Kasai Miyan - Article No. 1772

Kasai Miyan

قصائی میاں - تحریر نمبر 1772

قصائی میاں کے ساتھ ایسا پہلی دفعہ ہو رہا تھا سیزن میں کام تلاش کرنا پڑ رہا تھا ورنہ اس موسم میں ان کا سر کھجانا دشوار ہو جاتا تھا

منگل 28 جولائی 2020

شاہ بہرام انصاری
بقر عید کی آمد آمد تھی اور قصائی میاں بہت پریشان تھے کیونکہ انہیں ابھی تک کسی جانور کو ذبح کرنے کا آرڈر نہیں ملا تھا۔صبح سے وہ چار پائی پر سر جھکا کر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اگر آرڈر نہ ملا تو فاقے کی نوبت آن پہنچے گی۔قصائی میاں کا اصل نام تو اکرم تھا۔
ان کے آباؤ اجداد ہندوؤں کی ظالمانہ کارروائیوں کی نذر ہو گئے تھے اور وہ بڑی مشکلوں سے جان بچاتے نئے وطن کی سرحد پار کر آئے تھے اس وقت ان کی عمر مشکل سے تیرہ برس ہو گی۔
ہاروڈ کراس کرنے کے بعد لاہور کے مہاجر کیمپ میں انہوں نے عارضی سکونت اختیار کر لی وہاں ان کی ملاقات نزدیکی قصبے سے آئے ہوئے بزرگ آدمی اور ان کی بیوی سے ہوئی جن کی اولاد نہیں تھی۔دونوں بڑھاپے میں زندگی بسر کر رہے تھے اور مدت سے پیاسے صحرا پر ابر برسنے کا انتظار کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

اکرم کو دیکھ کر دونوں کے دل میں اولاد کی آرزو کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور انہیں اکرم کو ہمراہ لے جانے پر اکسانے لگا۔

انہوں نے اسے اپنے ساتھ رہنے کا کہا اور اس کی رائے پوچھی کہ کیا وہ ان کے ساتھ جانا چاہتا ہے؟اکرم ان شفیق ہستیوں میں گھل مل گیا تھا اس لئے ان کے ہمراہ جانے پر تیار ہو گیا۔
دونوں نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا اور اس طرح وہ ان کے ساتھ رہنے لگا۔بزرگ نے اپنا نام معراج دین بتایا تھا۔وہ قصاب کے پیشے سے وابستہ تھے ان کا گھر چھوٹا سا تھا جو تھوڑے سے صحن اور ایک کمرے پر محیط تھا یہ گھر اکرم کے گھر کی نسبت کافی چھوٹا سہی لیکن یہاں آکر اس کو سکون کا احساس ہوا تھا ماں باپ کا جو سایہ اس سے چھن گیا تھا۔
معراج دین اور ان کی بیوی کی صورت میں اسے دوبارہ مل چکا تھا۔سچ تو یہ تھا کہ دونوں نے اسے سگے بیٹے سے بڑھ کر پالا اسے پہلے پہل گھر والوں کی شدید یاد آتی لیکن ان دونوں کی رفاقت میں وہ انہیں بھلانے میں کامیاب ہو گیا۔
اماں اسے صبح سویرے جگا کر بھیجتی واپسی پر مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ کھلاتی اور سر پہ تیل لگا کے آنکھوں میں سرمہ ڈالتی پھر معراج بابا اسے گاؤں کے ماسٹر کے پاس پڑھنے چھوڑ آتے۔
اکرم کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا چنانچہ اس نے پڑھائی کے معاملے میں گھٹنے ٹیک دئیے معراج بابا اسے اپنے ساتھ مکان پر لے کر جانے لگے کچھ عرصہ بعد اماں کا انتقال ہو گیا۔اکرم غمزدہ رہنے لگا کیونکہ اسے ان کی وفات کا گہرا رنج ہوا تھا۔اس کا دکان پر جی نہ لگتا تھا معراج بابا نے یہ سوچ کر اسے قصائی کے کام پر لگا دیا کہ اس کا دھیان بٹا رہے گا۔
اب اکرم بڑا ہو گیا تھا اس لئے اس کی شادی ہوگئی اور معراج بابا بھی دار فانی سے کوچ کر گئے اکرم کو بہت دکھ ہوا اس نے بھی معراج بابا اور اماں کی خدمت کرتے ہوئے اپنے بیٹے ہونے کا حق ادا کر دیا تھا۔
اب اکرم اپنے قصبے کا ماہر قصائی تھا اور اسی بدولت”قصائی میاں“کہلایا جانے لگا تھا۔قصائی میاں جانوروں کی فطرت سے اس قدر آشنا ہو چکے تھے کہ ان کی آوازیں سمجھ لیتے تھے۔
عید الاضحی کی آمد پر ان کی مصروفیت حد سے تجاوز کر جاتی لیکن اس بار یہ با رونق تہوار جانوروں کی کمی کے باعث ادھورا لگ رہا تھا۔قصائی میاں کے ساتھ ایسا پہلی دفعہ ہو رہا تھا سیزن میں کام تلاش کرنا پڑ رہا تھا ورنہ اس موسم میں ان کا سر کھجانا دشوار ہو جاتا تھا اس ساری برائی کی جڑ قصبے کی بکرا منڈی کا مالک ریحان بٹ تھا قصبے میں اس کے علاوہ دوسرا کوئی جانور فروخت کرنے والا نہیں تھا اسی بات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں دگنی کر دی تھیں اپنے تئیں اس نے پوری کوشش کی تھی جتنا زیادہ ہو سکے بستی کے لوگوں سے رقم بٹور لی جائے اگر قصائی میاں یا کوئی اور شخص اس سے شکایت کرتا تو وہ انہیں جانور دینے سے انکار کر دیتا۔

