Insaniyat Ki Shield - Article No. 2330

Insaniyat Ki Shield

انسانیت کی شیلڈ - تحریر نمبر 2330

ہمدردی کے لئے انسانیت کی ضرورت ہوتی ہے اور دانش ظفر نے ثابت کیا ہے کہ وہ سب سے بہتر انسان ہیں

منگل 16 اگست 2022

عائشہ اطہر
دانی تھکے ہوئے قدموں سے گھر میں داخل ہوا اور بستے کو زور سے بستر پر پٹخا۔امی نے حیرانی سے اسے دیکھا،مگر وہ سلام کیے بغیر کمرے میں گھس گیا۔امی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوئیں اور پوچھا:”کیا ہوا؟“
دانش نے بتایا:”عمران نے پوری جماعت کو اپنے گھر دعوت پر بلایا ہے،مجھے نہیں بلایا۔

”تمہیں کیوں نہیں بلایا؟“امی نے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتا۔کیا دوست بنانے کے لئے امیر ہونا ضروری ہے؟“دانی نے سوال کیا۔
”بالکل بھی نہیں۔“
”تو پھر عمران مجھ سے دوستی کیوں نہیں کرتا؟“
”نہ کرے،جعفر اور عمر بھی تو تمہارے دوست ہیں۔وہ تو پروا نہیں کرتے کہ تم امیر ہو یا غریب۔“امی نے کہا۔

(جاری ہے)


”مگر کلاس کے دوسرے بچے تو کرتے ہیں اور وہ بچے جعفر اور عمر کو اہمیت دیتے ہیں،مگر مجھے نہیں دیتے۔

“دانی کے لہجے میں مایوسی تھی۔
”ایسے لوگوں سے جو دولت اور شان اور شوکت کو ترجیح دیتے ہیں ان سے نا ملنا ہی اچھا ہے۔وہ لوگ جو انسان کو اس کی خوبیوں کی وجہ سے پسند کریں،سب سے بہترین دوست بنتے ہیں۔تمہاری کلاس میں بھی ایسے بچے ہوں گے؟“امی نے پوچھا۔
کچھ دیر رک کر امی نے پھر کہا:”تم ایک اچھے انسان ہو اور یہ سب سے بڑی بات ہے۔
ایک دن سب کی سمجھ میں آ جائے گا کہ انسانیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی۔“امی کا لہجہ پُریقین تھا۔
دانی اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت رکھتا تھا۔پرنسپل صاحب نے صبح بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:”ششماہی امتحانات شروع ہونے میں ایک مہینہ رہ گیا ہے۔آپ کو امتحان کا سلیبس دیا جا رہا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ دل لگا کر تیاری کریں۔“
اویس آج پھر غیر حاضر تھا۔
دانی سوچ میں پڑ گیا۔آخر وہ تین دن سے اسکول کیوں نہیں آ رہا۔اسکول سے واپسی پر وہ اویس کے گھر کی طرف مڑ گیا۔اویس کو یرقان ہو گیا تھا اور ڈاکٹر نے مکمل پرہیز اور دو ہفتے تک آرام کے لئے کہا تھا۔اویس بہت پریشان تھا اور اسکول جانے کے لئے بے چین تھا۔
”میں کیا کروں دانی!میں تو امتحان میں فیل ہو جاؤں گا۔“
دانی سوچ میں پڑ گیا:”ایک ترکیب ہو سکتی ہے۔

”وہ کیا؟“
”میں تمہیں روزانہ کا کام واٹس ایپ کر دوں گا اور ساتھ ہی ہوم ورک بھی۔رات کو آٹھ سے نو بجے تک فون پر تمہیں سمجھا بھی دوں گا۔باقی تم گھر پر دیکھ لینا۔“
اویس کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں:”بہت شکریہ میرے دوست!مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ تم اتنے اچھے انسان ہو۔یہ طریقہ اچھا ہے۔میں اس پر عمل کروں گا۔“
یوں دانی اور اویس کی مشترکہ تیاری شروع ہوئی۔
اس عمل کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ دانی کو بھی ریاضی سمجھ میں آنے لگی۔امتحان ختم ہوئے تو نتیجہ غیر متوقع طور پر دانی کا بہتر رہا۔مجموعی طور پر B گریڈ لینا خود اس کے اپنے لئے بھی باعث اطمینان تھا۔اب وہ اپنا رزلٹ کارڈ سکون سے امی اور ابو کو دکھا سکتا تھا۔جعفر اول آیا تھا۔جب کہ عمر چوتھی پوزیشن پر تھا۔حیران کن طور پر اویس کی دوسری پوزیشن آئی تھی۔
یہ ایک خلافِ توقع نتیجہ تھا۔
پیر کے دن سے نئے سمسٹر کا آغاز ہو گیا۔تمام بچے اسمبلی گراؤنڈ میں جمع تھے اور پرنسپل صاحب کا خطاب سن رہے تھے:”ہمارے ایک اچھے طالب علم اویس حیدر امتحان سے قبل یرقان میں مبتلا ہو گئے تھے اور ڈاکٹر نے انھیں مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔تشویش کی بات یہ تھی کہ دو ہفتے بعد جب یہ بچہ اویس آئے گا تو امتحان کیسے دے پائے گا؟مگر وہ امتحان میں بیٹھا اور دوئم آیا۔
جب ہم نے اس کو مبارک باد دی تو اویس نے اپنی کامیابی کا سہرا اپنے ساتھی کے سر باندھا۔بیماری کے دوران اویس کے تمام دوست اپنی تیاری میں مشغول تھے۔صرف ایک بچہ روز اس کو تمام کام بھی دیتا تھا اور رات میں اس کو پڑھاتا بھی تھا۔پھر اویس کی اپنی محنت بھی تھی،مگر اہم بات یہ ہے کہ دانش ظفر نے یہ سب کام بغیر کسی لالچ کے انسانی ہمدردی میں کیا۔
یہ سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ہمدردی کے لئے انسانیت کی ضرورت ہوتی ہے اور دانش ظفر نے ثابت کیا ہے کہ وہ سب سے بہتر انسان ہیں۔اسکول ان کو اس بے غرض خدمت پر اعزازی شیلڈ پیش کرتا ہے۔میں دانش ظفر سے درخواست کروں گا کہ وہ آئیں اور شیلڈ وصول کریں۔اسمبلی گراؤنڈ تالیوں سے گونج اُٹھا۔سب بچے دانی کی طرف دیکھ رہے تھے۔دانی نے اویس کی طرف دیکھا۔وہ مسکرا رہا تھا۔“

Browse More Moral Stories