Jhoot Ke Paon - Article No. 2097

Jhoot Ke Paon

جھوٹ کے پاؤں - تحریر نمبر 2097

اس کے جھوٹ بولنے کے پیچھے کیا راز چھپا تھا

منگل 26 اکتوبر 2021

عشرت جہاں
زوبیہ،مومنہ،سارا اور مریم ایک ساتھ سکول پہنچی تھیں۔ابھی کلاس روم میں کھڑی وہ ایک دوسرے کی خیریت دریافت کر رہی تھیں کہ صائمہ بھی پہنچ گئی۔اس کے انداز میں تیزی نمایاں تھی۔
”مس سلمیٰ میرے ساتھ ہی گیٹ سے اندر داخل ہوئیں ہیں۔“
”مس سلمیٰ؟“زوبیہ چونکی،لیکن مس نے تو کہا تھا کہ وہ دو دن تک سکول نہیں آئیں گی۔

”شاید انھوں نے ہمیں آزمانے کے لئے کہا ہو،انھوں نے مجھے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ وہ ٹیسٹ لیں گی۔“
”ٹیسٹ!“ سارہ گڑبڑائی،میں نے تو تیاری ہی نہیں کی یہی سوچ کر کہ مس چھٹی پر ہیں دو دن میں آرام سے تیاری ہو جائے گی۔“زوبیہ بیگ سے کتاب نکالنے لگی۔
مس سلمیٰ ان کی فزکس ٹیچر تھیں اور پڑھائی کے معاملے میں وہ کسی رعایت کی قائل نہ تھیں۔

(جاری ہے)

مومنہ،مریم اُلجھن کا شکار تھیں۔مریم نے سارہ سے پوچھا:”سارہ!آج مس سلمیٰ آئی ہیں؟“
سارہ اور مس سلمیٰ ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور کبھی اِکٹھے بھی آ جایا کرتی تھیں۔
”آج میرے ساتھ تو نہیں آئیں۔“سارہ نے جواب دیا۔
”تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔“صائمہ غصے سے بولی۔
”بحث میں کچھ نہیں رکھا ہے۔اگلا پیریڈ فزکس کا ہے اس سے پہلے کچھ تو پڑھ لیں۔
“مومنہ کہتی ہوئی کتاب لے کر بیٹھ گئی۔دوسرے پیریڈ میں مس عائشہ ایکسٹرا پیریڈ لے رہی تھیں۔پڑھائی کے ساتھ انھوں نے لطیفوں اور چٹکلوں سے اس قدر مصروف رکھا کہ وہ ساری کوفت بھول گئیں۔
پیریڈ ختم ہونے کے بعد انھوں نے صائمہ کی طرف دیکھا:”تم تو کہہ رہی تھی کہ مس سلمیٰ سکول آئی ہیں اور انھیں ٹیسٹ بھی لینا ہے۔“زوبیہ نے پوچھا۔
”میں غلط تو نہیں کہہ رہی تھی ہو سکتا ہے واپس چلی گئی ہو۔
“صائمہ نے جواب دے کر سب کو لا جواب کر دیا۔صائمہ ان کے گروپ میں نئی تھی بعض اوقات اس کا رویہ انھیں حیران کر دیتا۔
دوسرے ہفتے میں ایک دن صائمہ کو ذرا دیر ہو گئی۔اس لئے اسے پچھلی بینچ پر بیٹھنا پڑا۔پیریڈ ختم ہونے کے بعد سب اپنی اپنی کتابیں سمیٹنے لگیں۔صائمہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کر ان کے پاس آ بیٹھی۔
”آج دیر کیوں ہو گئی تھی تاخیر سے آئی ہو۔
“مومنہ نے پوچھا۔
”آج اُٹھنے میں دیر ہوئی رات کے واقعے کے بعد سونے میں وقت لگا۔“صائمہ بولی۔
”رات کا واقعہ؟کیا ہوا تھا؟“زوبیہ نے سوال کیا۔
”ارے تمہیں نہیں پتا؟اس قدر شدید زلزلہ تھا،خوف کے مارے ٹھیک طرح سے نیند نہ آئی۔ساری رات سونے کی کوشش میں گزر گئی۔“
”زلزلہ․․․رات زلزلہ آیا تھا․․․․کب؟سب ایک دوسرے کو سوالیہ نگاہوں سے تکنے لگیں۔

”تم لوگوں کو کچھ خبر ہی نہیں۔“صائمہ حیرت سے بولی:”بہت شدت کا زلزلہ تھا دروازے،دیواریں ہر چیز ہل رہی تھی۔“
”ہمیں تو محسوس نہیں ہوا۔“مریم بولی:”گھر میں ذکر تو ہوتا۔“
”تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔“صائمہ کو غصہ آگیا:”نہ مانو،وہ منہ پھُلا کر بیٹھ گئی۔
”ہو سکتا ہے ہم لوگ گہری نیند میں ہوں،اس لئے پتا نہ چلا۔
“سارہ نے کہا۔سب لڑکیاں خاموش ہو گئیں۔
مریم کو مطالعہ کا بہت شوق تھا۔اس کے گھر میں اخبار اور رسائل باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔اس دن وہ ایک رسالہ لے کر آئی تھی جس میں بچوں کے لئے ایک کہانی شائع ہوئی تھی،جس پر صائمہ کا نام شائع ہوا تھا۔شہر کا نام بھی وہی تھا۔وقفے کے دوران وہ سب برآمدے میں بیٹھی ہوئی تھیں اور صائمہ کو مبارک باد دے رہی تھیں۔

”تم نے بتایا ہی نہیں کہ تم کہانیاں بھی لکھتی ہو۔“مریم جوش سے بولی۔ان سب کے لئے یہ ایک نیا انکشاف تھا۔
”بس کبھی کبھار لکھ لیتی ہوں۔“وہ انکساری سے بولی:”اس کے ہاتھ میں وہ رسالہ تھا جس میں اس کے نام سے کہانی شائع ہوئی تھی۔دو تین بار وہ کہانی پڑھ چکی تھی۔
”یہ کہانی میں نے کئی دن پہلے لکھی تھی۔“لڑکیاں صائمہ سے مرعوب ہو رہی تھیں۔

”ہمیں بھی طریقہ بتاؤ ناں کہانی کس طرح لکھتے ہیں۔“زوبیہ بولی۔
”شائع کس طرح ہوتی ہے۔“سارہ نے بھی سوال کیا۔
”اچھا بتاؤ اب کون سی کہانی لکھ رہی ہو۔“مریم نے پوچھا۔
”جھوٹ کے پاؤں“اور اس کے لئے میں جھوٹ بولنے کی مشق کر رہی ہوں۔“صائمہ نے جواب دیتے ہوئے رسالہ بند کر دیا۔

Browse More Moral Stories