Kaale Hath - Article No. 1459

Kaale Hath

کالے ہاتھ - تحریر نمبر 1459

فروا اور ندا آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔وہ پہلی جماعت سے اب تک ایک ساتھ ایک ہی سکول میں پڑھ رہی تھیں۔ان کے گھر بھی ایک ہی محلے میں تھے۔دونوں اکٹھی سکول آتی جاتی تھیں۔

پیر 1 جولائی 2019

مسرت کلا نچوی
فروا اور ندا آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔وہ پہلی جماعت سے اب تک ایک ساتھ ایک ہی سکول میں پڑھ رہی تھیں۔ان کے گھر بھی ایک ہی محلے میں تھے۔دونوں اکٹھی سکول آتی جاتی تھیں۔ان میں گہری دوست تھی۔فرواکے ابو ایک ادارے میں کلرک تھے اور ندا کے ابو ایک ورکشاپ میں گاڑیوں کی مرمت کرتے تھے۔
نداکے ابوصبح دس بجے ورکشاپ پر جاتے اور رات آٹھ بجے کے بعد تھکے ہارے واپس آتے تھے ۔

وہ آتے ہی صحن میں لگے نل پر صابن رگڑ رگڑ کر ہاتھ دھوتے۔کبھی نل میں پانی نہ آرہا تھا تو وہ ندا کو آواز دیتے۔
”ندا بیٹی،لوٹے میں پانی لے آؤ“
نداپانی لے جاتی اور اپنے ابو کے ہاتھ دھلواتی۔اسے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا کہ اس کے ابو کے ہاتھ گریس اور کالک کی وجہ سے کالے ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ مشکل سے یہ کالک اتارتے ہیں۔

(جاری ہے)


نداسوچتی کاش میرے ابوپڑھ لکھے ہوتے اور کسی دفتر کے ملازم ہوتے۔

ان کے ہاتھ ہمیشہ صاف ستھرے اور سفید رہتے۔ندا کے ابو اس سے بہت پیار کرتے تھے۔اسے اس کی پسند کی چیزیں لا دیتے اور صبح سکول جانے سے پہلے اسے دس روپے جیب خرچ بھی دیتے تھے۔
ندا نے کچھ دنوں سے محسوس کیا تھا کہ فرواجیب خرچ کے لیے زیادہ پیسے لے کر آتی ہے ۔اس کے پاس روز کوئی نہ کوئی نئی چیز ہوتی ہے ۔ایک روز فروا سکول آئی تو اس نے بہت خوبصورت نیابیگ اٹھایا ہوا تھا۔

”یہ تم نے کہاں سے لیا ہے؟“ندا نے اشتیاق سے پوچھا۔
”میرے ابو نے ایک بڑے سٹور سے لے کر دیا ہے۔“
”اچھا ۔کتنے کا ہے؟“
ندا نے زپ کھول کر اس کے اندر جھانکا۔بیگ کے اندر پین،پینسلیں اور فٹارکھنے کیے لیے الگ جیب تھی اور لنچ بکس رکھنے کے لیے الگ۔بیگ کے نیچے پہےئے لگ تھے۔اسے اٹھانے کے بجائے گھسیٹا جاتا تھا۔

