Kabootar Baz - Article No. 2035

Kabootar Baz

کبوتر باز - تحریر نمبر 2035

کوئی کرکٹ کھیلتا ہے،کوئی کتابیں پڑھتا ہے۔میں کبوتر اُراتا ہوں

بدھ 11 اگست 2021

محمد ذوالقرنین خان
ندیم کو کبوتروں سے بچپن ہی سے بہت لگاؤ تھا۔اسکول سے واپس آتے ہی وہ چھت پر چڑھ جاتا۔چار منزلہ مکان کی چھت سے جب بہت سارے کبوتر اُڑتے تو اس کی گردن فخر سے اَکڑ جاتی۔دادی نے ندیم کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ کبوتر بازی وقت کی بربادی ہے اور پرندوں پر ظلم ہے،مگر وہ نہیں مانا۔اس کا جواب تھا،یہ اس کا مشغلہ ہے۔
کوئی کرکٹ کھیلتا ہے،کوئی کتابیں پڑھتا ہے۔میں کبوتر اُراتا ہوں، یہ ظلم کیوں کر ہوا۔میں وقت پر انھیں دانہ ڈالتا ہوں۔پیسے بھی خرچ کرتا ہوں۔گرمی سردی سے ان کی حفاظت کرتا ہوں۔اگر بیمار ہو جائیں تو انھیں دوا دیتا ہوں۔ہر طرح سے ان کا خیال رکھتا ہوں۔دادی اس کے دلائل سن کر کچھ دنوں کے لئے خاموش ہو جاتیں۔
اس دن وہ بہت خوش تھا۔

(جاری ہے)

اس نے اپنے حریف پپو کے دو بہت قیمتی کبوتر پکڑ لیے تھے۔

جس نے کھلم کھلا چیلنج دے رکھا تھا کہ جو اس کے کبوتر پکڑے گا،وہ دس ہزار روپے انعام کا حق دار قرار پائے گا۔سارے کبوتر باز یہ کارنامہ سر انجام دینے پر ندیم کو مبارک باد دے رہے تھے۔
وہ پپو کے دونوں کبوتر تھامے سیڑھیاں اُتر رہا تھا،جب اس کا پاؤں پھسلا۔اس نے دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے تو بچا لیا،مگر ایک کبوتر اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔
اس نے کبوتر کے پَر باندھے ہوئے تھے،مگر وہ نہ جانے کیسے اُڑ کر دیوار پر جا بیٹھا۔ندیم کی سانس اس کے حلق میں اٹک گئی۔اگر وہ اس کے ہاتھوں سے نکل جاتا تو اس کی بہت سبکی ہوتی۔اس نے قریب پڑا بانس بہت احتیاط سے اُٹھایا،جس کے ایک سرے پر جال بندھا ہوا تھا۔کبوتر نے خطرہ بھانپ لیا۔وہ اُڑ کر قریب ہی بجلی کے کھمبے پر جا بیٹھا۔وہ اب بھی ندیم کی پہنچ میں تھا۔
اس نے ہاتھ میں پکڑے کبوتر کو پنجرے کے اندر پھینکا اور پوری توجہ فرار ہونے والے کبوتر پر مرکوز کر لی۔وہ جھک کر آگے بڑھا۔بہت پھرتی سے دیوار پر چڑھ گیا۔اس نے بانس گھمایا،تاکہ کبوتر جال میں پھنس جائے۔بانس بجلی کی تار سے ٹکرایا۔کرنٹ کے شدید جھٹکے نے اس کے ہوش حواس چھین لیے۔وہ نیچے گرتا چلا گیا۔کبوتر پکڑنے کی دُھن میں وہ یہ بھول گیا تھا کہ بانس بارش کی وجہ سے گیلا ہو گیا ہے۔

