صرف ایک ہفتے کی چھٹیاں دے دیجیے۔اگر بچہ جلد ٹھیک ہو گیا تو میں پہلے ہی حاضر ہو جاؤں گا۔ہر گز دیر نہیں کروں گا۔“وہ گڑ گڑایا۔
”ٹھیک ہے ۔

(جاری ہے)

ٹھیک ہے۔“انھوں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔عبدالحسیب باہر نکلا تو کچھ دیر بعد خرم فردوسی اندر داخل ہوا۔
”السلام علیکم سر!مجھے صبح سے تیز بخار ہو رہا ہے ۔پہلے تو صرف بخار ہی تھا اب تو چکر بھی آرہے ہیں۔

سر!اب اس حالت میں مجھ سے بالکل بیٹھا نہیں جا رہا۔مجھ کو رخصت دیجیے،تاکہ گھر جا کر آرام کروں۔چکروں نے تو میرا حال خراب کر دیا ہے۔“خرم فردوسی نے بخار سے کپکپاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے،تم بھی جاؤ۔“
”اور سر!اگر طبیعت بہتر نہ ہوئی تو کل بھی حاضر نہ ہو سکوں گا۔“وہ نکلتے نکلتے پلٹ کر بولا۔
”ٹھیک ہے،ٹھیک ہے۔“زرار احمد بیگ نے ہاتھ ہلایا۔

خرم فردوسی کے جانے کے بعد ان کا موڈ خاصا خراب ہو چکا تھا۔وہ اپنے آفس کے معاملات میں حد درجہ حساس تھے اور پھر ملازمین کو چھٹیاں دینے سے تو سخت نالاں رہتے تھے۔
وہ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے۔ابھی پہلا لقمہ ہی منھ میں رکھا تھا کہ کلرک اللہ بخش اندر داخل ہوا۔سلام کرنے کے بعد وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر بولا:”جناب!وہ․․․․․“کلرک اللہ بخش کہتے کہتے رک گیا۔

”کیا ہوا؟کیا تمھارا بچہ بیمار ہے؟یا تم کو خود بخار ہے۔کیا تم چھٹیاں لینے آئے ہو۔“انھوں نے منھ بنا کر اس سے پوچھا۔
”وہ جناب!میری بیٹی کی شادی ہے ۔مجھ کو چھٹیاں بھی چاہیے اور کچھ ایڈوانس رقم کی بھی ضرورت ہے۔آپ بعد میں میری تنخواہ سے کاٹ لیجیے گا۔“وہ رکاپھر بولا:”وہ ․․․․وہ․․․․اصل میں خرچا کافی ہو رہا ہے۔
لڑکے والوں نے زیادہ جہیز کی فرمائش کی ہے تو ․․․․․“وہ پھر رک گیا۔
”اللہ بخش!تم چھٹیاں بھی لے لو اور ایڈوانس تنخواہ بھی لے لو۔اب جاؤ اور مہر بانی کرکے مجھے تنہا چھوڑ دو اور ہاں اب میرے کمرے میں کوئی نہ آئے۔باہر سیکریٹری سے کہہ دینا،اب کسی کو نہ بھیجے۔“وہ بولے۔
کلرک اللہ بخش تیزی سے باہر نکل گیا۔
زرار احمد بیگ شام کو اپنے گھر میں داخل ہوئے تو ان کا خانسا ماں کھانا لگا رہا تھا۔
گھر کا کام خانساماں ہی سنبھالتا تھا۔ان کی بیوی کافی عرصے قبل انتقال کر گئی تھیں۔ان کا ایک بیٹا تھا ۔ابرار احمد بیگ جو یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔
”ابرار آگیا ہے کیا؟“انھوں نے خانسا ماں سے پوچھا۔
”جی،چھوٹے صاحب آگئے ہیں ۔انھوں نے کھانا کھالیا ہے۔اب وہ اپنے دوست کی طرف گئے ہیں۔بس آتے ہی ہوں گے۔“
کھانا کھا کر زرار احمدبیگ اپنے کمرے میں چلے آئے۔
آج ان کا موڈ خاصا خراب تھا۔انھوں نے اپنے دوست مجاہد آفریدی کے نمبر ملائے۔مجاہد آفریدی ان کے ایک بہت گہرے اور پرانے دوست تھے۔وہ
اپنی ہراُلجھن ان سے ضرو رکہتے تھے اور وہ اس کا حل بھی بتاتے تھے۔
”آفریدی !میں سوچ رہا ہوں اپنی فرم ہی بند کر دوں ۔ملازمین ہر وقت چھٹیاں مانگتے رہتے ہیں ۔آخر میں کیا کروں۔ملازمین چھٹیاں کرتے ہیں تو کام کا دباؤ بڑھ جاتاہے۔
میری سمجھ میں تو کوئی حل نہیں آتا ۔آخر میں کروں توکیا کروں؟میں تمام ملازمین کوپوری پوری تنخواہ دیتاہوں بہت کم کسی کی تنخواہ کا ٹتاہوں۔“انھوں نے اپنی دن بھر کی روداد مجاہد آفریدی کو سنانا شروع کی پھر بولے:”بس اب کوئی حل سوچو۔خدارا۔میرے لیے کوئی حل سوچو۔“
”ٹھیک ہے۔میں کل تک تمھیں کوئی حل بتا سکوں گا۔مجھے چوبیس گھنٹے دو۔
سوچ وبچار کے لیے۔“مجاہد آفریدی بولے۔
”چلو ٹھیک ہے۔“
اگلے روز مجاہد آفریدی کا فون آیا۔
”زبردست!میں نے ایک زبردست حل سوچ لیا ہے۔زرار احمد بیگ!تم یہ حل سن کر اَش اَش کر اُٹھو گے۔حیران رہ جاؤ گے کہ میں نے کیا سوچا ہے۔مجاہد آفریدی خوشی سے بولے اور پھر ان کو بتانا شروع کیا۔وہ سنتے جارہے تھے اور خوشی سے جھومتے جارہے تھے۔

