Jugnu Ka Mithu - Aakhri Hissa - Article No. 2405

Jugnu Ka Mithu - Aakhri Hissa

جگنو کا مٹھو (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2405

پروفیسر صاحب میرا تو مشورہ ہے کہ آپ ایسے بہت سے مٹھو رکھیے اور ہر طالب علم کو ایک ایک بانٹ دیں،ایسا طوطا تو ہر گھر میں ہونا چاہیے

بدھ 30 نومبر 2022

تسنیم جعفری
”بتاؤ مٹھو وہ جو سامنے درخت پر بیٹھا ہے وہ کبوتر ہے نا․․․․؟“جگنو نے مٹھو کی حمایت چاہی۔
”نہیں مٹھو وہ فاختہ ہے نا․․․؟“شمع جلدی سے بولی۔
یوں تو چھوٹی ہے بات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
”کیا کہا بدتمیز․․․․تم نے مجھے بکری کہا․․․․؟“شمع غصے سے بولی اور جگنو ہنس ہنس کر دوہرا ہو گیا۔

”کیا تم بھی عورت ذات کو کمتر سمجھتے ہو مٹھو․․․․؟“امی نے پوچھا جو ان کی بحث سن کر وہاں آ گئی تھیں۔
میں بھی مظلومی،نسواں سے ہوں غم ناک
نہیں ممکن مگر اس عقدہ مشکل کی کشو
”تمہاری نظر میں بھی اس کا حل نہیں ہے کیا․․․․؟“امی نے پھر پوچھا۔
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں،معذور ہیں مردانِ خرد مند
”اچھا تو تم خود کو مرد سمجھتے ہو․․․وہ بھی خرد مند․․․؟“شمع نے حقارت سے مٹھو کو دیکھا۔

(جاری ہے)


”میں نے نہیں․․․․․یہ شعر تو اقبال نے کہا ہے!“مٹھو نے خود کو بچایا۔
”امی اس سے پوچھیں اس نے مجھے بکری کیوں کہا․․․․؟“شمع اسی بات پر اڑی ہوئی تھی۔
”میرا خیال تم نے جو یہ مغربی لباس پہن رکھا ہے یہ بُرا لگا ہے مٹھو کو․․․!“جگنو نے بات بنائی۔
”بھئی مجھے جو لباس پسند آیا وہ میں نے خرید لیا اور پہن لیا․․․جا کر دکانداروں کو منع کرو کہ وہ ایسے مغربی لباس کیوں سجا کر رکھتے ہیں۔
“شمع نے صفائی پیش کی۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
یہ سن کر شمع کا غصہ دو آتشہ ہو گیا،”اس جاہل طوطے سے بحث بے کار ہے،چلیں امی ہم اُدھر گھوم کر آئے․․․!“شمع اُٹھ کھڑی ہوئی اور وہ دونوں اُدھر کو چل پڑیں،آپا نے موقع غنیمت جان کر اپنی کتاب کھول لی اور پڑھنے لگیں۔جگنو پارک کا چکر لگا کر آیا تو دیکھا مٹھو خاموش بیٹھا ہے۔

”مٹھو اداس کیوں بیٹھے ہو․․․․کون یاد آ رہا ہے؟“جگنو اس کے پاس بیٹھ گیا۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا
”اچھا تو اپنے گھر کے لئے اداس ہو رہے ہو․․․․!“جگنو بھی افسردگی سے بولا۔
”آپا․․․․․او آپا ہم مٹھو کو آزاد نہ کر دیں،اسے اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے!“
”اوہو․․․․!بے وقوف ایسا غضب نہ کرنا،اسے اپنے گھر کا کیا پتہ۔
اسے تو کسی نے انڈے سے نکلتے ہی پروفیسر صاحب کو دے دیا تھا،انہوں نے اسے بچوں کی طرح پالا ہے،دوسرے پرندوں کو دیکھ کر ویسے ہی ڈرامہ کر رہا ہے،اور اب تو اسے اُڑنا بھی نہیں آئے گا باہر نکالا تو مر جائے گا،بلی کے ہتھے چڑھ جائے گا یا کوے مار دیں گے۔“
”ہاں!اس کے اوٹ پٹانگ شعر سن کر تو ضرور ہی مار دیں گے۔“شمع نے بھی طنز کیا۔
”اچھا بھئی!بہت گھوم لیا،بس اب چلنے کی تیاری کرو۔
“ابو بولے۔
”ہاں ویسے بھی اب گرمی بڑھ رہی ہے۔“امی بولیں تو سب اپنی اپنی چیزیں سمیٹنے لگے ”پروفیسر صاحب آئے ہیں․․․!“نوکر نے آ کر بتایا تو جگنو اُچھل کر کھڑا ہو گیا۔”ہیں․․․!ایک ماہ اتنی جلدی گزر گیا․․․پندرہ دن میں ہی․․․․؟“
”نہیں بھئی ابھی پندرہ دن ہی ہوئے ہیں،لیکن میرا سیمینار جلدی ختم ہو گیا تھا اس لئے میں جلدی آ گیا۔
“پروفیسر صاحب ہنستے ہوئے بولے۔
”السلام علیکم سر کیسے ہیں آپ․․․؟“جگنو نے جلدی سے آگے بڑھ کر پروفیسر صاحب سے ہاتھ ملا۔یا
”میں بالکل خیریت سے ہوں،یہ بتاؤ میرا مٹھو کیسا ہے․․․؟“
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
”ارے․․․․میرا مٹھو بیٹا مجھ سے ناراض ہے کیا․․․․؟“ایک کونے سے مٹھو کی آواز آئی تو پروفیسر صاحب اُٹھ کر وہاں چلے گئے ”لیکن یہ تو میر تقی میر کا شعر تھا․․․․؟“ جگنو حیرت سے بولا۔

”ہاں اسے تمام شعرا کا کلام یاد ہے لیکن عام طور پر اقبال کو ہی پسند کرتا ہے اور انہیں کے شعر پڑھتا ہے۔“پروفیسر صاحب بولے۔
”کمال ہے․․․اسے تمام شعرا کا کلام یاد ہے․․․ہمیں تو صرف اقبال کے اشعار سن کر حیرت ہوتی تھی․․․!“
”اچھا تو اب میں اسے لے جاؤں․․․؟“ پروفیسر صاحب نے پوچھا۔
”جی ہاں آپ کی چیز ہے شوق سے لے جائیے۔
“جگنو بولا،”ویسے پروفیسر صاحب میرا تو مشورہ ہے کہ آپ ایسے بہت سے مٹھو رکھیے اور ہر طالب علم کو ایک ایک بانٹ دیں،ایسا طوطا تو ہر گھر میں ہونا چاہیے۔مجھے تو بہت شرمندگی ہے کہ جن شعرا کا کلام ہم طالب علموں کو ازبر ہونا چاہیے وہ ایک طوطے کو یاد ہے،آپا ٹھیک ہم سے ناراض ہوتی ہیں․․․․!“
”ہاں بیٹا!ہم اقبال جیسے عظیم شعرا اور ان کے کلام کو بھول گئے ہیں اسی لئے ہم اپنی مذہبی اور سماجی اقدار کو بھی بھول گئے ہیں اور مغرب کے دلدادہ ہو گئے ہیں․․․․!آپ جیسے بچے خوش قسمت ہیں جو صحیح وقت پر اپنی غلطی کو محسوس کر لیں اور اس سے جان چھڑا لیں۔
اچھا وعدہ کرو کہ تم مٹھو سے کلام اقبال یاد کر لو گے تو میں اسے تمہارے پاس چھوڑ جاؤں گا۔“
”ہیں پروفیسر صاحب․․․․آپ واقعی بہت اچھے ہیں،آپ نے تو میرے منہ کی بات چھین لی،کیوں مٹھو سکھاؤ گے مجھے کلام اقبال․․․․؟“جگنو مٹھو کے پنجرے کے پاس جا کر خوشی سے بولا۔
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پردے
خدایا میری آرزو یہی ہے
میرا نورِ نصیرت عام کر دے
”آج سے میں جگنو کا مٹھو ہوں․․․․!“مٹھو بولا تو سب لوگ ہنسنے لگے۔

Browse More Moral Stories