ندیم جب ہوش میں آیا تو خوف اور حیرت سے اپنے پَر پھڑپھڑا کر رہ گیا۔وہ ایک کبوتر کا روپ دھار چکا تھا۔وہ اس وقت کسی انجان جگہ پر تھا۔مغرب کا اندھیرا چھا رہا تھا۔ایک لڑکے نے اسے اور باقی کبوتروں کو ایک تاریک کابک میں بند کر دیا،جہاں ہر جانب غلاظت تھی۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے اس کے پَروں سے چمٹ گئے۔ہاتھ تو تھے نہیں دوسرے کبوتروں کی طرح اس نے بھی یہاں وہاں چونچ سے کھجانا شروع کر دیا۔
جب کھجا کھجا کر بے حال ہو گیا تو وہ ساتھ بیٹھے کبوتر سے بولا:”کتنا غلیظ انسان ہے،کمبخت!دڑبا ہی صاف کر دیتا۔“
اس کبوتر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا:”ابھی چار مہینے پہلے ہی تو اس نے صفائی کی ہے۔یہ پھر بھی باقیوں سے اچھا ہے،سال میں دو بار صفائی کرتا ہے۔میں پہلے جہاں تھا،اس کبوتر باز نے تو کبھی ہمارے پنجرے میں جھانکنے کی زحمت بھی نہیں کی۔

ندیم کو یاد آیا،وہ بھی تو سال میں ایک دو بار ہی صفائی کرتا تھا۔اسے شدید بھوک لگ رہی تھی۔اسے یاد آیا،کبوتر باز عموماً دن میں ایک بار ہی کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ان کے خیال میں وہ اس طرح چست رہتے ہیں۔اب اسے انتظار کرنا تھا۔
دوپہر کے بعد اس لڑکے نے انھیں باہر نکالا۔اب وہ کپڑا ہلا ہلا کر انھیں اُڑنے پر مجبور کر رہا تھا۔
وہ سب بھوکے پیاسے تھے۔ان میں سے کسی کا دل اُڑنے کو نہیں چاہ رہا تھا،مگر وہ جانتے تھے،اُڑان بھرنے کے بعد ہی انھیں دانہ ملے گا۔
اس نے بھی دوسرے کبوتروں کے ساتھ اُڑان بھری۔وہاں دو اور ٹولیاں بھی اُڑ رہی تھیں تھوڑی دیر وہ سب اِکٹھا ہو کر اُڑنے لگے۔جب وہ جدا ہوئے تو ندیم کی سمجھ میں نہ آیا اس کی ٹولی کون سی ہے،لیکن جلد ہی اسے قریبی چھت پر دانہ پانی نظر آیا۔
اس کے ساتھی کبوتر اسی چھت پر اُترے۔وہ بھی بھوک سے بے قرار ہو کر دانے کی جانب بڑھا۔تب ہی ایک جال اس پر آگرا۔
وہ جو کوئی بھی تھا،اس نے بہت بے دردی سے اسے ہاتھوں میں جکڑ لیا تھا۔قینچی دیکھ کر اس نے خوف سے آنکھیں بند کر لی تھیں۔وہ جانتا تھا،اب اس کے ساتھ کیا ہو گا۔اس شخص نے اس کے پَر کاٹے اور پنجرے میں بند کر دیا۔اس نے غٹرغوں غٹرغوں کرکے خوب احتجاج کیا،مگر کبوتر باز کب اس قسم کے احتجاج پر کان دھرتا ہے۔

ایک بوڑھے کبوتر نے اسے مشورہ دیا کہ جب تک پَر نہ آجائیں،پنجرے سے باہر نہ نکلے۔وہاں ایک خوف ناک بلا پہلے بھی پانچ سات کبوتر ہڑپ کر چکا تھا۔جس بے احتیاطی سے اس کے پَر کاٹے گئے تھے،اس کا اندازہ تھا،انھیں دوبارہ اُگنے میں چالیس پینتالیس دن تو لگیں گے۔ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ کبوتر اُڑ نہ پائے اور اس جگہ کو اپنا گھر تسلیم کرکے پچھلی جگہ کو بھول جائے۔