فروامسکرا کربولی۔
”بڑامہنگا ہے ۔ایسا تم نہیں لے سکو گی۔“
#”پھر بھی بتاؤنا۔“ندا نے بے چینی سے پوچھا۔
”پورے ایک ہزار روپے کا۔“فرواکی گردن اکڑ گئی۔
ندا گھر آئی تو بہت خاموش تھی۔امی نے وجہ پوچھی تو اس نے کچھ نہیں بتایا۔رات کو ابو گھرلوٹے تو ندا ان کے پاس جا بیٹھی اور بڑے لاڈسے بولی۔
”ابو ․․․․مجھے پہیوں والا سکول بیگ لے دیں۔
میں نے ایسا بیگ فرواکے پاس دیکھاہے ۔مجھے بہت اچھا لگا ہے ۔“
”اچھا“ابو کچھ سوچتے ہوئے بولے۔”کتنے کا ملتا ہے ؟“
”پورے ایک ہزارروپے کا۔“ندا نے جواب دیا۔
”بیٹی ․․․․میں اتنا مہنگا بیگ نہیں لے کر دے سکتا۔“
ندا کا چہرہ اتر گیا۔اس کی امی پیار سے بولیں۔”دیکھوندا․․․․ایک ہزار روپے میں ہمارے گھر میں کچھ دن کھانا پک سکتا ہے۔
ہم امیر لوگ نہیں ہیں۔ہم اتنی مہنگی چیزیں اپنے بچوں کو نہیں لے کر دے سکتے۔“
”فروا کے ابوکون سابہت بڑے افسر ہیں ۔وہ کلرک ہیں۔انہوں نے بھی تو پیسے بچا بچا کر بیٹی کو بیگ لے ہی دیا ہے نا۔“
یہ کہتے ہوئے ندا کی آواز بھر اگئی اور وہ اپنے کمرے میں چلی گئی نجانے کتنی دیر روتی رہی۔
ندا اور فروا دونوں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گئیں۔
دونوں بہت خوش تھیں۔جب وہ پہلے دن نویں جماعت میں آکر بیٹھیں تو ندا نے دیکھا۔فروا نے اپنی کلائی میں قیمتی گھڑی باندھی ہوئی تھی۔ندا نے اس کی کلائی تھام کر گھڑی کو دیکھا تو فروا بولی۔
”پورے ڈیڑھ ہزار روپے کی ہے۔میرے امی ابو نے مجھے پاس ہونے کی خوشی میں انعام کے طور پر یہ گھڑی دی ہے۔“
ندا نے دیکھا اس گھڑی میں ہندسوں کی جگہ سفید نگینے جھلملارہے تھے اور اس کی چین بھی سنہری تھی۔
ذراسی روشنی پڑتی تو گھڑی جگمگانے لگتی۔سارا دن وہ گھڑی ندا کی نظروں کے سامنے جھلملاتی رہی۔
ابو گھر آئے تو ندا ان کے پاس جا بیٹھی اور سوچنے لگی کہ ابو سے کیسے بات کروں۔
”کیا بات ہے بیٹی۔لگتا ہے تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو۔“
”ابو ․․․․․میں نے آٹھویں جماعت میں بہت اچھے نمبر لیے ہیں۔آپ نے اس خوشی میں کیا دیا؟“
”بیٹی․․․․․․ہم نے اپنی گلی میں مٹھائی بانٹی تھی ۔
تم خود ہی توہمسائیوں کے گھر لڈودینے گئی تھی۔“
”اور میرے لیے کیا کیا؟“
”تمہیں نویں جماعت کی کتابوں کے ساتھ نیا جیو میٹری بکس لے کر دیا تھا اور ایک اچھا ساپین بھی۔“
”بس “․․․․․ندامنہ بسور کر بولی۔”فرواکے ابو نے اسے بہت اچھی گھڑی لے کر دی ہے ۔مجھے بھی گھڑی چاہیے۔“
”ندا تم جانتی ہو۔“امی بولیں۔
“تمہارے ابو نے تمہارے دوسرے بہن بھائیوں کی کتابیں اور یونیفارم بھی خریدے ہیں۔ان کے پاس اب کوئی گنجائش نہیں۔“
”اس لیے کہ ہم غریب ہیں۔“ندا نے دکھی دل سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
چند ماہ گزرے ۔ندا اور فرواسکول سے لوٹ رہی تھی تو فروابولی۔
”ندا،کل سے میں تمہارے ساتھ سکول نہیں جاؤں گی۔“
”کیوں؟“ندا حیران رہ گئی۔

”اس لیے کہ میرے ابو نے بھائی جان کو نیا موٹر سائیکل لے کر دیا ہے ۔اب بھائی جان مجھے سکول چھوڑا کریں گے اور وہی لے کر آئیں گے۔“
فروا کی یہ بات سن کر ندا بہت دکھی ہوئی ۔اس کا سکول اگر چہ گھر سے زیادہ دورنہ تھا لیکن ندا کو اکیلے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل لگتا ۔اسے یاد آتا کہ وہ جب فروا کے ساتھ باتیں کرتیں سکول جاتی تھی تو وقت اور فاصلہ کتنی آسانی سے کٹ جاتا تھا۔
کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔
شام کو ابو گھر آئے تو ندانے لاڈ سے پوچھا۔
”ابو․․․․آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں؟“
”بہت زیادہ“ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے جواب دیا:۔
”ابو ․․․․․فروا کے ابو نے اس کے بھائی جان کو موٹر سائیکل لے دیا ہے ۔اب وہ ان کے ساتھ سکول جاتی اور گھر آتی ہے۔مجھے اکیلے جانا پڑتا ہے اور میں تھک بھی جاتی ہوں۔

