Kabhi Kissi Ka Dil Na Toro - Article No. 1676

Kabhi Kissi Ka Dil Na Toro

کبھی کسی کا دل نہ توڑو - تحریر نمبر 1676

اسمبلی ختم ہوتے ہی لڑکیاں اپنی اپنی کلاسوں میں جانا شروع ہو گئیں ۔ میرب طاہر بھی اپنی دوستوں کے ساتھ اپنی کلاس میں آکر بیٹھ گئی ۔

پیر 2 مارچ 2020

شیخ معظم الٰہی
اسمبلی ختم ہوتے ہی لڑکیاں اپنی اپنی کلاسوں میں جانا شروع ہو گئیں ۔ میرب طاہر بھی اپنی دوستوں کے ساتھ اپنی کلاس میں آکر بیٹھ گئی ۔تھوڑی دیر کے بعد اسلامیات کی ٹیچر مس فرحانہ آگئیں ۔حاضری لگانے کے بعد سب بچوں کو کتابیں نکالنے کا کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں پھر ہر لڑکی سے سبق سننے کے بعد وہ لڑکیوں کو سبق کے بارے میں سمجھانے لگیں کہ ہمیں کبھی بھی کسی کا دل نہیں توڑنا چاہیے کیونکہ اللہ پاک اور ہمارے پیارے نبی اکرم نے بھی اس بات کو نا پسند قرار دیا ہے کسی کا دل دکھانا بہت بڑا گنا ہ ہے ہمیں ایسے عمل سے بچنا چاہیے جو تباہی اور اللہ پاک کی ناراضگی کی طرف جاتاہے۔

کلاس کی سب لڑکیاں مس فرحانہ کی باتوں سے بہت متاثر ہوئیں۔

(جاری ہے)

چھٹی کے بعد جب میرب طاہر اپنے گھر آئی تو اس کی والدہ نے اسے خوش خبری سنائی کہ تمہاری خالہ اپنے خاندان کے ساتھ ہمارے محلے میں آکر رہیں گی اب تمہارے ساتھ کھیلنے اور باتیں کرنے کے لئے تمہاری خالہ کی بیٹی افشاں بھی ہوگی میرب طاہر یہ بات سن کر بہت خوش ہوئی کیونکہ افشاں اس کی ہم عمر اور خوش شکل لڑکی تھی ۔

