Jhoot - Article No. 1667

Jhoot

جھوٹ - تحریر نمبر 1667

”میں تو پہلے ہی منع کر رہا تھا کہ جھوٹ بول کر نہیں جاؤ،مگر تم لوگوں نے میری ایک نہ سنی۔اب گھر والوں سے بھی رابطہ نہیں کر سکتے اور گھر جانے کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے“۔کاشف نے غصے سے اسلم اور آصف سے کہا۔

جمعرات 20 فروری 2020

سیدہ نازاں جبیں
اسلم نویں جماعت کا طالب علم تھا۔وہ ایک خوش اخلاق اور با ادب لڑکا تھا۔پڑھائی میں بھی اچھا تھا لیکن طبیعت میں خاصا لا ابالی پن تھا، اسے گھومنے پھرنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ ہر سال سکول کی چھٹیوں میں وہ گھر والوں کے ساتھ کہیں نہ کہیں سیروتفریح کے لئے جایا کرتا تھا اور اس مرتبہ بھی جانے کے لئے پر جوش تھا۔
اسلم کے اندر ایک بہت بری عادت تھی کہ وہ جھوٹ بہت بولتا تھا۔اس کے والدین اور اساتذہ نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ ”دیکھو بیٹا!جھوٹ بولنا گناہ ہے ۔جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ ہر کسی کے لئے نا قابل اعتبار ہو جاتاہے “۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے اس کو کئی بار نقصان بھی اٹھانا پڑا۔وہ ہر بار اپنے والدین اور استادوں سے وعدہ کرتا کہ آئندہ جھوٹ نہیں بولے گا،مگر اس کا یہ وعدہ ہمیشہ پانی پر لکیرثابت ہوتا۔

(جاری ہے)

موسم گرما کی تعطیلات ہوئیں اور سکول دو ماہ کے لئے بند ہو گئے۔ہمیشہ کی طرح چھٹیوں کا کام ملا تاکہ بچے پڑھائی کی طرف سے غافل نہ ہو جائیں۔ اسلم کو ان ہی دنوں کا شدت سے انتظار تھا،اسی لئے اس نے ایک مہینہ کے اندر تمام کام مکمل کرلیا اور پھر اپنے امی ابو سے فرمائش شروع کردی۔
”ابو!ہم لوگ گھومنے کب جائیں گے؟“اسلم نے اپنے والد سے سوال کیا۔
اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔
”جائیں گے بیٹا!بہت جلد،انشاء اللہ“۔ابو نے مسکرا کر جواب دیا۔
”ارے! اس کا بس چلے تو آج ہی جانے کی ضد شروع کر دے۔“امی نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”بیٹا!ایسی بھی کیا جلدی ہے ؟ابھی تو تمہاری چھٹیاں ختم ہونے میں پورا ایک مہینہ باقی ہے“۔ابو نے اسلم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ابو جی!آپ کو پتا ہے ،مجھے سمندر کی سیر کرنے کا کتنا شوق ہے ۔
میں کبھی نہیں گیا ساحل سمندر پر،اور ماموں بتا رہے تھے کہ جب پانی چڑھے گا تو پابندی لگ جائے گی پھر سمندر میں جانے نہیں دیا جائے گا“۔اسلم نے منہ بسورتے ہوئے جلد بازی کی وجہ بتائی۔
”تو ضروری ہے کہ سمندر کی ہی سیر کی جائے ۔ہم تمہیں کسی پارک لے جائیں گے ،جہاں جھولے ہوں گے وہاں انجوائے کر لینا۔“امی نے اس کا دھیان دوسری طرف لگانا چاہا۔

