Jazba - Article No. 1424

Jazba

جذبہ - تحریر نمبر 1424

ایمن․․․․منصور،اب اٹھ بھی جاؤ۔بارہ بج چکے ہیں ۔امی زور زور سے آوازیں دے رہی تھیں۔دونوں بہن بھائی گہری نیند سورہے تھے ۔

جمعرات 23 مئی 2019

ایمن․․․․منصور،اب اٹھ بھی جاؤ۔بارہ بج چکے ہیں ۔امی زور زور سے آوازیں دے رہی تھیں۔دونوں بہن بھائی گہری نیند سورہے تھے ۔کیا کروں گا اٹھ کر․․․․کوئی کام ہی نہیں ہے ۔منصور انگڑائی لیتے ہوئے اٹھا۔تم لوگوں کی گرمیوں کی چھٹیاں میرے لئے درد سربن جاتی ہیں․․․اُٹھو ورنہ اب ناشتا نہیں بناؤں گی۔امی نے جب یہ کہا تو ایمن جلدی سے اٹھ بیٹھی۔
امی․․․․آپ جلدی اٹھنے کو کہتی ہیں،لیکن یہ نہیں بتاتیں کہ سارا دن ہم کریں کیا․․․؟کمپیوٹر اور دوستوں کے ساتھ کتنا کھیلیں ۔ایمن بولی۔
ہر سال چھٹیوں پر یہی مسئلہ سامنے آتا تھا ،دونوں بہن بھائی دن بھر کمپیوٹر گیم کھیلتے یا محلے میں دوستوں کے ساتھ کھیل لیتے،پھر گھر آکر امی کو تنگ کرتے۔
آج شام جب ایمن اور منصور نے ایک بار پھر امی کو تنگ کرنا شروع کیا تو امی کو غصہ آگیا۔

(جاری ہے)

دونوں پارک جاؤ․․․․وہاں جا کر کھیلو۔دوسرے بچے بھی توکھیلے ہیں۔کوئی آپ کی طرح اپنی امی کو تنگ نہیں کرتا۔امی کو غصہ ہوتا دیکھ کر دونوں بہن بھائی آہستہ آہستہ باہر کھسک لیے۔دونوں سڑک کے کنارے ٹہلتے ہوئے چلے جارہے تھے۔ایمن بولی:ایسا کرتے ہیں کل ہم دونوں کلفٹن گھومنے چلتے ہیں۔ایمن بولی۔
تمہارا دماغ تو صحیح ہے ۔کلفٹن بہت دورہے۔
وہاں صرف امی ابو کے ساتھ ہی جانا چاہیے۔منصور بولا۔
توٹھیک ہے پھر ایسے بور ہوتے رہیں گے۔ایمن اپنے بھائی سے ناراض ہو کر بولی۔
ایسا کرتے ہیں․․․منصور بولتے بولتے رک گیا۔
بولتے بولتے رک کیوں گئے․․․․․؟ایمن نے منصور کی طرف دیکھا کر پوچھا تو وہ کسی اور جہاں میں گم تھا۔
کیا فٹ پاتھ کو دیکھ رہے ہوبھائی․․․․؟ایمن نے اپنے بھائی سے پوچھا جوفٹ پاتھ کے رُخ پر اپنا چہرہ کئے ہوئے تھا۔

میں فٹ پاتھ کو نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ اس پر رکے بچے کو دیکھ رہا ہوں۔منصور رُکا اور پھر بولا۔ایمن ․․․․! اس بچے کے پاس چلیں۔
اچھا․․․․․میں تو نہیں جاؤں گی۔ایمن نے ناک پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
پلیز میری پیاری سی بہن چلونا۔منصور اس کاہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگا،تو وہ اس طرف چل پڑی۔
آپ کا نام کیا ہے․․․․؟منصور نے فٹ پاتھ پر سوچوں میں گم اپنے ہم عمر لڑکے سے پوچھا تو وہ چونک گیا۔
کیوں ․․․․؟آپ کو کس سے ملنا ہے ․․․․؟لڑکے نے اکھڑے اکھڑے سے لہجے میں پوچھا۔
ہمیں آپ سے ہی ملنا تھا۔ایمن بولی
مجھ سے !کیا کام ہے آپ کو ․․․․؟وہ لڑکا بولا۔میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں ۔منصور بولا تو وہ لڑکا ہی نہیں بلکہ ایمن بھی چونک گئی۔
”مگر میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں ہوں“۔اس لڑکے نے حیرت زدہ ہوتے ہوئے کہا۔

