Khawahish Ka Anjaam - Article No. 2131

Khawahish Ka Anjaam

خواہش کا انجام - تحریر نمبر 2131

تم جس چیز کو ہاتھ لگاؤ گے وہ سونے کی بن جائے گی

پیر 6 دسمبر 2021

روبینہ کوثر
یونان پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔بادشاہ کو دولت سے بہت پیار تھا۔سونے کا تو وہ دیوانہ تھا اسے دن رات ایک ہی فکر تھی کہ زیادہ سے زیادہ سونا جمع کیا جائے۔جب وہ صبح سویرے سورج کی کرنوں کو دیکھتا تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش یہ سنہری کرنیں جس چیز پر پڑیں اسے سونے کا بنا دیں۔سونے کی اینٹوں،برتنوں اور زیورات سے بھرا بادشاہ کا خزانہ محل کے ایک تہہ خانے میں تھا۔
بادشاہ کو جب فرصت ملتی وہ تہہ خانے میں چلا جاتا سونے کی اینٹوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا۔سونے کے برتنوں کو اُٹھا اُٹھا کر دیکھتا۔
ایک دن بادشاہ تہہ خانے میں سونے کی چیزوں کو دیکھ رہا تھا۔اچانک کمرے میں روشنی پھیل گئی۔بادشاہ چونک گیا۔کمرہ ہر طرف سے بند تھا۔

(جاری ہے)

روشنی کہاں سے آگئی ابھی وہ یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ روشنی کے درمیان میں ایک شخص نظر آیا بادشاہ سمجھ گیا کہ بند کمرے میں آنے والا کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔

ضرور یہ کوئی خاص آدمی ہو گا۔بادشاہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس شخص نے کہا بہت سونا جمع کر رکھا ہے آپ نے۔بادشاہ نے کہا یہ تو بہت تھوڑا ہے میری خواہش ہے کہ اس طرح کے کئی خزانے ہوں۔اجنبی حیران ہو کر بولا۔اتنی دولت سے بھی تمہارا دل نہیں بھرا۔بادشاہ نے کہا دولت سے بھی بھلا کسی کا دل بھرتا ہے۔یہ تو جتنی بھی مل جائے کم ہے اجنبی نے کہا تم چاہتے کیا ہو۔
بادشاہ نے جواب دیا میں چاہتا ہوں کہ جس چیز کو میں ہاتھ لگاؤں وہ سونے کی بن جائے۔اجنبی نے کہا ٹھیک ہے کل صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی تم جس چیز کو ہاتھ لگاؤ گے وہ سونے کی بن جائے گی۔اس کے ساتھ ہی اجنبی نے بادشاہ سے کہا ایک منٹ کے لئے آنکھیں بند کرو۔ بادشاہ نے آنکھیں بند کر لیں اور جب دوبارہ کھولیں تو کمرے میں وہ اکیلا تھا۔اجنبی جا چکا تھا۔