”نہیں بھئی،مجھے سمندر کی سیر کے لئے ہی جانا ہے ۔سب جاتے ہیں،میری کلاس کے سب بچوں نے ساحل سمندر پر پکنک منائی ہے ۔میرا بھی بہت دل چاہ رہا ہے“۔ اسلم بہ ضد تھا۔
”اچھا بابا!ہم تمہیں لے چلیں گے ساحل سمندر ،انشاء اللہ ۔اب خوش؟“ابو نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس کی بات مان لی۔اسلم خوش ہوگیا اور انتظار کرنے لگا ۔یہ بھی اتفاق تھا کہ امی ،ابو مصروفیات کی وجہ سے پروگرام نہیں بنا پارہے تھے ۔
وہ روزانہ اپنے والدین کے سر پر سوار ہو جاتا اور اسے وہی جواب ملتا۔اسلم مایوس ہونے لگا اور سوچنے لگا کہ اسے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔اس نے اگلے دن ہی اپنے دوستوں آصف اور کاشف سے رابطہ کیا۔آصف اور کاشف دونوں بھائی تھے اور اسلم کے ساتھ سکول میں ہی پڑھتے تھے۔
”یار !کیوں نہ ساحل سمندر کی سیر کو چلیں؟تم دونوں کا کیا خیال ہے ؟“اسلم نے پر جوش لہجے میں آصف اور کاشف سے پوچھا۔

”سمندر !!!ارے واہ․․․․․خیال تو بہت اچھا ہے مگر جا کون رہا ہے جس کے ساتھ ہم جائیں گے ؟“آصف نے خوش ہوتے ہوئے جواباً سوال کیا۔
”ہم تینوں جارہے ہیں ۔میں،تم اور کاشف“۔اسلم نے ایک ترنگ میں جواب دیا۔
”ہیں!!!ہم تینوں ،ایک دوسرے کے ساتھ․․․․․مطلب اکیلے؟؟ہم اکیلے کیسے جا سکتے ہیں یار؟“کاشف نے حیران ہو کر پوچھا۔
آصف بھی دنگ رہ گیا۔
”ارے یار!کچھ نہیں ہوتا۔سب ہی جاتے ہیں ہم کوئی انوکھے تھوڑے ہی ہیں۔پھر ہم تینوں ساتھ ہوں گے تو اکیلا پن کیسا“۔اسلم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”مگر یار!ہمیں گھر سے اجازت نہیں ملے گی اس طرح اکیلے جانے کی“۔ آصف نے حقیقت سے آگاہ کیا۔
”ہاں ․․․․․اسی بات کا تو افسوس ہے کہ نہ تو اجازت ملے گی ،نہ گھر والے کہیں لے کر جائیں گے اور چھٹیاں ختم ہو جائیں گی۔
اسی لئے میں نے سوچا ہے کہ ہم گھر پر کوئی بہانہ بنادیں گے اور پھر چلیں گے۔کیوں؟“اسلم نے قائل کرنے والے انداز میں کہا۔نہیں،نہیں یار!گھر والوں سے جھوٹ بول کر نہیں جائیں گے۔اگر پکڑے گئے یا کہیں پھنس گئے تو بہت پٹائی ہو گی۔“کاشف نے ڈرتے ہوئے کہا۔
”اوہو!تم دونوں کیا ڈرپوک لوگوں کی طرح باتیں کررہے ہو۔اب ہم اتنے بھی بچے نہیں ہیں۔
“اسلم نے کہا۔
”اچھا!چلو ٹھیک ہے․․․․․مگر یہ تو سوچو کہ ہم گھر والوں سے کیا کہیں گے؟“کاشف نے ہار مانتے ہوئے اصل مسئلے کی طرف توجہ دلائی۔