”تو پھر ؟“ابو نے پوچھا۔
”آپ کی کمیٹی نکلنے والی ہے نا۔اس سے آپ موٹر سائیکل لے لیں اور مجھے اس پر سکول چھوڑ آیا کریں۔“
”نہیں بیٹی“ابو بو لے تم جانتی ہو برسات میں ہمارے گھر کا ایک کمرہ گر گیا ہے میں نے کمیٹی کے پیسوں سے یہ کمرہ بنوانا ہے۔“
ندا کا چہرہ اُتر گیا ۔اس کی امی بولیں۔
”اگر تم اکیلے سکول جانے سے گھبراتی ہوتو فکر نہ کرو میں تمہیں سکول چھوڑنے جایا کروں گی اور میں ہی لے آیا کروں گی۔

اور یوں اپنی خواہشوں کو دباتے کچھ عرصہ اور گزر گیا۔ندا کے اندر اپنی غربت کا احساس بڑھتا ہی جارہا تھا۔
دوتین دنوں سے فرواسکول نہیں آرہی تھی۔ندا اس کے لئے فکر مند تھی اس نے اپنی کلاس کی لڑکیوں فاطمہ اور شہلا کو کہتے سنا۔
”شہلا․․․․تمہیں پتہ ہے فروا کے ابورشوت لیتے تھے۔“
”ہاں“شہلا بولی۔”میرے بھیا بھی بتارہے تھے کہ رشوت لیتے ہوئے پکڑ ے گئے وہ نوکری سے نکال دیے گئے ہیں ۔
فروا کے گھر والے سخت پریشان ہیں۔“
فاطمہ کہنے لگی:”فروا بھی اپنے ابو کی اس حرکت کی وجہ سے بہت شرمندہ ہے ۔وہ کہتی ہے کہ اس سکول میں نہیں جاؤں گی۔کسی اور جگہ داخلہ لوں گی۔“
یہ باتیں سن کر ندا کو بہت دکھ ہوا۔وہ اپنے گھر آئی تو اپنی امی سے پوچھا۔
”امی ،لوگ رشوت کیوں لیتے ہیں؟“
”بیٹا ․․․․جو لوگ خود لالچی ہوتے ہیں یا وہ اپنی آمدنی سے بڑھ کر اپنے بچوں کو خواہشوں اور فرمائشوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں تو ناجائز کام کرتے ہیں وہ حرام کی کمائی سے وقتی عیش و آرام حاصل کرتے ہیں لیکن آخر کار ان کا انجام بڑا ہوتا ہے۔
دنیا میں اور آخرت میں بھی۔
”وہ کیسے؟“ندا نے پوچھا۔
دنیا میں تو کبھی نہ کبھی انہیں تکلیف ،ذلت اور رسوائی ملتی ہی ہے لیکن آخرت میں بھی ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ہمارے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔“
”امی․․․․شکر ہے ہمارے ابو ایسا کوئی کام نہیں کرتے۔
“ندابولی۔
”ہاں بیٹی تمہارے ابو محنت کش ہیں محنت میں عظمت ہے حلال کمائی کمانے والا دنیا میں بھی سکون سے رہتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے بڑا اجر ہے۔“
”امی ․․․․میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کالا دھندہ اور کالادھن“۔ندابولی۔
امی کہنے لگیں۔”بیٹی کالادھندہ ناجائز اور بُرے کام کو کہتے ہیں اور کالے دھن کا مطلب ہے حرام کا پیسہ۔

شام کو ندا کے ابو گھر آئے تو سیدھا نل کے پاس گئے پھر آواز دی۔
”ندا بیٹی ․․․․․․نل میں پانی نہیں آرہا لوٹے میں پانی لے آؤ۔“
ندا پانی لے کر گئی اور اپنے ابو کاہاتھ دھلوانے لگی۔
ابوبولے۔
”زیادہ پانی ڈالو۔آج تو ہاتھ زیادہ کالے ہو گئے ہیں۔“
ندابولی۔
”ابو ․․․․․کالے ہاتھ ان کے ہوتے ہیں جو کالادھندہ کرتے ہیں اور کالادھن کماتے ہیں ۔آپ تو محنت کرتے ہیں حلال کماتے ہیں آپ کے ہاتھوں پر کالارنگ لگ بھی جائے تو پھر بھی یہ صاف ہاتھ ہیں۔“
میری بیٹی تو بہت سیانی ہو گئی ہے۔“ابو نے ہنس کر کہا اور ندا کے سر پر اپناہاتھ رکھ دیا۔

Browse More Moral Stories