دو دن بعد وہ شخص آیا۔ندیم اور اس جیسے تین پَر کٹے کبوتروں کو ایک کپڑے کے تھیلے میں ڈالا اور انھیں سائیکل پر رکھ کر چل پڑا۔اس کے دماغ سے یہ بات نکل گئی کہ اسے فروخت بھی جا سکتا تھا۔وہ بھی لوگوں کے کبوتر پکڑ کر انھیں بیچ دیتا تھا۔
وہ اب ایک خستہ حال دکان کے ایک پرانے پنجرے میں بیٹھا کسی گاہک کے انتظار میں تھا۔اسے یقین تھا،اگر چند دن وہ ایسے ہی رہا تو مر جائے گا۔
خریدار آتے دکان دار بہت بے دردی سے اسے تھامتا اور ان کے ہاتھ میں پکڑا دیتا۔وہ اس کو الٹ پلٹ کر دیکھتے۔کبھی پَر کھینچتے، کبھی چونچ کھول کر زبان دیکھتے۔بھاؤ تاؤ کرتے۔بات نہ بنتی تو دکان دار اسے دوبارہ پنجرے میں پھینک دیتا۔
خدا خدا کرکے ایک کبوتر باز نے اسے خرید لیا۔اس نے سوچ لیا تھا،اب وہ اپنی چھت کو یاد رکھے گا،کبھی کسی دوسرے کی چھت پر نہیں بیٹھے گا۔
کچھ روز بعد اس کے پَر نکل آئے۔اس کا مالک اس کی وفاداری سے بہت خوش تھا۔وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ایک دن صبح ہی صبح اس کا مالک پنجرے میں گھس آیا اور اسے پکڑ کر ایک تھیلے میں ڈال دیا۔ندیم کا تو حلق خشک ہو گیا۔وہ شاید اسے بیچنے کے لئے لے جا رہا تھا۔ موٹر سائیکل پر وہ ایک ویران جگہ پر پہنچا۔جب اس نے ندیم کو تھیلے سے نکالا تو اس نے دیکھا کہ وہاں دوسرے کبوتر باز اپنا اپنا کبوتر ہاتھ میں لیے کھڑے ہیں۔
وہ ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
اس کی وفاداری دیکھ کر اس کا مالک اسے کبوتر بازی کے مقابلے میں لے آیا تھا۔ان تمام کبوتروں میں سے جو پہلے اپنی چھت پر سب سے پہلے پہنچ جاتا،وہ فاتح ہوتا۔
مقابلے کا آغاز ہوا۔اسے اس کے مالک نے چھوڑ دیا تھا۔فضا میں ایک گول چکر کاٹ کر وہ تیزی سے ایک سمت میں اَڑنے لگا۔راستے میں جلا دینے والی لُو سے اس کا سامنا تھا۔
پیاس سے اس کا بُرا حال تھا،مگر وہ اُڑا جا رہا تھا۔اچانک اسے ایک چیل نظر آئی،جو بالکل اس کے سر پر منڈلا رہی تھی۔چیل کی تیز نظر اس پر پڑ چکی تھی،اس نے ایک غوطہ لگایا اور اپنے نوکیلے پنجوں میں ندیم کو جکڑ لیا۔وہ درد سے چلا اُٹھا۔
اسی وقت اسے اپنی دادی کی آواز آئی،جو اس کے والد کو بلا رہی تھیں:”ارے جلدی آؤ،ندیم ہوش میں آگیا ہے۔“
اس کی چیخ سن کر سب اس کے گرد اِکھٹا ہو گئے تھے۔وہ کئی روز سے اسپتال میں بے ہوش پڑا تھا۔سب کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔اس نے جس کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ کیا،سب نے کہا کہ وہ محض ایک ڈراؤنا خواب تھا۔

Browse More Moral Stories