”ہاں یار!گھر پر کیا کہیں گے؟یہ تو سوچا ہی نہیں“۔ آصف نے بھی بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”میں نے سوچ لیا ہے ۔گھر والوں سے کہیں گے کہ ایک ضروری اسائنمنٹ بنانا رہ گیا ہے ۔
تھوڑا مشکل ہے اسی لئے ہم ایک ساتھ مل کر بنا رہے ہیں اور ہمیں پورا دن لگ جائے گا اور یہ اسائنمنٹ ہم تمہارے گھر پر بنائیں گے اور تم لوگ کہنا میرے گھر پر بناؤ گے“۔اسلم پہلے سے ہی سوچ کر بیٹھا تھا کہ کیا بہانہ بنایا جائے۔
”کیا؟ہمارے گھر پر؟؟پاگل ہو گئے ہو کیا!!اگر واپسی پر زیادہ دیر ہو گئی اور ہمارے والدین نے ایک دوسرے کے گھر فون کرکے پوچھ لیا تو؟؟“کاشف نے پریشانی اور حیرت کے عالم میں اسلم اور آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
آصف بھی حیران رہ گیا تھا۔
”کاشف صحیح کہہ رہا ہے اسلم!اگر ہمیں دیر ہوگئی تو ہمارے جھوٹ کا پتا چل جائے گا پھر بہت پٹائی ہو گی یار!!“آصف نے پریشان کن لہجے میں کہا۔
”ارے یار!!ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔میں نے کہا نا کہ ہم جلدی واپس آجائیں گے۔شام ہونے سے پہلے ہی وہاں سے نکل جائیں گے اور شام تک گھر پہنچ جائیں گے ۔اب تم لوگ یہ سب سوچنے کے بجائے ساحل سمندر کے بارے میں سوچو۔
کیا کیا ساتھ لے کر جانا ہے اور کیا تیاری کرنی ہے یہ سوچو۔ایک ہی دن کی تو بات ہے یار․․․․!!“اسلم نے اب کی بارزچ ہو کر کہا۔آخر کار آصف اور کاشف دونوں ہی مان گئے اور پھر تینوں نے اپنے اپنے والدین سے ”اسائنمنٹ“بنانے کی اجازت لے لی جوکہ چند سوال جواب کے بعد انہیں مل گئی اور پھر وہ تینوں جانے کی تیاری کرنے لگے۔سامان زیادہ نہیں تھا اس لئے آسانی سے سکول بیگ میں آگیا اور اگلے ہی دن یہ تینوں صبح سمندر کی سیر کے لئے روانہ ہو گئے ۔
اسلم نے اپنے ابو کا کیمرہ نظر بچا کر اپنے بیگ میں ڈال لیا تھا تاکہ تصویریں بنا سکے۔ساحل سمندر پہنچ کر تینوں بالخصوص اسلم کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔
##”واہ !سمندر دیکھ کر ہی مزہ آگیا۔سوچوابھی اور کتنا مزہ آئے گا“۔اسلم نے خوشی سے اپنے دوستوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”واقعی یار!یہ تو سوچا ہی نہیں تھا۔کیا دل فریب منظر ہے ،خوب صورت اور یہ لہریں !!“آصف بھی سمندر کے منظر میں کھوسا گیا۔