جلد ہی میرب طاہر کی خالہ اپنے خاندان کے ساتھ اس کے محلے میں شفٹ ہوگئیں پہلے وہ لوگ مری میں رہتے تھے ۔میرب طاہر کبھی مری نہیں گئی تھی ۔آج افشاں سے اس کی پہلی ملاقات ہو رہی تھی ۔میرب طاہر نے مسکرا کر اسے کہا کہ السلام وعلیکم افشاں کیسی ہو۔ افشاں نے منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی میں کہا کہ ہائے!میرب آئی ایم فائن۔میرب طاہر کو بے حد افسوس ہوا کہ وہ اردو بولنے کی بجائے منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بول رہی ہے ۔
میرب طاہر بولی کی افشاں تم اردو کیوں نہیں بولتی ہو؟
افشاں نے بد تمیزی سے جواب دیا کہ تمہیں پہلے بتانا چاہیے تھا کہ تم انگریزی نہیں جانتی ۔مری میں میری سب دوست انگریزی میں بولتی ہیں۔
یہ بات کرتے وقت افشاں کا سر ضرورت سے زیادہ اکڑا ہوا تھا۔میرب طاہر نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ انگریزی تو مجھے بھی آتی ہے مگر میں صرف اردو میں بولتی ہوں ۔
کیونکہ یہ ہماری قومی زبان ہے ۔افشاں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تمہیں تو سیاست دان ہونا چاہیے تقریر اچھی کر لیتی ہو ۔یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلی گئی ۔اب ایسا ہی ہونے لگا۔کسی نہ کسی بات پر دونوں کے درمیان بحث چھڑ جاتی ۔مگر دونوں قائل نہیں ہوتی تھیں۔یہی نہیں بلکہ افشاں میں اور خراب عادتیں بھی تھیں ۔وہ سکول میں لڑکیوں کا مذاق بھی اڑاتی تھی کسی کو غریب ہونے کا طعنہ دیتی کسی کو گہری رنگت کا مذاق بناتی ۔
ایک دن تو حد ہو گئی جب بھری کلاس میں افشاں نے میرب طاہر کی سب سے اچھی دوست نازش کو اس کی غربت کا طعنہ دیا اور یہ بھی کہا کہ وہ تو میرب طاہر کے ابو کے پیسوں پر پل رہی ہے وہی اس کی پڑھائی کا خرچہ اٹھاتے ہیں میرب طاہر کا شرم کے مارے سر جھک گیا۔نازش اتنی بے عزتی پر بری طرح رو پڑی۔
یہ درست تھا کہ نا زش کے گھر کا تقریباً خرچہ میرب طاہر کے والد ہی اٹھاتے تھے۔
میرب کے کہنے پر ہی اس کے والد نازش کی فیس بھرتے تھے ۔نازش کے والد کو کینسر تھا ۔اس کی ماں سارا دن لوگوں کے گھروں کاکام کرتی تھی اور اس کی ساری تنخواہ شوہر کے علاج پر خرچ ہو جاتی تھی اس لئے میرب طاہر کے والد طاہر منیر صاحب اس گھر کا خرچہ اٹھاتے ان کا ایک اچھا خاصا کاروبار تھا۔میرب طاہر نے گھر آکر سارا واقعہ اپنی والدہ کو سنایا۔ اس کی والدہ کو افشاں کا رویہ بہت برا لگا۔
انہوں نے کہا کہ ”یہ بہت بری بات ہے افشاں کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ افشاں کی والدہ نے بھی اسے سمجھایا تو اس نے جان چھڑانے کے لئے معافی مانگ لی ۔
ایک روز افشاں اپنی ڈرائنگ بک میں بہت خوبصورت تصویر بنا کر لائی اور کلاس میں سب کو دکھانے لگی ۔لیکن سب نے اس کی ڈرائنگ میں خرابیاں نکالیں ۔ہر کوئی اس کی ڈرائنگ کی برائی کر رہا تھا۔
افشاں کا چہرہ اتر گیا تھا اس دن کے بعد اکثر یہی ہونے لگا۔ افشاں جو کام کرتی سب کلاس اس کے کام میں خرابی نکال دیتی ۔افشاں اس بات سے لاعلم تھی کہ میرب طاہر اور دوسری ہم جماعتوں نے ایک منصوبے کے تحت اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا ہے ۔کیونکہ وہ سب افشاں کی بھلائی چاہتے تھے ۔بہترین دوست وہی ہوتاہے جو اپنے دوست کے عیب دور کرے ۔کچھ ہی دنوں کے بعد میرب طاہر کے سکول میں مصوری کا مقابلہ ہوا۔
کلاس کی تمام لڑکیاں اپنے اپنے گھروں سے اچھی اچھی تصویریں بنا کر لائی تھیں میرب طاہر اور افشاں نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا ۔دونوں نے بہت خوبصورت تصویریں بنائی تھیں۔ میرب طاہر نے اپنی تصویریں دوستوں کو دکھائیں تو سب نے ان کی تصویروں کی تعریف کی جب افشاں نے اپنی تصویریں دکھائیں تو ہر ایک نے اس کی تصویروں کو ناپسند کیا ۔ایک لڑکی نے کہا کہ افشاں!ہم نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ اپنا وقت اور پیسے ایسے فضول کام میں برباد مت کرو۔
اس طرح سب کلاس نے اس کی خوب کھنچائی کی ۔افشاں نے لڑکیوں کے رویے سے بہت حیران ہو ئی پھر اپنی سیٹ پر بیٹھ کر بے اختیار رونے لگی۔یہ دیکھ کر ساری لڑکیاں حیران وپریشان ہو گئیں۔
میرب طاہر نے آگے بڑھ کر کہا ارے افشاں کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟افشاں ہچکیاں لینے لگی اور کہا کہ میں نے اتنی محنت سے یہ تصویریں بنائی تھیں گھر میں سب کو پسند آئیں مگر یہاں سب نے انہیں ناپسند کیا۔
میرب طاہر نے سوالی نظروں سے اسے دیکھا اور کہا کہ افشاں کیا تمہیں برا لگا؟افشاں نے رو دینے والے انداز میں کہا کہ ہاں!ظاہر ہے کہ میں نے اتنی محنت سے تصویریں بنائی ہیں میرب طاہر مسکرا کر بولی کہ دیکھو افشاں!جب تمہاری بنائی ہوئی تصویروں کو سب نے ناپسند کیا تو تمہیں برا لگا اس طرح جب تم کسی کو گہری رنگت کی وجہ سے یا کبھی موٹے دبلے ہونے اور کبھی غریب کا مذاق اڑاتی ہوتو سوچو انہیں کتنا دکھ ہوتا ہو گا۔
ہر انسان کو اللہ پاک نے پیدا کیا ہے کسی کو گورا کسی کو کالا کوئی لمبا کوئی بھگنا کوئی امیر تو کوئی غریب تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ تم اللہ پاک کی بنائی ہوئی مخلوق کا مذاق اڑاؤ۔جیسی تکلیف تمہیں ہوئی ہے ویسی ہی تکلیف ان سب کو ہوتی ہے۔
افشاں کے سر شرم سے جھک گیا ۔آج اسے اپنی ہر زیادتی یاد آرہی تھی ۔اس نے ساری کلاس کے سچے دل سے معافی مانگی میرب طاہر سمیت ساری کلاس نے اسے خلوص دل سے معاف کردیا۔اللہ پاک درگزر سے کام لینے والوں کوپسند کرتاہے ۔اتنی زیادہ سہولت اور خوشیاں میسر ہونے کے باوجود ہم پریشان اور تنگ دست رہتے ہیں اور اضافے کی خواہش رکھتے ہیں ۔کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جو قناعت پسند ہیں جو اللہ پاک پر توکل رکھتے ہیں۔

Browse More Moral Stories