دوسرے دن بادشاہ کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔وہ بہت خوش تھا جوں ہی سورج طلوع ہوا۔سورج کی سنہری کرنیں اندر آئیں۔بادشاہ حیران رہ گیا۔بادشاہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا وہ سونے کی بن جاتی بستر کی چادر سونے کی بن گئی اس نے میز پر سے عینک اُٹھا کر آنکھوں پر لگائی اسے کچھ نظر نہ آیا کیونکہ عینک ساری کی ساری سونے کی بن گئی تھی۔ناشتے کا وقت ہو گیا تھا۔
میز پر طرح طرح کے لذیذ کھانے موجود تھے۔بادشاہ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ اتنے میں ننھی شہزادی ہاتھ میں سنہرے رنگ کا گلاب کا پھول لے آئی اس نے روتے ہوئے کہا۔ابا جان میں باغ میں پھول توڑنے گئی تھی لیکن وہ سب پتھر کی طرح سخت ہو گئے ہیں۔پیاری بیٹی بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا اس میں رونے کی کونسی بات ہے۔اب تو یہ سونے کے بن گئے ہیں اور پہلے سے زیادہ خوبصورت اور قیمتی ہو گئے ہیں تم اطمینان سے ناشتہ کرو یہ کہہ کر بادشاہ نے چائے دانی اُٹھا کر پیالی میں چائے ڈالنے کی کوشش کی۔
لیکن چائے دانی سونے کی بن گئی پیالی سونے کی اور پیالی میں چائے پگھلا ہوا سونا تھی۔سونا کون پی سکتا ہے اس نے روٹی مکھن انڈے اور مچھلی کھانے کی کوشش کی۔لیکن اس کا ہاتھ لگتے ہی ہر چیز سونا بن جاتی۔
میں کھاؤں پیئوں کیسے؟کیسے کھائے پیئے بغیر زندہ رہوں گا۔بادشاہ پریشان ہو گیا۔شہزادی تھوڑے فاصلے پر ہنسی خوشی کھانے میں مصروف تھی۔اس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کا باپ کچھ پریشان سا ہے وہ اس کے پاس آ کر بولی بابا جان خیریت تو ہے آپ پریشان نظر آ رہے ہیں۔
بادشاہ نے پیار سے اس کی پیشانی کو چوما بادشاہ کو بالکل یاد نہ رہا کہ اس کے چھونے سے ہر چیز سونے کی بن جاتی ہے شہزادی بھی سونے کی بن چکی تھی اس کے کالے بال سنہری ہو گئے تھے۔جسم پتھر کی طرح سخت ہو گیا تھا یہ دیکھ کر بادشاہ زار و قطار رونے لگا اور کہا اے اللہ یہ میں نے کیا کیا؟کاش میری شہزادی دوبارہ زندہ ہو جائے۔
اچانک کل والا اجنبی نمودار ہوا اور مسکرا کر کہنے لگا کہو کیا حال ہے؟اب تو خوش ہو بہت سونا جمع ہو گیا تمہارے پاس۔
بادشاہ کہنے لگا”میری بچی میری شہزادی مجھ سے جدا ہو گئی میں کچھ کھا پی نہیں سکتا ایسے سونے کا میں کیا کروں“۔اجنبی نے کہا اس کا مطلب ہے تمہیں حقیقت کا پتہ چل گیا ہے بتاؤ سونا اچھا ہے یا پانی کا ایک گھونٹ بادشاہ نے جواب دیا پانی کا ایک گھونٹ اجنبی نے پھر پوچھا سونا اچھا ہے یا روٹی کا ایک نوالہ بادشاہ نے کہا روٹی کا ایک نوالہ دنیا بھر کا سونا بھی روٹی کے نوالے کا مقابلہ نہیں کر سکتا اجنبی نے پھر پوچھا سونا اچھا ہے یا پھر بیٹی۔
بادشاہ چیخ کر بولا”میری پیاری بیٹی پر میں اپنا تمام خزانہ قربان کرنے کو تیار ہوں“۔اجنبی نے کہا ٹھیک ہے تم تالاب میں جاؤ اور اس کا پانی تمام چیزوں پر چھڑکو جو تمہارے چھونے سے سونے کی بن گئی تھیں اور آئندہ سچے دل سے توبہ کرو کہ آئندہ کبھی اس طرح دولت کا لالچ نہیں کرو گے۔بادشاہ نے سچے دل سے توبہ کی اور تالاب میں کود گیا۔پھر اس نے پانی لا کر تمام چیزوں پر چھڑکا ہر چیز اصلی حالت میں آگئی شہزادی پر چھڑکا تو وہ پھر گوشت پوست کی لڑکی بن گئی اس نے حیرت سے پوچھا بابا میرے کپڑے کیسے گیلے ہو گئے یہ تو خشک تھے بادشاہ نے اسے گلے لگایا اور اسے پوری بات بتائی پھر باپ بیٹی نے مل کر ناشتہ کیا اور باغ میں جا کر پھولوں کی خوشبو سے لطف اُٹھانے لگے۔

Browse More Moral Stories