”ارے وہ دیکھو!اونٹ اور گھوڑے․․․․․․بھئی میں ان دونوں کی سواری کروں گا میں نے پہلے بتا دیا ہے“۔کاشف نے بھی پر جوش لہجے میں کہا۔
”ہاں کیوں نہیں!ہم بھی سواری کریں گے اور یہ سامنے جوریسٹورنٹ ہے،کھانا وہاں کھائیں گے“۔ اسلم نے جواب دیا اور پھر اپنے بیگ سے ابو کا کیمرہ نکال کر تصویریں کھینچنے لگا۔ان تینوں نے خوب تصاویر بنائیں اور سارا دن مزے کرتے رہے ۔
دل بھر کر نہائے ،ایک دوسرے کے ساتھ پانی میں خوب کھیلے۔
”یار!اتنا مزہ آرہا ہے کہ واپس جانے کا دل ہی نہیں چاہ رہا“۔یہ کاشف تھا جو آنے کے لئے پہلے راضی ہی نہیں تھا۔
”دیکھ لو!سب سے زیادہ تم ہی مخالفت کررہے تھے اس پروگرام کی۔اگر گھر والوں کے آسرے پر رہتے تو انتظار ہی کرتے رہ جاتے“۔ اسلم نے اتراتے ہوئے کہا۔”صحیح بات ہے !اتنا مزہ گھر والوں کے ساتھ بھی نہیں آتا“۔
آصف بھی اپنی دھن میں مگن تھا۔اس کے بعد انھوں نے اونٹ اور گھوڑے پر سواری کی اور بہت سے گیمز کھیلے ۔پھر بھوک لگنے لگی۔
”یار !بھوک لگ رہی ہے ،چلوچل کر کھانا کھاتے ہیں“۔ اسلم نے کہا اور تینوں سامنے بنے ہوئے شاندار سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے چلے گئے ۔وہاں سمندر میں نہا کر آنے والوں کے لئے باہر تخت بھی لگے ہوئے تھے ،جہاں انھوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا۔
کھانا بہت لذیذ تھا۔تینوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔پھر انھوں نے مل کر اپنی اپنی پاکٹ منی سے بل ادا کیا پھر سمندر کا رخ کیا اور آتی جاتی لہروں سے جی بھر کر لطف اندوز ہوئے۔ کھیل کود اور تفریح میں دن گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور اب شام ہونے لگی۔پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اچانک موسم تبدیل ہو گیا۔آسمان پر بادل چھانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے کالی گھٹا میں بدلنے لگے ۔
تیز ہوائیں چلنے لگیں اور آناً فاناً موسلادھار بارش شروع ہو گئی ۔وہ تینوں اس صورت حال سے بوکھلا گئے۔بارش نے شدت اختیار کر لی تھی اور اس کے ساتھ گرج چمک ان کے دل دہلانے کو کافی تھی۔اب ان تینوں کے اوسان خطا ہو گئے اور انھوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا مگر واپسی کا یہ سفر ان لوگوں کے لئے کتنا دشوار ہو گا،اگر ان کے وہم وگمان میں بھی ہوتا تو وہ شاید کبھی یہ پروگرام نہ بناتے ۔
بارش تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھی ۔تھوڑی ہی دیر میں سارا شہر جل تھل ہو گیا۔گلیوں میں اور سڑکوں پر پانی جمع ہو گیا اور آنے جانے کے راستے بند ہونا شروع ہو گئے۔
”یار!یہ بارش تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے “۔آصف نے پریشان کن لہجے میں کہا۔
”ہاں یار!اور پانی دیکھو کتنا جمع ہو گیا ہے چلنا دشوار ہورہا ہے“۔ اسلم بھی اب بہت پریشان ہو گیا تھا۔
”میرے اللہ!!بجلی بھی چمک رہی ہے ․․․․․مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ہم گھر واپس کیسے جائیں گے اب ؟“کاشف نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا۔وہ تینوں بارش سے بچنے کے لئے ایک درخت کے نیچے جا کھڑے ہوئے۔
”یہاں کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں بارش رکنے کا،پھر کوئی رکشا یا ٹیکسی کرکے واپس جائیں گے۔“اسلم نے تسلی دیتے ہوئے کہہ تو دیا ،مگر انداز سے اس کاد ل بھی دھک دھک کر رہا تھا اور وہ شدید خوف زدہ ہو چکا تھا۔

