Jugnu Ka Mithu - Pehla Hissa - Article No. 2384

Jugnu Ka Mithu - Pehla Hissa

جگنو کا مٹھو (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2384

جگنو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا اتنا تو کوئی پروفیسر بھی نہیں بول سکتا،اس نے تو آتے ہی میرا سکون برباد کر دیا ہے

منگل 1 نومبر 2022

تسنیم جعفری
”ارے یہ طوطا کہاں سے آیا․․․․؟“ جگنو اور شمع کی سکول سے آتے ہی دروازے کے اندر رکھے پنجرے پر نظر پڑی تو وہ خوشی اور حیرت سے چیخ کر ”پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں“ صرف طوطا نہیں ہوں میں․․․!“
”یہ آواز کہاں سے آئی․․․․؟کیا یہ طوطا بولا تھا․․․․؟“ شمع نے پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا ”لیکن یہ شعر تو اقبال نے شاہین کے لئے کہا تھا․․․․طوطے کے لئے تو نہیں کہا تھا․․․!“
جگنو بولا ”اسے کہتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو بننا․․․․!“ شمع بولی،پھر دونوں بھاگے بھاگے باورچی خانے میں گئے جہاں امی کھانا بنا رہی تھیں۔

”امی وہ طوطا کون لایا ہے․․․؟“ دونوں نے ایک زبان ہو کر پوچھا ”وہ تمہاری شاہین آپی لائی ہیں․․․․!ان کے اردو کے پروفیسر ایک ماہ کے لئے ملک سے باہر گئے ہیں،کسی سیمینار میں شرکت کے لئے،تو ان کی نظر میں شاہین ہی بہترین شخص تھی جو اس فلاسفر طوطے کی نگرانی کر سکتی تھی۔

(جاری ہے)


امی بولیں ”چلو․․․․یک نہ شُد دو شُد!“
جگنو بولا،”پہلے کیا شاہین کم تھیں فلسفہ جھاڑنے کے لئے جو اب یہ بولنے والا طوطا بھی ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے․․․․!“
”بس ایک ماہ کی تو بات ہے․․․․پھر یہاں سے واپس “ ”مگر امی․․․․اس طوطے کو تو اقبال کے اشعار بھی یاد ہیں․․․یہ بڑی حیرت کی بات ہے!“شمع بولی ”بیٹا آپ لوگوں کے لئے یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ آپ لوگوں کو اردو سے دلچسپی نہیں ہے،لیکن یہ طوطا تو بچپن سے ہی پروفیسر صاحب کے پاس ہے انہوں نے اقبالیات میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے،انہیں خود بھی اقبال کا پورا کلام زبانی یاد ہے،اور جیسے جیسے وہ اشعار پڑھا کرتے تھے تو اس مٹھو کو بھی وہ شعر یاد ہوتے گئے․․․․!“
”اوہ․․․․․بہت تھک گیا!“ جگنو لاؤنج میں آیا،بیگ ایک طرف پھینکا اور جوتوں سمیت صوفے پر گر گیا،پھر وہیں سے بولا،”شمع جلدی سے اے سی چلا دو گرمی سے برا حال ہو رہا ہے۔


”رہنے دو بھائی․․․․اب ایسی بھی گرمی نہیں ہے،آج تو موسم اچھا ہے۔“ شمع بے زاری سے بولی ”چلاتی ہو یا․․․!“ جگنو نے کشن اُٹھا کر ہوا میں لہرایا جیسے اس کو دے مارے گا ”خود کیوں نہیں چلا لیتے․․․․مجھ پر ہی رعب ڈالتے رہتے ہو ہر وقت جاؤ نہیں چلاتی بدتمیز کہیں کے!“ شمع بھی ایک کشن لے کر قالین پر دراز ہو گئی ”اچھا بہن معاف کر دو،آئندہ بدتمیزی نہیں کروں گا۔
دیکھو اب تو معافی مانگ لی ہے نا اب تو چلا دو اے سی ورنہ میں گرمی سے مر جاؤں گا،تم اے سی کے قریب بیٹھی ہو اس لئے تم سے کہا۔“ جگنو نے دیکھا کہ رعب سے کام نہیں چل رہا تو التجا شروع کر دی۔”ارے بھئی یہ کس بات پر بحث ہو رہی ہے․․․․؟تم دونوں تو لگتا ہے پیدا ہی جھگڑے کرنے کے لئے ہوئے ہو!“ دادی جان اپنے کمرے سے تسبیح پڑھتی ہوئی نکلیں،وہ ظہر کی نماز ادا کر رہی تھیں اور اب ان کی بحث سن کر باہر آگئی تھیں۔

”السلام علیکم دادی جان!دیکھیں نا میں اتنا تھکا ہوا ہوں اور شمع کو میرا ذرا خیال نہیں ہے!“ جگنو ذرا اور صوفے میں دھنستے ہوئے خفگی سے بولا ”تیرے صوفے ہیں افرنگی،تیرے قالین ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی “ ہیں ں ں ں․․․․!ان تینوں نے حیرت سے مٹھو کو دیکھا ”دادی جان!پہلے آپا کیا کم تھیں ہم پر تنقید کرنے کے لئے جو اب اس مٹھو کو بھی لے آئیں ہیں․․․یا اللہ ایک ماہ کیسے گزرے گا؟“ جگنو بے چارگی سے بولا ”چلو بیٹا اُٹھو!جاؤ جا کر پہلے یونیفارم بدلو،ہاتھ منہ دھوؤ پھر یہاں آنا۔
“ دادی جان بولیں۔
”نہیں دادی جان․․․ابھی میرا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہ رہا،پہلے کھانا کھاؤں گا پھر سوچوں گا،آپ شمع کو کہیں اے سی چلائیں اور ٹی وی کا ریموٹ مجھے اُٹھا کر دے۔“ جگنو نے پھر آڈر جاری کیا تو مٹھو بھی بولے بنا نہ رہ سکا ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ”دادی جان میں اسے جان سے مار دونگا۔
“ جگنو نے کشن اُٹھا کر مٹھو کے پنجرے پر دے مارا،اس اچانک حملے پر مٹھو کی جان ہی نکل گئی۔
”ارے ارے․․․․یہ کیا ہو رہا ہے؟مارو گے بے زبان کو؟“ آپا غصے سے بولیں جنہوں نے اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے سب دیکھ لیا تھا ”اُف․․․․!اللہ میری توبہ یہ بے زبان ہے؟“ جگنو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوا بولا،”اتنا تو کوئی پروفیسر بھی نہیں بول سکتا،اس نے تو آتے ہی میرا سکون برباد کر دیا ہے۔دیکھنا میں اسے گھر سے نکال کر ہی رہوں گا۔“ جگنو غصے سے پیر پٹختا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories