Kaghaz Ki Theli - Article No. 2019
کاغذ کی تھیلی - تحریر نمبر 2019
بیکری والا جس کاغذ کی تھیلی میں ڈبل روٹی رکھ کر دینا چاہتا تھا،وہ ہاتھ سے نہ کھلی تو اس نے منہ کے قریب تھیلی لا کر زور زور سے پھونکیں ماریں
ہفتہ 17 جولائی 2021
سلمان ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔وہ ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اس نے اپنی کتاب میں پڑھا تھا کہ کوئی چیز ٹھنڈی کرنی ہو تو اُسے منہ سے پھونک پھونک کر ٹھنڈا نہیں کرنا چاہیے۔
پھونکنے سے منہ کے جراثیم اس چیز میں پہنچ جاتے ہیں اور نقصان پہنچاتے ہیں۔جب سے سلمان نے کتاب میں یہ بات پڑھی اس وقت سے وہ خود بھی احتیاط کرنے لگا اور دوستوں اور بھائی بہنوں کو بھی منہ سے پھونک کر کھانا یا چائے ٹھنڈی کرنے سے روکنے لگا۔
ایک دن وہ ڈبل روٹی لینے بیکری گیا۔بیکری والا جس کاغذ کی تھیلی میں ڈبل روٹی رکھ کر دینا چاہتا تھا،وہ ہاتھ سے نہ کھلی تو اس نے منہ کے قریب تھیلی لا کر زور زور سے پھونکیں ماریں۔
تھیلی کا منہ کھل گیا۔
(جاری ہے)
سلمان یہ دیکھ رہا تھا ،جب بیکری والے نے ڈبل روٹی تھیلی میں رکھنا چاہی تو سلمان چیخ کر بولا:”ٹھیرو،رک جاؤ۔منہ سے پھونک کر تھیلی نہیں کھولتے،تمہارے منہ کے سارے کیڑے تھیلی میں چلے گئے،وہ گندی ہو گئی،دوسری تھیلی ہاتھ سے کھولو اور مجھے اس میں روٹی رکھ کر دو۔
“سلمان نے اس سختی سے یہ بات کہی کہ بیکری والے کو غصہ آگیا۔وہ کہنے لگا:”ہمارا منہ گندا تھوڑی ہے،نہ میرے پاس اتنا وقت ہے کہ تھیلی کو ہاتھ سے مسلتا رہوں۔“
سلمان نے اپنی بات دُہرائی تو بیکری والا بھی اپنی بات پر اَڑ گیا۔اس نے کہا:”لینا ہے تو لو،ورنہ جاؤ،میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔“
سلمان خالی ہاتھ گھر آگیا۔جب اس کے ابو کو قصہ معلوم ہوا تو انھوں نے سلمان سے کہا کہ بات تو تمہاری بالکل صحیح ہے،لیکن تمہارے کہنے کا انداز اور تمہارے الفاظ سخت تھے،اس لئے وہ ضد پر آگیا۔بات کرنے کا انداز ہوتا ہے۔اچھی بات کو اچھے الفاظ اور اچھے لہجے میں ہی کہنا چاہیے،اسی کو اخلاق اور اسی کو تہذیب کہتے ہیں۔ہمارے ہاں جہالت عام ہے،ابھی تمام لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ان کو بہت سی باتیں نہیں معلوم،اسی لئے وہ بیمار رہتے ہیں اور ان کو اخلاق سے کام لینا نہیں آتا۔بیکری والا بھی انھی لوگوں میں سے ہے۔اگر تم اس کو میٹھی زبان میں منہ سے پھونکنے کے نقصانات بتاتے اور نرمی سے کہتے کہ تمہارا منہ گندا نہیں ہے،لیکن جراثیم ہر ایک انسان کے جسم میں ہوتے ہیں،جو دوسروں کے لئے مضر ہوتے ہیں۔اس لئے ذرا سی تکلیف اُٹھا کر کاغذ کی تھیلی کا منہ ہاتھ سے کھول لیا کرو،تو وہ شاید بات مان جاتا۔بیکری والے نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی صحیح نہ تھا،نہ انسان کی حیثیت سے اور نہ تاجر کی حیثیت سے۔اس انداز سے بات کرنے سے اس کا نقصان بھی ہوا،مگر اس کی جہالت اور اخلاقی کمزوری نے اس کو یہ نقصان برداشت کرنے پر مجبور کیا۔
اپنے ابو کی یہ باتیں سلمان کی سمجھ میں آگئیں۔وہ شام کو پھر اسی بیکری والے کے پاس گیا اور اس کو اخلاق و محبت سے یہ ساری باتیں سمجھاتا رہا۔شروع شروع میں بیکری والا اُلجھنے کی کوشش کرنے لگا،لیکن سلمان کی باتوں کی مٹھاس نے اس کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔آخر وہ سلمان کی بات مان گیا۔
سلمان خوشی خوشی گھر واپس آیا۔اس نے آج ایک اخلاقی سبق خود سیکھا تھا اور صحت کا ایک اُصول ایک دوسرے انسان کو سکھایا تھا۔
Browse More Moral Stories
انٹرویو
Interview
ایک دن کا راجا
Aik Din Ka Raja
آستین کا سانپ بننا
Aasteen Ka Saanp Banna
اناج اور دولت
Anaaj Or Dolaat
غریب شہزادہ۔۔۔تحریر: مختار احمد
Ghareeb Shahzada
کہانی آدھی آدھی
Kahani Aadhi Aadhi
Urdu Jokes
لان میں سبزیاں
Lawn Mein sabzian
تھانے میں
thanay main
تمہارے دائیں اور بائیں ہاتھ پر کیا ؟
tumharay dayen aur baen hath par kya
روشن
Roshan
باپ
Baap
اخبار کے ایڈیٹر
Akhbar ke editor
Urdu Paheliyan
یا وہ آتا ہے یا وہ جاتا ہے
ya wo aata hai ya wo jata hai
دیکھی ہے اک ایسی رانی
dekhi hai aik esi raani
شیشے میں ہے لال پری
sheeshe me hai lal pari
ہم نے اگلا اس نے کھایا
hum ne ugla usne khaya
اس کا دیکھا ڈھنگ نرالا
uska dekha rang nirala
سب کے دستر خوان پر آئے
sab ke dasterkhan per aye