Khodar - Article No. 1091

Khodar

خوددار - تحریر نمبر 1091

واپسی پر صفوان کے بابا کی گاڑی جیسے ہی وہاں سے گزرتی تو کبھی کبھی بابا مزدوروں کو بلا کر کچھ پیسے دیتے کبھی جلدی میں ہونے کی وجہ سے آگے بڑھ جاتے

ہفتہ 10 مارچ 2018

مہ جبین تاج ارزانی
صفوان کے گھر کے قریب ایک بڑی عمارت بن رہی تھی جس میں بہت سے مزدور کام کررہے تھے ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے اسکول آتے جاتے وہ اس عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں کو دیکھا کرتا تھا خاص طور پر چودہ پندرہ سال کے لڑکے کو جو صبح سب سے پہلے مزدوری والی جگہ پر موجود ہوتا اسکول سے واپسی پر صفوان کے بابا کی گاڑی جیسے ہی وہاں سے گزرتی تو کبھی کبھی بابا مزدوروں کو بلا کر کچھ پیسے دیتے کبھی جلدی میں ہونے کی وجہ سے آگے بڑھ جاتے لیکن وہ لڑکا بُلا نے پر بھی کبھی نہیں آیا پتا نہیں کیوں صفوان کی توجہ بار بار اس کی طرف کھینچتی تھی صفوان نے کسی سے اس کا نام پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا نام فرقان ہیں،
ایک دن بابا اور دادا نے اپنے مال کی سالانہ زکوٰة کا حساب لگایا رقم زیادہ تھی دونوں کا خیال تھا کہ زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں میں زکوٰة کی رقم تقسیم کردی جائے یہ سن کر صفوان خوش ہوگیا اس نے بابا کو فرقان کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس لڑکے کو زیادہ روپے دیے جائیں کیوں کہ وہ کبھی کسی سے کچھ مانگتا نہیں ہے۔

(جاری ہے)


دوسرے دن جب وہ وہاں پہنچے تو صفوان نے دور سے فرقان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا یہی ہے وہ لڑکا اس وقت فرقان سیمنٹ بجری سے بھری پرات سر پر رکھ کر دوسرے مزدور تک پہنچا رہا تھا ،بابا کے بلانے پر وہ آگیا بابا نے اس کی طرف کچھ نوٹ بڑھائے اور کہا،لے لو یہ تمہارے لیے ہیں۔
اس نے نوٹوں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تھا اور حیرانی سے پوچھنے لگا مگر کیوں؟
بابا نے کہا یہ زکوٰة کی رقم ہیں اس نے بابا کے ہاتھ میں پکڑے نوٹ نظر انداز کرتے ہوئے کہا میں بھکاری نہیں ہوں نہ میں اپاہج ہوں کہ زکوٰة کے روپوں سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ضرورتیں پوری کروں۔

یہ کہہ کر وہ تو پرات سنبھالتا ہوا چلا گیا مگر بابا اور صفوان کو حیران کرگیا صفوان نے بابا کی طرف دیکھا تو انہوں نے کندھے اُچکادیے پھر بابا عمارت بنانے والے ٹھیکے پھر بابا عمارت بنانے والے ٹھیکے دار کے پاس گئے انہوں نے ٹھیکے دار کو پوری بات بتاکر زکوٰة کی رقم مزدوروں میں تقسیم کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ فرقان کو تھوڑے زیادہ روپے دے دیے جائیں ٹھیکے دار ان کی بات سن کر مسکرایا اور بولا وہ لڑکا بھیک،زکوٰة خیرات اورصدقے کے روپے کبھی نہیں لیتا وہ اکثر مجھ سے قرض مانگتا ہے تاکہ بازار میں بریانی بیچ کر کچھ زیادہ پیسے کماسکے میں خود غریب آدمی ہوں اسے اتنا زیادہ قرض نہیں دے سکتا،یہ دن کر وہ دونوں گھر واپس آگئے مگر اسی وقت بابا نے بیس ہزار روپے نکالے اور صفوان کو ساتھ لے کر وہ دوبارہ فرقان کے پاس آگئے لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا بیٹا یہ قرض ہے جب تمہارا بریانی والا کام چل نکلے تو آہستہ آہستہ لوٹا دینا۔