اگلے مہینے پندرہ ملازمین کو نوکری سے برطرفی کے خطوط مل گئے۔ان میں اکاؤنٹنٹ عبدالحسیب،خرم فردوسی اور کلرک اللہ بخش بھی شامل تھے۔سب حیران وپریشان تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔نوکری سے برطرف کرنے کی وجہ کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔
اگلے ہی روز آفس میں چند روبوٹ نظر آئے۔یہ باہر سے منگائے گئے تھے ۔ان روبو ٹوں نے آتے ہی آفس کا تمام کام بہترین طریقے سے سنبھال لیا۔
جو کام پانچ آدمی کررہے تھے،ایک روبوٹ اس سے بھی بہت کم وقت میں کررہا تھا۔
”واہ وا،اب یہ مشینیں انسان سے بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کریں گی۔یہ کام وقفے کے بغیر چوبیس گھنٹے ہو گا اور تو اور ان کے ساتھ چھٹیوں کا مسئلہ بھی نہیں ہو گا اور اس طرح فرم کا بہت ساپیسہ بچ جائے گا۔“
زرار احمد بیگ خوشی خوشی ہر ایک سے کہتے پھر رہے تھے:’بھئی واہ!مجاہد آفریدی بھی ہمارا کیسا دوست ہے بہترین مشورے دیتاہے۔
“وہ متعدد بار ان کا شکریہ ادا کر چکے تھے۔
ادارے کا کام بہترین طریقے سے چلنے لگا۔اب اگر کسی کو چھٹی کی ضرورت بھی ہوتی تو وہ مانگتا نہیں تھا کہ کہیں اسے نکال کر روبوٹ کو نہ رکھ لیا جائے۔جو اس سے کئی گنا زیادہ کام کرے گا۔روبوٹ کے کام میں کوئی نقص بھی نہیں ہوتاتھا۔نہ تھکن کا کوئی مسئلہ ۔
کچھ سال گزر گئے۔زرار احمد بیگ کا بیٹا ابرار پڑھنے کے لیے باہر چلا گیا۔
وہ بہت زیادہ تنہائی کا شکار ہو گئے۔دن بھرتو آفس میں ہوتے تھے ،مگر گھر آنے کے بعد وہ بیٹے کو بہت یاد کرتے۔ملازمین بھی کام کرکے اپنے اپنے کوارٹر میں چلے جاتے تھے۔اب زرار صاحب بیمار بھی رہنے لگے تھے۔ان کو بیٹے کی بہت کمی محسوس ہوتی تھی۔پہلے انھوں نے سوچا کہ ابرار کو فون پر ساری صورت حال بتائیں ،مگر پھر انھوں نے اس کو ایک میسج بھیجا۔

”پیارے بیٹے!اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ مجھے خواہش ہوتی ہے کہ کوئی مستقل میرے پاس ہو۔میرا خیال رکھے۔میری باتیں سنے۔مجھے بہت تنہائی محسوس ہوتی ہے۔اُمید ہے تم میری بات سمجھ گئے ہو گے۔“
جلدہی ان کو بیٹے کی طرف سے جواب موصول ہو گیا لکھا تھا:”باباجان!آپ فکر نہ کریں۔ان شاء اللہ جلد ہی آپ کی تنہائی دور ہو جائے گی۔“بیٹے کا جواب پڑھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور بے چینی سے ابرار احمد کا انتظار کرنے لگے۔
ایک ایک دن گزارنا مشکل لگ رہا تھا۔
کچھ دنوں بعد ان کو ایک بڑا،لمبا اور بہت وزنی پارسل ملا۔لکھا تھا:”یہ مستقل آپ کے پاس رہے
گا۔خیال رکھے گا۔آپ کی باتیں سنے گا اور آپ کو تنہائی بالکل محسوس نہ ہوگی۔“
کانپتے ہاتھوں سے انھوں نے پارسل کھولا۔اس میں ایک روبوٹ تھا بولنے اور باتیں کرنے والا روبوٹ ۔دو آنسو ان کی آنکھ سے ٹپکے اور گریبان میں جذب ہو گئے۔

Browse More Moral Stories