Khata Ka Putla - Article No. 859

Khata Ka Putla

خطا کا پُتلا - تحریر نمبر 859

پروفیسر فہیم ریاضی کاپیریڈلے رہے تھے اور طلباء کوجیومیٹری کی کچھ اشکال اور سوالات سمجھارہے تھے جب وہ کام کرواچکے تو اس پوچھنے لگے۔۔۔

جمعرات 5 نومبر 2015

شاہ بہرام انصاری:
پروفیسر فہیم ریاضی کاپیریڈلے رہے تھے اور طلباء کوجیومیٹری کی کچھ اشکال اور سوالات سمجھارہے تھے جب وہ کام کرواچکے تو اس پوچھنے لگے”بچو بتاؤ یہ سوال سمجھ میں آگئے یانہیں؟کچھ یوں نے ہاں میں جواب دیا،کچھ گردن ہلا کر انہیں رام کرنے لگے۔ اتنے میں سرفہیم کی نظر آخری ڈیسک پر براجمان ثاقب پرپڑی وہ اپنی عینک اتارکررومال سے اسے صاف کر رہا تھا۔
ہاں بھئی ثاقب بیٹاتم بتاؤ،میں نے ابھی جو سوال سمجھائے ہیں کیا ن کا طریقہ سمجھ میں آگیا ہے؟توثاقب کے بولنے سے قبل ہی نعمان کہنے لگا۔ سر اس عینکو کوکیا سمجھ آئے گی۔نعمان یہ کیا بدتمیزی ہے۔کیا تمہیں کمرہٴ جماعت میں بیٹھنے کے آداب نہیں؟ سرفہیم کی آواز پر جماعت میں سکوت چھاگیا۔

(جاری ہے)


نعمان کاتعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے جبکہ ثاقب متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔

اس کے والد کی ماہانہ قلیل آمدن سے بمشکل گھرکاخرچہ چل رہاتھا۔ثاقب صبح سکول جاتا اور چھٹی کے بعد دوپہر سے شام تک ایک درزی کی دکان پرکام کرتا تھا۔ اتنی مشقت کے بعد اس کے ہاتھ پچاس روپے والا نوٹ تھمادیا جاتا۔گھر آکر وہ رات گئے کسی سکول کاکام مکمل کرتا اور سبق یادکرتا۔سارا دن نظر کاکام کرنے کی وجہ سے اسے موٹے شیشوں والی عینک لگ گئی۔
اس دن کے بعد ثاقب جب بھی سکول جاتا تمام کلاس فیلو اور سکول کے لڑکے اس کامذاق اُڑاتے۔
ثاقب ایک دُبلا پتلا اور شریف بچہ تھا اس لئے وہ انہیں کچھ کہنے کی بجائے خاموش رہتا۔نعمان کی ثاقب سے نہ جانے کیا مخالفت تھی کہ وہ ہمیشہ اتس نقصان پہنچانے کی ناک میں رہتا۔نعمان نے ثاقب کے بہت رعجیب نام رکھے ہوئے تھے اور وہی اسے سب سے زیادہ تنگ کرتا تھا۔

سرفہیم کاپیریڈختم ہوتے ہی نعمان پھر شروع ہوگیا اور آج اور توثاقب بھی اپنی توہین برداشت نہ کرسکا اس کے منہ سے بے اختیار نعمان کیلئے بددعا نکلی۔شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی کیونکہ اسی رات جب نعمان معمول کے مطابق کمپیوٹر سے اٹھاتو اسے اپنے اردگرد دھندلا سادکھائی دیا پھر اس کی نگاہ سے اپنے کمرے کے سامنے کی سیڑھیاں بھی اوجھل ہونے لگیں اس نے صورتحال کوقابو میں نہ دیکھتے ہوئے چیخنا شروع کردیا۔
اس کی امی اور ابو دوڑتے ہوئے اس کے کمرے میں آئے۔ان کے پڑوسی ندیم آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔ڈاکٹر ندیم آنکھوں کامعائنہ کرکے بتایاکہ اس کی نظر کمزورہوگئی ہے اور اسے عینک کی ضرورت ہے۔ نعمان کے یہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
دوتین دن بعد وہ سکول جانے کے قابل ہوا تو اس کے سارے فرینڈز نے حسب عادت اس کابھی مذاق اُڑایا۔ تھوڑی دور جاکر اسے ثاقب اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔
وہ فوراََ پیچھے مڑنے لگا تھا کہ ثاقب لے اسے آواز دے کر روک دیا پنی بے عزتی کے ڈر سے نعمان کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ثاقب نے اس کے قریب آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو نعمان کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو۔ثاقب نے اس نے اس سے کچھ کہنے کیلئے لب ہلائے ہی تھے کہ اس سے بیشتر نعمان بول اٹھا ثاقب پلیز مجھے معاف کردومیں غلطی پرتھا تمہارا مذاق اُڑاتا تھا اللہ نے مجھے تمہیں ستانے کی سزادے دی ہے۔اب میں عمر بھر اس کو بھگتوں گا۔ نعمان کے آنسو دیکھ کرثاقب کادل پسیج گیااور وہ اسے درد مندانہ لہجے میں حوصلہ دینے لگا۔نہیں میرے دوست انسان توخطا کاپتلا ہے جانے انجانے میں اس غلطی ہوہی جاتی ہے۔میرے لئے یہی کافی ہے کہ تم راہ راست پر آگئے ہو۔

Browse More Moral Stories