”پتا نہیں اتنی بارش میں کوئی سواری ملے گی بھی یا نہیں!یا اللہ تو ہماری مدد فرما۔“آصف نے بے بسی سے کہا اور دعا مانگنے لگا۔دعا مانگتے مانگتے آصف نے آسمان کی طرف دیکھنا چاہا مگر جیسے ہی اس نے نگاہیں اٹھائیں تو اس کی نظر ایک گھنے سے درخت پر پڑی اور پھر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔آصف کو سکتے ہیں دیکھ کر کاشف اور اسلم نے جوں ہی اس کی نگاہوں کے تعاقب میں آنکھیں دوڑائیں تو ان کی چیخ نکل گئی ۔
وہ دوآنکھیں تھیں جو انہیں ہی گھور رہی تھیں مگر وہ کون سی بلا تھیں،یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا،کیونکہ اندھیرا ہو گیا تھا اور سوائے آنکھوں کے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ان تینوں پر لرزہ طاری ہو گیا تھا اور خوف کی شدت سے ان کی آوازیں بھی کپکپارہی تھیں۔
”وہ․․․․وہ․․․․او․․․او․․․اوپر․․․․․کک․․․․کیا ہے؟“آصف نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
مگر اسلم اور کاشف کے منہ سے کوئی آواز نہ نکلی ۔مارے خوف کے ان کے بھی ہوش اڑ گئے تھے۔اچانک ہی اس مخلوق نے درخت سے چھلانگ لگا دی اور ان تینوں کی چیخیں نکل گئیں۔وہ سمجھے شاید اس مخلوق نے ان پر حملہ کر دیا ہے اور اب ان کی خیر نہیں۔
”میاؤں!!“وہ ایک کالی بلی تھی،۔اس لئے اندھیرے میں اس کی صرف آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔وہ بلی تھوڑی دیر میں ”میاؤں میاؤں“کرتی ہوئی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔
اس عرصے میں ان تینوں کا اچھا خاصا خون خشک ہو چکا تھا۔کچھ دیر بعد جب ان کے حواس بحال ہوئے تو انھوں نے فوراً ہی سواری تلاش کرنا شروع کر دی ۔آخر ایک ٹیکسی نظر آئی ،لیکن کرایہ زیادہ مانگ رہا تھا۔
”600روپے !!!اتنے پیسے تو ہمارے پاس نہیں ہیں انکل!پلیز آپ پیسے کم کرلیں،ہمیں جلدی گھر جانا ہے ۔پلیز“۔اسلم نے ملتجی لہجے میں کہا۔
”نہیں بیٹا ،پیسے تو کم نہیں ہو سکتے یہ بارش دیکھ رہے ہو،سڑکوں کی حالت خراب ہو چکی ہے گاڑی چلانا ایک مشکل کام ہے ایسے میں۔
ہر جگہ پانی کھڑا ہے“۔ٹیکسی ڈرائیورٹس سے مس نہ ہوا۔
”دیکھیں انکل ،ہم پہلے ہی بہت مشکل سے یہاں تک پہنچے ہیں۔آپ پلیز کرایہ تھوڑا کم کرلیں“کاشف نے منت کرتے ہوئے روہانسی آواز میں کہا۔
”نہیں،ایک روپیہ بھی کم نہیں ہو سکتا۔واپسی پر بھی کوئی سواری نہیں ملے گی۔‘ٹیکسی ڈرائیور نے دو ٹوک جواب دے دیا۔ایک گھنٹہ اسی طرح سواری کی تلاش میں گزر گیا ،مگر کوئی سواری نہ ملی ۔
جو بھی سواری ملتی ڈرائیور اتنی دور جانے سے ہی انکار کر دیتے یا کرایہ بہت زیادہ مانگتے۔ ان تینوں کے پاس اب اتنے پیسے نہیں بچے تھے کہ اتنا زیادہ کرایہ دے سکتے۔اب رات ہو چکی تھی ۔بارش گرج چمک کے ساتھ جاری تھی اور اب اندھیرے نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، کیونکہ لائٹ جا چکی تھی ،پورا شہر تاریکی میں ڈوب چکا تھا۔اب صحیح معنوں میں وہ تینوں پچھتا رہے تھے۔
پریشانی اور خوف کے مارے ان کا برا حال تھا اور وہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے جارہے تھے کہ وہ صحیح سلامت ،خیروعافیت سے گھر پہنچ جائیں۔
”میں تو پہلے ہی منع کر رہا تھا کہ جھوٹ بول کر نہیں جاؤ،مگر تم لوگوں نے میری ایک نہ سنی۔اب گھر والوں سے بھی رابطہ نہیں کر سکتے اور گھر جانے کا بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے“۔
کاشف نے غصے سے اسلم اور آصف سے کہا۔
”کاشف ٹھیک کہہ رہا ہے ۔میں بھی اس پروگرام کے حق میں نہیں تھا،بس تمہاری باتوں میں آگیا۔کاش!میں یہاں نہ آتا“۔آصف نے اسلم کو قصورو ار ٹھہراتے ہوئے افسوس کیا۔
”واقعی یار!تم دونوں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔اب مجھے بھی بہت ڈر لگ رہا ہے ۔بس کسی طرح ہم خیریت سے گھر پہنچ جائیں“۔
اسلم شرمندہ تھا اور پچھتا رہا تھا۔
”خیریت سے گھر پہنچے کے بعد بھی خیریت نہیں ہو گی!کیونکہ اب تک تو ہمارے والدین شاید ہمیں تلاش کرنے نکل پڑے ہوں گے۔“ کاشف نے کہا۔ادھر بچوں کے گھر والوں کا بھی فکر سے برا حال تھا،کیونکہ وہ ایک دوسرے کے گھر فون کرکے پوچھ چکے تھے۔ان کے بچے کہیں نہیں تھے۔ انھوں نے تھوڑی دیر مزید انتظار کیا پھر اسلم،کاشف اور آصف کے والد انہیں ڈوھنڈنے کے لئے گھر سے نکل گئے اور ان کی والدہ جائے نماز بچھا کر اللہ کے حضور دعائیں مانگنے لگیں۔