”یہ کون سی مشکل کی بات ہے ۔میں سڑک پار کرکے دو گلیوں بعد والے محلے میں رہتا ہوں۔میرا نام منصور ہے اور یہ میری چھوٹی بہن ایمن ہے۔میں چھٹی جماعت میں ہے ۔اب آپ اپنا نام بتائیں۔منصور سب کچھ ایک سانس میں بول گیا۔
”میرانام جمال ہے اور ․․․․”اتنا کہہ کر جمال رُک گیا۔”آپ کس کلاس میں پڑھتے ہیں ․․․؟“ایمن نے پوچھا۔
”میں بتاتا ہوں ․․․جمال ساتویں جماعت میں پڑھتا ہو گا ۔صحیح کہا یا غلط ؟“منصور نے پوچھا۔
”غلط کہا․․․․میں نے تو آج تک اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھی۔“جمال نے جواب دیا۔
جمال کی بات سن کر دونوں بھائیوں کو سکتہ ساہو گیا۔
”میرے ماں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ابا پہلے کام کرتے تھے مگر فیکٹری میں ان کے ساتھ حادثہ پیش آگیا اور وہ دونوں ٹانگوں سے معذور ہوگئے اس لئے میں پڑھ ہی نہیں پایا۔
میرے بڑے بھائی نے پہلی جماعت ہی پڑھی تھی،لیکن پھرابا کے حادثے کے بعد انہیں میکنک کی دکان پر لگوایا دیا تھا اس لئے وہ بھی آگے نہیں پڑھ سکے۔”جمال نے اپنی بات مکمل کی تو منصور اور ایمن تھوڑی دیرکے لئے خاموش ہوگئے۔
”پھر تو دوستی پکی سمجھیں!“منصور مسکراتے ہوئے بولا۔
”وہ کیوں ؟“جمال نے پوچھا۔
”کیوں کہ اب ہم آپ کوپڑھائیں گے ۔
منصور بولا:
”آپ کی کوئی بہن ہے۔“ایمن نے پوچھا۔
”ہاں ایک چھوٹی بہن ہے ۔“وہ سات سال کی ہے۔“جمال بولا”مگر میرے اماں ابا اجازت نہیں دیں گے۔“
”ہم ابھی چل کر ان سے بات کر لیتے ہیں۔“ایمن بولی۔
ایمن اور منصور ،جمال کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے ابو بستر پر لیٹے تھے اور اس کی اماں روٹیاں پکارہی تھیں۔
”ارے ․․․ارے انکل،آپ آرام کریں ۔“ایمن اور منصور کو دیکھ کر جمال کے والد بستر پر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔
”ابا،یہ منصور اور ایمن ہیں۔میرے نئے دوست۔“جمال نے دونوں بہن بھائیوں کا تعارف کروایا اور پھر پڑھائی والی ساری کہانی سنادی۔
”مگر بیٹا،آپ لوگ کہاں اس چکر میں پڑگئے۔“جمال کے ابابولے۔
”انکل ،جمال ہمارا دوست ہے تو یہ غلط بات ہو گی ناکہ ہم خود تو پڑھیں مگر ہمارا دوست نہ پڑھ سکے۔
“منصور بولا۔
”اس لیے ہم دونوں روزانہ دوپہر سے شام تک جمال اور ننھی کو پڑھایا کریں گے۔“ایمن بولی
”بہت شکر یہ بیٹا․․․․آپ دونوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے میری مدد کے لیے دو فرشتے بھیجے ہیں کیوں کہ ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتی تھی کہ کسی طرح میرے بچے پڑھ لکھ جائیں۔”جمال کی امی کہے جارہی تھیں اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہے جارہے تھے۔

اگلے دن سے دونوں بہن بھائی صبح سویرے اٹھتے ،چھٹیوں کاہوم ورک کرتے ،تھوڑا ساٹی وی دیکھتے،
کمپیوٹر پرگیم کھیلتے اور دوپہر کو جمال کے گھر چلے جاتے اور مغرب کے وقت واپس اپنے گھر میں داخل ہوتے ۔
پہلے تو ان کی امی نے سکون کا سانس لیا کہ دونوں بچے کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں مگر جب وہ دونوں روزانہ اتنے طویل وقت کے لئے جانے لگے تو ان کی امی کو تشویش ہوئی۔
ایک دن دونوں بہن بھائی حسب معمول جمال کے گھر کے لئے نکلے تو ان کی امی نے پوچھا۔
”تم لوگ اتنی دیر تک پارک میں کیا کرتے رہتے ہو؟“
”ہم ․․․․ہم نے پارک میں اسکول کھول لیا ہے۔“یہ کہہ کر دونوں ہنستے ہوئے نکل گئے۔
”ارے․․․․ارے سنوتو سہی۔“ان کی امی دونوں کو آواز ہی دیتی رہ گئیں۔
شام کے وقت جب منصور اور ایمن کے ابو آفس سے آئے تو ان کی امی نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ”پتا نہیں کہاں چلے جاتے ہیں؟میں نے پوچھا تو بات گھما کر نکل گئے۔

”اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟کل آفس سے جلدی آجاؤں گا پھر دیکھ لیں گے کہ یہ دونوں کہاں جاتے ہیں۔”ان کے ابوبولے۔“
اگلے روز منصور اور ایمن اپنے مخصوص وقت پر گھر سے نکلے۔تھوڑی ہی دیر بعد ان کی امی اور ابو گاڑی میں نکلے تاکہ معلوم کرسکیں کہ دونوں بہن بھائی جاتے کہاں ہیں۔
”یہ اُس کی طرف کہاں جارہے ہیں․․․؟“امی نے پریشان ہو کر پوچھا۔

”میرے خدا․․․․یہ تو کسی کچے سے مکان میں گئے ہیں ۔وہاں کیا کرنے گئے ہیں؟چلو چل کر دیکھتے ہیں۔”ان کے ابو بھی پریشان ہو گئے۔منصور اور ایمن کی امی ابوتیزی سے جمال کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ فرش پر چٹائی بچھی ہوئی ہے اور منصور ،جمال کو جب کہ ایمن ،جمال کی بہن کو پڑھا رہی ہے ۔ان کے امی ابو نے دیکھ کر سکون کا سانس لیا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔

”امی،ابو․․․․․آپ!“ایمن کی توجہ اپنے والدین کی طرف مبذول ہوئی تو دونوں بھائی بھائی بہن اپنے امی ابو کے سینے سے لگ گئے۔
آئیے ․․․بیٹھے نا! آپ کے بچے تو فرشتے ہیں فرشتے۔“جمال کے ابو بستر پر بیٹھتے ہوئے بولے تو ایمن اور منصور کے والدین نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔
”آپ نے یہ سب کچھ ہم سے چھپایا کیوں؟“نے منصور سے پوچھا۔

”ابو ہم نے اسکول میں پڑھا تھا کہ نیکی اس طرح کرو کہ دائیں ہاتھ سے کسی کی مدد کروتوبائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے ۔“منصور نے کہا۔
”لیکن اگر آپ کو برالگا ہوتو معاف کر دیں۔“ایمن بولی۔
ہاں بھئی․․․براتولگا ہے ،کیوں کہ آپ نے ہمیں اپنے نئے دوستوں سے ملوایا ہی نہیں۔’امی نے ہنستے ہوئے کہا تو ایمن نے جمال کی پوری فیملی کاتعارف کروایا۔

”جمال بیٹا․․․․اب ہم آپ سے فیس بھی لیں گے۔”منصور کے ابوبولے۔
”مگر انکل منصور اور ایمن نے تو․․․․”جمال کچھ بولنا چاہ رہا تھا مگر منصور کے ابو نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اگر مگر کچھ نہیں․․․․آپ کو فیس تو لازمی دینی ہو گئی۔“یہ بات سن کر جمال کے والدین بھی پریشان ہو گئے۔
”اور آپ کی فیس یہ ہوگی کہ آپ دونوں جوکچھ منصور اور ایمن سے پڑھیں گے ،وہ اپنے محلے کے کم از کم دولڑکوں اور دولڑکیوں کو ضرور پڑھائیں گے۔

منصور کی امی نے جب فیس کی تفصیل بتائی تو جمال کی امی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملانے لگے۔
”ارے آپ روکیوں رہی ہو؟“منصور اور ایمن کی امی نے جمال کی امی کو گلے سے لگالیا۔
”جمال بیٹا․․․تم اور تمھاری بہن جس بچے کو بھی پڑھائیں ،ان سے وعدہ لیں کہ وہ بھی ایسی فیس ضرور لیں گے۔“جمال کی امی بولیں۔
”بالکل ایسا جزبہ ہر کسی کے دل میں ہو اور ایسی فیس ہر کوئی وصول کرے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری قوم کا ہر ایک بچہ پڑھ لکھ کر اپنے والدین اور ملک کا نام روشن کرے گا۔“جمال کے ابو نے کہا تو سب زور سے بولے“ان شاء اللہ ۔

Browse More Moral Stories