Kar Bhala Ho Bhala - Article No. 1143

Kar Bhala Ho Bhala

کربھلا سوہو بھلا - تحریر نمبر 1143

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اُسکا نرمرچکا تھا، وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اسکی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی کہ تم جلد مرجاوٴ گی

جمعہ 29 جون 2018

حماد سلطان:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بطخ دریا کے کنارے رہتی تھی کیونکہ اُسکا نرمرچکا تھا، وہ بیچاری ہمیشہ بیمار رہتی تھی۔ ایک دن اسکی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ تمہاری بیماری ایسی کہ تم جلد مرجاوٴ گی۔ اُسے یہ سن کر صدمہ ہو ا کیونکہ اُسکے پاس ایک انڈا تھا۔ اُسے ڈرلگا کہ اگر وہ مر گئی تو اس انڈے کا کیا ہو گا جس میں سے جلد ہی بچہ نکلنے والا تھا اور پھر اس بچے کو کون سنبھالے گا۔

لہٰذا وہ جنگل میں رہنے والے اپنے سب دوستوں کے پا س گئی اور اُنہیں اپنی ساری کہائی سنائی لیکن ہرکسی نے ہی اُس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ بیچاری بطخ نے اُن کی بہت منتیں کیں کہ خدا کے لیے تم لوگ مرنے کے بعد میرے بچے کو اپنا سایہ دینا لیکن کسی نے اُسکی بات نہ مانی ۔

(جاری ہے)

بیچاری بطخ بھی کیا کرتی اُسکے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے بھائی مرغے کے پاس جایا جائے وہ ضرور میری مدد کرے گا لہٰذاوہ مرغے کے پاس گئی اوراُسے سارا قصہ سنایا۔

مرغ بھائی ! آپ میرے بچے کے ماموں جیسے ہو، پلیز آپ ہی میرے بچے کو میرے بعد اپنا سایہ دے دینا۔ مرغا بولا ! میں تمہارے بچے کو رکھ لیتا مگر میری بیگم مرغی یہ بات نہیں مانے گئی لہٰذا مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا لہٰذا تم مجھے معاف کر دینا۔بطخ اِدھر ے مایوس ہو کر اپنے گھر واپس آگئی اور سوچنا شروع کر دیا کہ اب کیا کیا جائے اچانک اُسکے ذہن میں ایک ترکیب آئی اور اس نے موقع ڈھونڈ کر یہ کام انجام دے دیا اور خود جا کر ایک درخت کے کنارے بیٹھ گئی۔
اسکے بعد بطخ کی طبیعت اور بگڑ گئی اور ایسی بگڑی کہ اُسی موت ہو گئی۔ جب مرغی کے انڈوں سے بچے باہر نکلے تو ان میں ایک بطخ کا بچہ بھی تھا مرغ تو سب جان گیا تھا لیکن اُس نے مرغی کو بتانا مناسب نہ سمجھا۔مرغی نے بہت شور شرابہ کیا اور ب ولی:” میرے بچوں کے ساتھ بطخ کا بچہ نہیں رہے گا“۔مرغ نے اُسے بہت سمجھایا لیکن مرغی نے اُسکا کہا نہیں مانا۔
مرغی نے اپنے بچوں کو منع کر دیا کہ کسی کو بھی بطخ کے بچے سے بات نہیں کرنی ہے۔ سب نے مرغی کی بات مان لی لیکن دو چوزوں نے اپنی ماں کی بات نہ مانی ، وہ جو خود کھاتے ، اپنے ساتھ اُس بطخ کے بچے کو بھی کھلاتے۔ مرغی کو بطخ کے بچے سے سخت نفرت تھی ، وہ اُسے دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ایک دن مرغی کے ذہن میں خیال آیا کہ ہم سب مل کر دریا کے کنارے سیر کو جائیں گے ہم سب واپس آ جائیں گے اور بطخ کے بچے کو وہیں چھو ڑ آئیں گے یوں اس سے جان چھوٹ جائے گی۔
وہ لوگ سیر کو نکلے وہاں پہنچتے ہی ایک چوزہ دریا کے کنارے چلا گیا اور ڈوبنے لگا۔ یہ دیکھ کر مرغی زور زور سے چیخنے چلانے لگی چونکہ بطخ کے بچے کو تیرنا آتا تھا لہٰذا اُ س نے فوراََ دریا میں تیرنا شروع کر دیا اور اُس چوزے کو نکال کر باہر لے آیا۔مرغی نے جب دیکھا تو اُسے اپنے کئے پر بڑی شرمندگی ہوئی اور اُس نے بطخ کے بچے سے معافی مانگ کر اُسے اپنا بیٹا بنا لیا اس طرح وہ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
دیکھا بچو! کیسے بطخ کے بچے نے مرغی کو بچایا اور کیسے اُسکا بھلا ہوا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ کر بھلا سو ہو بھلا۔

Browse More Moral Stories