Jugnu Ki Dastak - Aakhri Hissa - Article No. 2094

Jugnu Ki Dastak - Aakhri Hissa

جگنو کی دستک (آخری حصہ) - تحریر نمبر 2094

جگنو نے اپنی مختصر سی روشنی سے اپنے حصے کی روشنی بانٹ کر دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کر دی

جمعہ 22 اکتوبر 2021

ریاض احمد جسٹس
”مگر ابو جان خدا نے اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی۔نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا“ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگنو کی عمر بھی بڑھ گئی تھی مگر ابھی تک اس نے اپنے آبائی پیشے کو ترک نہیں کیا تھا۔مگر اس کے ساتھ اس نے تعلیم بھی جاری رکھی ہوتی تھی اور پرائمری کلاس پاس کر چکا تھا․․․․ایک دن جگنو کسی فیکٹری کے قریب سے گزر رہا تھا کہ فیکٹری کے مالک نے اسے دیکھ کر کہا اے لڑکے ہماری فیکٹری میں بھی کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
اگر تم فیکٹری سے کوڑا اُٹھا کر دوسری جگہ منتقل کر دو تو میں تمہیں اس کام کا معاوضہ دوں گا۔“جگنو نے فیکٹری مالک کی بات سن کر کوڑا اُٹھانے کی حامی بھر لی۔جگنو کو فیکٹری سے کوڑا دوسری جگہ منتقل کرتے ہوئے تین دن گزر چکے تھے مگر ابھی کچھ کام باقی تھا۔

(جاری ہے)

جگنو نے شام ہونے تک فیکٹری کا تمام کوڑا دوسری جگہ منتقل کر دیا جب اس نے کام ختم ہونے کے بعد فیکٹری کے مالک کو بتایا تو وہ کہنے لگا ”بیٹا تم نے بہت ایمانداری سے کام کیا ہے دل تمہارے کیے ہوئے کام کو دیکھ کر خوش ہو گیا ہے مگر بیٹا میرا دوسرا گودام بے کار ٹائروں سے بھرا پڑا ہے۔

بلاوجہ کے ٹائروں سے گودام بند پڑا ہے۔اگر گودام خالی ہو جائے تو میں اسے کسی دوسرے کام کے لئے استعمال کر سکتا ہوں۔
پھر فیکٹری کا مالک جگنو سے کہنے لگا”ٹائروں سے بھرا ہوا گودام میں تمہیں کام کے بدلے انعام میں دیتا ہوں“ جگنو ٹائروں کو دیکھ کر سوچنے لگا میں اتنے بیکار ٹائروں کا کیا کروں گا۔وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ فیکٹری کے مالک نے جگنو سے کہا ”بیٹا گھبرانے والی کوئی بات نہیں۔
میں تمہیں گودام خالی کرنے کا معاوضہ دوں گا۔
جگنو فیکٹری کے مالک کی یہ بات سن کر خوش ہو گیا اور اس نے ٹائروں والی مارکیٹ میں جا کر ایک کباڑیے سے کہا کہ ”میرے پاس کافی تعداد میں ٹائر ہیں جو میں فروخت کرنا چاہتا ہوں۔اس طرح جگنو نے ٹائر اچھی قیمت میں فروخت کر دیئے جس سے اس کی مالی حالت میں بہتری آگئی۔
ایک دن جگنو کوئی نئی کتاب خریدنے کے سلسلے میں بازار گیا تو بک سٹاپ پر انعامی بانڈز کی لسٹ آویزاں تھی۔
جگنو کے پاس بھی ایک پرائز بانڈ تھا۔وہ لسٹ لے کر گھر آگیا۔جب اس نے انعامی بانڈ کے نمبروں سے اپنے نمبر میچ کیے تو سب سے پہلا انعام اسی کا تھا۔یوں جگنو کے پاس بہت ساری دولت جمع ہو گئی۔جگنو نے اس دولت کے استعمال کرنے کا نیک کاموں سے آغاز کیا۔
اس کے علاقے میں غریبوں کے لئے کوئی معیاری سکول نہیں تھا۔اس نے اپنے علاقے میں سکول بنوا کر غریبوں کو مفت تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح علم کی روشنی پھیلائی․․․
کافی عرصہ بعد ایک دن جگنو اپنے محسن بابا جی کے مکان کے آگے سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر مکان پر لگے کاغذ کے ٹکڑے پر پڑی جس پر لکھا تھا کہ ”یہ مکان برائے فروخت ہے“ جگنو نے دروازے کی ڈور بیل بجائی تو بابا جی باہر نکلے سلام دعا کے بعد جگنو نے پوچھا کہ آپ یہ مکان کیوں بیچنا چاہتے ہیں اسی پر بابا جی نے دُکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ میرا پوتا احمد پڑھ لکھ کر کسی اچھے عہدے پر فائز ہو گیا ہے اب وہ اس پرانے محلے میں نہیں رہنا چاہتا اس لئے ایک ہائی سوسائٹی میں چلے گیا ہے اور اپنے ماں باپ کو بھی ساتھ لے گیا ہے میں اور میری بیوی اتنے بڑے مکان میں اکیلے ہیں اس لئے اسے بیچ کہ کسی چھوٹے مکان میں رہنا چاہتے ہیں۔

بابا جی کی بات سن کر جگنو نے کہا”روشنی کی ایک کرن اندھیرے پر غالب آسکتی ہے،آپ بھی اپنے حصے کا دیا جلا کر روشنی پھیلا سکتے ہیں ۔جگنو نے بابا جی کا پرانا مکان خرید کر اسے سکول بنا دیا اور وہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔اس طرح جگنو نے اپنی مختصر سی روشنی سے اپنے حصے کی روشنی بانٹ کر دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کر دی۔

Browse More Moral Stories