قصائی میاں نے ریحان کی بیوی سے شائستہ الفاظ میں مدد کی درخواست کی۔اس کی بیوی بہت صابر اور کفایت شعار خاتون تھی اس نے قصائی میاں کی بات کو سمجھ لیا اور ریحان کو سمجھانے لگی۔”دیکھو ریحان میں آپ کو غلط سمت چلنے سے روکنا چاہتی ہوں۔آپ جانوروں کی قیمتیں بڑھا کر قصبے کے لوگوں کی خوشیوں میں حائل ہو رہے ہیں جبکہ وہ پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں آپ کو تو چاہئے تھا کہ آپ قربانی کے جانوروں کو مناسب ریٹ پر بیچتے لیکن اب چند لوگ جو قربانی کرنے کی استطاعت رکھتے تھے وہ بھی جانور خریدنے سے قاصر ہو گئے ہیں۔
عید الاضحی اور قربانی کے جانور لازم وملزوم ہیں لیکن آپ کے لالچ و خود غرضی نے انہیں واپسی کے لئے رات سفر باندھنے پر مجبور کر دیا ہے اگر آپ ایسے عمل کے بجائے لوگوں کو سستے داموں جانور دیتے تو ان کی قربانی میں آپ بھی ثواب کے حصے دار ٹھہرتے۔آپ اپنی اصلاح کرکے اب بھی یہ نیکی کما سکتے ہیں۔
ریحان بٹ پر اس کی بیوی کی باتیں اثر کر گئیں اور اس نے منڈی جا کر تمام جانور بلا نفع بیچنے کا اعلان کر دیا۔
قصبے کے رہائشیوں نے خوشی خوشی سارے جانور خرید لئے اور عید کے دن قصائی میاں کے آگے مختلف جانوروں اور ان کو ذبح کرانے والوں کا ہجوم تھا ایک کے بعد ایک جانور کی گردن پر چھری پھیر کر قصائی میاں اسے جلدی جلدی قربان کر رہے تھے کیونکہ ابھی انہیں اپنا اور ریحان کا بکرا بھی ذبح کرنے جانا تھا۔

Browse More Moral Stories