Khana Chor - Article No. 2202

Khana Chor

کھانا چور - تحریر نمبر 2202

مس!مجھے پتا ہے کہ وہ کون ہے جو لنچ کھا رہا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے رنگے ہاتھوں پکڑیں

بدھ 2 مارچ 2022

عائشہ اطہر
دانی کو مطالعے کا نیا نیا شوق ہوا تھا اور وہ بھی جاسوسی کہانیوں کا۔دن بھر جاسوسی کہانیاں پڑھتے پڑھتے وہ خود کو بھی کسی جاسوسی کہانی کا حصہ لگنے لگا تھا۔ان کی پُرتجسس نگاہیں مسلسل کسی مشن کی تلاش میں رہتی تھیں اور ہر شخص اسے چلتا پھرتا کیس نظر آتا تھا۔
اسکول میں اسپورٹس ڈے کی تیاریوں کی وجہ سے بچوں کا صبح کا وقت گراؤنڈ میں گزرتا تھا۔
کلاس میں داخل ہوتے وقت بچوں کی تھکن اور بھوک کا عالم ہی اور ہوتا تھا اور لنچ بریک کا انتظار مشکل ہوتا تھا۔گھنٹی بجتے ہی بچوں نے اپنے اپنے کھانے کے ڈبے اُٹھائے اور باہر جانے لگے۔
”ارے میرے ٹفن سے کھانا کہاں غائب ہو گیا؟“جعفر کی آواز آئی۔
”کیا مطلب؟“عمر نے پوچھا۔

(جاری ہے)


”مطلب یہ کہ میرا کھانے کا ڈبا خالی ہے۔میں نے خود امی کو اس میں لنچ رکھتے ہوئے دیکھا تھا۔

“اس نے مس فرزانہ سے شکایت کی۔
”بچو!اگر آپ میں سے کسی نے جعفر کا کھانا لیا ہے تو بتا دے،ورنہ ہم تلاشی لیں گے۔“مس فرزانہ نے خبردار کیا۔
”نہیں مس!ہم نے نہیں لیا۔آپ تلاشی لے سکتی ہیں۔“بچوں نے خاصا بُرا مان کر کہا۔
مس فرزانہ نے تمام بچوں کا لنچ چیک کیا،مگر وہ کہیں ہوتا تو ملتا۔
”بیٹا!آپ مجھ سے پیسے لے لیں اور کینٹین سے کچھ لے لیں۔
“مس فرزانہ نے پیشکش کی،لیکن جعفر نے صاف انکار کر دیا۔
دانی نے جعفر کو اپنا آدھا حصہ دے دیا۔
دوسرے دن حسن نے کھانا چوری ہونے کی شکایت کی۔
”کون ہو سکتا ہے؟آخر کون ہو سکتا ہے؟“دانی سوچ میں پڑ گیا۔اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔یہ امر چپڑاسی بھی تو ہو سکتا ہے۔ وہ سارے وقت کوریڈور میں گھومتا رہتا ہے۔اوہ مجھے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟یہ تو سامنے کی بات ہے۔

دانی پرنسپل کے دفتر میں گیا اور کہا:”مس!آپ کو پتا ہے کہ ہماری کلاس سے روز لنچ چوری ہو رہے ہیں اور مجھے پتا ہے وہ امر چپڑاسی ہے جو یہ حرکت کر رہا ہے۔اس کی ڈیوٹی ہمارے کوریڈور میں ہی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔“دانی نے پُریقین لہجے میں کہا۔
مس عادلہ کے چہرے کے تاثرات بدل رہے تھے۔وہ بولیں:”امر ہمارا بیس سال پُرانا ملازم ہے اور آپ کے والد کی عمر کا ہے۔
کیا وہ بچوں کا کھانا چوری کرے گا؟آئندہ آپ نے بغیر تحقیق کسی پر الزام لگایا تو آپ سے بازپرس ہو گی۔اب جا سکتے ہیں۔“مس عادلہ نے اچھی خاصی ڈانٹ پلا دی۔
دانی شرمندہ ہو کر نہایت بوجھل دل کے ساتھ کلاس میں داخل ہوا اور اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔
دانی نے محسوس کیا کہ کھیل کے دوران عمران عموماً واش روم جاتا تھا۔
ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ فزکس کے سر واجد نے دانی سے اس کے ہوم ورک کا پوچھا۔

”سر!میں کل ہوم ورک کرنا بھول گیا تھا۔“دانی نے سر کھجایا۔
”دانی!آپ اسپورٹس میں نہیں جائیں گے،بلکہ لائبریری میں بیٹھ کر اپنا کام مکمل کریں گے۔“سر واجد نے دانی کو ہدایت کی۔
دانی کی تو من کی مُراد بَر آئی۔
لائبریری سے وہ مسلسل عمران کی نگرانی کر سکتا تھا۔جیسے ہی عمران نے واش روم کے بہانے کلاس کی طرف قدم بڑھائے دانی نے بھی فوراً کلاس کا رُخ کیا اور دیکھا کہ عمران اسد کے بستے میں سے لنچ نکال کر کھا رہا ہے۔
دانی سوچتا جا رہا تھا کہ کیا کرے پھر اس نے مس فرزانہ سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
”مس!مجھے پتا ہے کہ وہ کون ہے جو لنچ کھا رہا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے رنگے ہاتھوں پکڑیں۔“
”یار جعفر!آج میری امی نے کھانے میں بہت زبردست چیز تیار کی ہے۔“دوسرے دن صبح دانی نے عمران کو سنانے کے لئے زور سے کہا:”وقفے میں کھاؤں گا اُس وقت زیادہ بھوک لگتی ہے۔

حسب توقع عمران نے کھیلوں کے دوران واش روم کا بہانہ بنا کر کلاس کا رُخ کیا اور سیدھا دانی کے بیگ میں سے لنچ باکس نکالا۔برگر کھانے کے لئے اس نے جیسے ہی منہ کھولا مس فرزانہ کی آواز آئی:”ٹھہریے عمران!“
عمران کے ہاتھ سے برگر نیچے گر گیا اور اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔کلاس میں مس فرزانہ کے علاوہ چپڑاسی بھی تھا۔
”عمران!یہ کیا حرکت ہے؟“مس فرزانہ کو غصہ آ گیا۔

”مس!میری امی آفس میں کام کرتی ہیں۔انھیں صبح جلدی جانا ہوتا ہے اور وہ مجھے پیسے پکڑا دیتی ہیں۔پیسے بچانے کی خاطر مجھ سے یہ غلطی ہوئی۔مجھے معاف کر دیں آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔“عمران روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
عمر نے تعریفی نظروں سے دانی کو دیکھا:”بھائی دانی!تم تو اچھے خاصے جاسوس ہو۔“
”ہاں بس اس چکر میں ڈانٹ خاصی کھانی پڑ گئی۔“دانی کو پرنسل اور سر واجد کی ڈانٹ یاد آ گئی۔

Browse More Moral Stories