”سنیے !جب بچے مل جائیں تو انہیں ڈانٹیے گا نہیں،آرام سے گھر لے آئیے گا“۔ یہ آصف اور کاشف کی والدہ تھیں جو اپنے شوہر سے نرمی کی درخواست کررہی تھیں۔مگر ان کے شوہر نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”آج تو اس کی خیر نہیں!یہ مل جائے ذرا تو اس کی ٹانگیں توڑدوں گا!!!“۔اسلم کے والد کا غصے سے برا حال تھا ،کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی جھوٹ بولنے کی عادت سے خوب واقف تھے۔

اسلم کی والدہ خوف اور پریشانی کے عالم میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھیں۔وہ جانتی تھی کہ اس وقت اپنے شوہر سے کچھ کہنا بے سود ہے!
”آخر یہ لوگ کہاں جا سکتے ہیں؟“اپنے بچوں کے تمام دوستوں کے گھر جا کر معلوم کرنے کے بعد آصف اور کاشف کے والد نے مایوسی سے اسلم کے والد سے پوچھا۔
”یہی میں بھی سوچ رہا ہوں“۔اسلم کے والد نے ٹارچ گھماتے ہوئے پریشانی کے عالم میں جواب دیا۔
”کہیں خدا نخواستہ انہیں کسی نے ․․․ “ کاشف کے والد نے ڈرتے ڈرتے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
”نہیں،نہیں !اللہ نہ کرے․․․․․ایسا کچھ نہیں ہوا ہو گا،مجھے یقین ہے “۔اسلم کے والد نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ یہ کہہ کر وہ بھی اندر سے لرز گئے تھے۔پھر اچانک ایک خیال بجلی کی طرح ان کے دماغ میں کوندا اور ان کا دل کہنے لگا کہ بچے وہیں ہوں ۔

