Jaib Katra - Article No. 1808

Jaib Katra

جیب کترا - تحریر نمبر 1808

کوئی ظالم بڑی صفائی سے اس کی جیب صاف کر چکا تھا

ہفتہ 26 ستمبر 2020

صفت اللہ ذیشان
”جلدی کیجئے امی!پہلے ہی مجھے کافی دیر ہو چکی ہے ۔اب آپ پوری چائے کی پیالی پلا کر ہی دم لیں گی۔کبھی کبھار تو ہلکا ناشتہ کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔“جاوید نے اپنی ماں کے آگے ہاتھ جوڑے ہوئے کہا۔
امی ہنس پڑیں اور بولیں:”بیٹا!کیا دفتر میں اپنے افسروں کے سامنے بھی اس طرح بولتے ہو؟وہاں تو،سر،اور جی نہیں سر،کے سوا تمہارے منہ سے کچھ نہیں نکلتا ہو گا۔

”امی!وہ دفتر ہے،یہ گھر ہے۔وہاں افسر ہیں اور آپ میری پیاری سی امی جان ہیں۔کافی فرق ہے۔“یہ کہہ کر جاوید نے اپنا لنچ بکس لیا اور سلام کرکے گھر سے باہر نکل آیا۔
آج جمعرات کا دن تھا۔ سڑک پر کافی گہما گہمی تھی۔جاوید جیسے ہی بس اسٹاپ پر پہنچا،سواریوں سے بھری ہوئی ایک بس اسی وقت پہنچ گئی۔

(جاری ہے)

کافی دھکم پیل کے بعد جاوید بس میں سوار ہو گیا۔

سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ بس کا ڈنڈا پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔چند لمحوں بعد کنڈکٹر نے ٹکٹ کے پیسے مانگے تو جاوید نے پرس نکالا اور پیسے دے کر ٹکٹ لے لیا۔
پھر بس جاوید کے اسٹاپ پر رُکی تو جاوید لوگوں کو آگے پیچھے کرتا ہوا نیچے اُتر گیا۔نیچے اُترتے ہی اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔کوئی ظالم بڑی صفائی سے اس کی جیب صاف کر چکا تھا۔
اب اس کو یاد آیا کہ جب اس نے ٹکٹ دینے کے لئے پرس نکالا تھا تو اس کے قریب ہی کھڑے ایک نوجوان کی نظریں اس کے پرس پر تھیں۔ یقینا وہ ایک جیب کترا تھا،مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔
جاوید فٹ پاتھ پر کھڑا اپنے نقصان کا اندازہ کرنے لگا۔ تقریباً چھے سو روپے ،شناختی کارڈ اور اُف،وہ ظالم پرس کے ساتھ چیک بھی لے گیا۔ چیک کا خیال آتے ہی اس کی نگاہوں کے سامنے”رانی “ کی معصوم صورت ابھر آئی اور اس کی پریشانی بڑھ گئی۔

جاوید ایک درد مند نوجوان تھا۔اس نے محلے کے چند اپنے جیسے نوجوانوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی ،جس کا مقصد غریب لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ان نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے کئی غریب خاندان اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے تھے۔ ان غریبوں کی مدد کرنے کے لئے تنظیم کے نوجوان نیک دل اور مال دار حضرات سے چندہ وصول کرتے اور پھر اس چندے سے غریب لڑکیوں کے لئے جہیز وغیرہ خریدتے۔

رانی کے والدین بھی غریب تھے ۔جب رانی کا رشتہ طے ہوا تو ان نوجوانوں کو پتا چل گیا۔انھوں نے فوراً ہی اس غریب بہن کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کر دیا۔اس دن جاوید نے اسی سلسلے میں ایک سیٹھ صاحب سے چندہ لیا تھا،مگر سیٹھ صاحب نے نقد رقم کے بجائے چیک دیا تھا۔ یہ چیک دس ہزار روپے کا تھا۔
آج جاوید کو چیک رانی کے والدین کو پہنچانا تھا، مگر پرس کے ساتھ ،وہ جیب کترا چیک بھی لے اُڑا۔
جاوید کو اپنی رقم سے کہیں زیادہ اس چیک کا غم تھا جو اس جیب کترے کے لئے صرف کاغذ کا ٹکڑا تھا،مگر اس کے نہ ملنے سے رانی کی شادی رک سکتی تھی۔
اسی پریشانی میں دس روز گزر گئے ۔اس دوران جاوید نے اخبار میں اشتہار بھی دیا کہ شاید چیک مل جائے،مگر کچھ نہ ہوا۔رانی کی شادی میں پانچ دن رہ گئے تھے ۔لڑکے والوں کا فرنیچر کا مطالبہ جوں کا توں رہا۔
رانی کے والدین کے ساتھ جاوید کی پریشانی میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
ایک روز جاوید اپنے دفتر میں بیٹھا اس سوچ میں گم تھاکہ چپراسی نے ایک خط اسے لا کر دیا ۔خط پر جاوید کا نام لکھا تھا ۔
جاوید نے لفافہ کھولا تو اُچھل پڑا۔اس میں سے وہی چیک نکلا جس کے لئے جاوید پریشان تھا۔لفافے میں چیک کے علاوہ ایک چھوٹا پرچہ بھی پڑا تھا۔ جاوید نے دھڑکتے دل کے ساتھ پرچہ کھولا اور پڑھنے لگا۔
لکھا تھا:
محترمہ جاوید انور صاحب!السلام علیکم!
میں آپ کا مجرم آپ سے مخاطب ہوں ۔آپ کا پرس میں نے ہی لیا تھا۔مانا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ،مگر میں بہت مجبور تھا۔ مجھے روپوں کی سخت ضرورت تھی ۔دراصل میری بہن ”رانی“ کی شادی ایک اچھے خاندان میں طے ہو گئی ہے ،مگر لڑکے والوں کے مطالبات اتنے زیادہ ہیں کہ مجبوراً مجھے یہ قدم اُٹھانا پڑا۔
اُمید ہے کہ آپ اپنے ایک ضرورت مند بھائی کو معاف کر دیں گے۔
”اور ہاں! آپ کے پرس میں کافی بڑی رقم کا ایک چیک بھی تھا جو میرے کسی کام کا نہ تھا،کیونکہ وہ کر اس چیک تھا اور صرف اسی شخص کے اکاؤنٹ میں جمع ہو سکتا تھا جس کا اس پر نام لکھا ہو ۔لہٰذا وہ چیک آپ کو واپس بھجوا رہا ہوں۔ایک بار پھر آپ سے معافی چاہتا ہوں۔“
ایک بہن کا مجبور بھائی یہ خط پڑھ کر جاوید سوچنے لگا کہ میں نے خود رانی کے لئے یہ چیک حاصل کیا تھا۔ اگر رانی کا بھائی اللہ پر بھروسا کرتا اور کچھ دن اور صبر کرتا تو یہ چیک بھی رانی کے کام آجاتا،مگر اس نے غلط راستہ اختیار کیا ۔خود بھی پریشان ہوا اور مجھے بھی پریشان کیا۔

Browse More Moral Stories