فرقان حیرت خوشی اور آنسوﺅں سے بھری آنکھوں سے بابا کو دیکھ رہا تھا اس وقت صفوان کو بے حد خوشی ہوئی جب فرقان نے بابا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رقم لے لی اور گننے کے بعد دو ہزار بابا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا صاحب مجھے اٹھارہ ہزار کی ضرورت ہے آپ یہ دو ہزار واپس لے لیں۔
بابا مسکرائے بیٹا تم کاروبار شروع کرنے جارہے ہوں اس میں اندازے سے زیادہ روپے لگانے پڑتے ہیں رکھ لو ویسے بھی تمہیں یہ روپے واپس تو کرنے ہیں نا آج نہیں تو چند ماہ بعد بابا نے دو ہزار روپے بھی اس کی جیب میں اپنے ہاتھ سے رکھ دیے۔

سب واپس آگئے اس کے بعد فرقان اس عمارت میں دوسرے مزدوروں کے ساتھ نظر نہیں آیا تقریباً دو ماہ بعد صفوان کسی کام سے بازار گیا تو وہاں فرقان کو ایک جگہ بریانی کی دودیگوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اسے بے حد افسوس ہوا کہ دو دیگیں روزانہ بیچ کر بھی وہ قرض واپس نہیں کررہا گھر آکر اس نے بات بابا سے بھی کہہ دی وہ مسکرا کر بولے فرقان یقینا کوئی دوسری اہم ضرورت ہوگی جب ہی اس نے قرض واپس نہیں کیا ورنہ وہ ایسا لڑکا نہیں یہ سن کر صفوان خاموش ہوگیا چوتھے مہینے فرقان سات ہزار روپے لے کر آیا اور بابا کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا صاحب میں تو پڑھ لکھ نہیں سکا مگر اپنے بہن بھائیوں کو پڑھانا چاہتا ہوں تاکہ وہ بڑے آدمی اور اچھے انسان بن سکیں اسکول میں داخلے کی تاریخ آگئی تھی اس لیے آپ کا قرض لوٹانے سے پہلے میں نے جمع کی ہوئی رقم سے بہن بھائیوں کی اسکول کی فیس جمع کرادی ہیں اس لیے آپ کا قرض لوٹانے میں بھی تاخیر ہوگئی آپ کو بُرا تو نہیں لگا؟
بابا نے اس کی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا برا ضرور لگتا اگر تم اپنے بہن بھائیوں کا اسکول میں داخلہ روک کر میرا قرض واپس کرتے ایک دن صفوان اور اس کے بابا بازار سے گزرہے تھے کہ صفوان نے بابا کو بتایا بابا دیکھیں فرقان کے پاس دو کی بجائے ایک ہی دیگ ہیں دوسری کہاں گئی؟
بابا نے یہ سن کر گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور فرقان کے پاس آئے وہ انہیں دیکھ کر کھڑا ہوگیا کرسی پر بٹھایا اور بریانی کی پلیٹ پیش کی برابر والی دکان سے کولڈ ڈرنک خرید لایا وہ انہیں اپنی دکان پر دیکھ کر بہت خوش ہوا بریانی کھانے کے بعد بابا نے اس سے پوچھا فرقان بیٹا آپ کے پاس دو دیگیں تھیں نا دوسری نظر نہیں آرہی؟یہ دن کر وہ گڑ بڑا گیا پھر جھجکتے ہوئے بتانے لگا صاحب میرا ایک دوست ہیں کچھ دن پہلے بے چارے کے ابو کا ایک حادثے میں اچانک انتقال ہوگیا گھر میں کوئی کام کرنے والا نہیں فاقوں کی نوبت آگئی تھی اس لیے میں نے ایک دیگ اسے دے دی تاکہ وہ با عزت طریقے سے روزی کما سکے جس طرح اپنے مجھے بھکاری بننے سے بچایا تھا بالکل اسی طرح میں نے اپنے دوست کو بھکاری بننے سے بچالیا۔

بابا نے واپسی پر صفوان سے کہا تم اکثر پوچھتے ہونا کہ بڑا آدمی کون ہوتا ہے بڑا آدمی کیسے بنتے ہیں ؟بیٹا حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں فرقان سے زیادہ بڑا آدمی آج تک نہیں دیکھا دولت گاڑی،بنگلا،بینک بیلنس رکھنے والے لوگ بڑے نہیں ہوتے بلکہ خوددار،محنتی،ایمان دار اور انسانوں کی خدمت کرنے والا بڑا آدمی کہلانے کا مستحق ہے۔

Browse More Moral Stories