”چلیں میرے ساتھ!مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں ہوں گے“۔ انہوں نے آصف کے والد سے کہا۔
”کہاں ؟بتائیے؟؟“آصف کے والد نے بے چینی سے پوچھا۔
”ساحل سمندر۔“اسلم کے والد نے جواب دیا۔
”ساحل سمندر؟۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟“آصف کے والد نے سوال کیا۔
”کیونکہ اسلم کو سمندر کی سیر کا بہت شوق ہے ۔وہ کافی دنوں سے ہم سے ضد کر رہا تھا کہ اسے لے کر چلیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ وہیں گئے ہوں گے“۔اسلم کے والد نے وجہ بتائی۔
”چلیں پھر جلدی کریں۔“آصف اور کاشت کے والد کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پر لگا کر اڑتے ہوئے پہنچ جائیں ۔یہی حال اسلم کے والدکا بھی تھا۔ساحل سمندر کی طرف جاتے ہوئے انہیں بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ہر جگہ پانی کھڑا تھا،اس لئے ان کی گاڑی بار بار بند ہورہی تھی اور اندھیرے کی وجہ سے گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں صاف دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا۔
رات کا وقت ،سمندر کا کنارا ،تیز بارش اور اندھیرے میں ان کا ملنا آسان بھی نہیں تھا۔ان کے والد کے دل دکھ سے بھر گئے تھے اور آخر وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں سر جھکائے بوجھل قدموں سے واپس گھر کی طرف چل دئیے۔
”لگتاہے اب پولیس کی مدد لینی پڑے گی“۔ اسلم کے والد نے بے چارگی سے کہا،جب کہ آصف، کاشف کے والد تو سکتے کی کیفیت میں تھے ۔
دونوں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ان کی ماؤں کو کسی پل قرار نہیں آرہا تھا اور وہ بے چینی سے بار بار پہلو بدل رہی تھیں اور اپنے شوہروں سے مطالبہ کر رہی تھیں کہ ان کے بچوں کو کسی طرح،کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لائیں۔ادھر وہ تینوں ڈرتے ڈرتے چلے جا رہے تھے کہ شاید کوئی گاڑی مل جائے اور وہ گھر پہنچ سکیں کہ تیز ہیڈ لائٹس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
ایک گاڑی ان کے قریب آکر رکی۔ایک لمحے کے لئے ان کے دل اُچھل کر حلق میں آگئے کہ کہیں کوئی انہیں اغواء تو نہیں کر رہا؟ پھر گاڑی سے مخصوص یونیفارم پہنے کچھ لوگ اتر کر ان کے پاس آئے اور کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں وہ ایدھی کے رضا کارہیں۔یہ سن کر ان کی جان میں جان آئی۔پھر ایدھی کے رضاکاروں نے ان سے پوچھا،”بیٹا !اتنی رات کو اس بارش میں آپ لوگ کہاں جارہے ہیں؟اور اس قدر گھبرائے ہوئے کیوں ہیں، سب خیریت تو ہے ؟؟“تب انھوں نے روتے روتے سارا ماجرا کہہ سنایا۔

پھر ایدھی کے رضا کار انھیں گاڑی میں بیٹھا کر ایدھی سینٹر لے گئے ۔وہاں جا کر ان سے ان کے گھر کا فون نمبر پوچھا اور ان کے گھروں پر فون کرکے اطلاع دی کہ ان کے بچے یہاں ایدھی سینٹر میں موجود ہیں اور خیریت سے ہیں،وہ صبح آکر انھیں لے جائیں۔رات کے وقت تیز بارش میں یہ ناممکن تھا کہ وہ بچوں کو لینے آپاتے۔سڑکیں کسی دریا کا منظر پیش کررہی تھیں۔
ان کے والدین کو اس فون سے کچھ تسلی ہو گئی۔وہ رات ان تینوں ے ایدھی سینٹر میں کانٹوں پر لوٹتے ہوئے گزاری اور یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر ایدھی کے رضا کار فرشتہ بن کر نہ پہنچتے تو ان کا کیاحال ہو تا اور وہ لوگ گھر کس طرح جاتے۔صبح ہوتے ہی ان کے والدین انہیں لینے پہنچ گئے اور بچے اپنے اپنے گھر پہنچ گئے۔ان تینوں کے والدین نے انھیں ڈانٹنے اور مارنے کا ارادہ ترک کر دیا،کیونکہ ان کے خیال سے ان کے کیے کی سزا انہیں اچھی خاصی مل گئی تھی ۔وہ اپنے بچوں سے کچھ دن ناراض رہے ،مگر یہ ناراضگی زیادہ دن نہیں رہ سکی،کیونکہ ان تینوں کو سبق مل گیا تھا اور انھوں نے سچے دل سے توبہ کرلی تھی اور اپنے والدین سے معافی مانگ کر آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولنے کا عہد کر لیا تھا۔

Browse More Moral Stories