Khush Naseeb Parinda Kon - Article No. 2039

Khush Naseeb Parinda Kon

خوش نصیب پرندہ کون - تحریر نمبر 2039

ہم میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خصوصیات ہیں

پیر 16 اگست 2021

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل کے ایک درخت پر ایک سیانہ کوا رہتا تھا۔کوا بہت خوش حال زندگی گزار رہا تھا۔بغیر کسی فکر کے وہ پورا دن گھومتا پھرتا اور طرح طرح کے کھانے پینے کا لطف اٹھاتا۔شام ہوتے ہی کسی پھل دار درخت پر رات بسر کرتا۔زندگی کے حسین دن اسی طرح گزرتے رہے۔ایک دن کوا جنگل گھومنے نکلا۔گھومتے گھومتے اسے ایک جھیل نظر آئی۔
یہ جھیل جنگل کے بیچوں بیچ تھی،جہاں کئی پرندے بسیرا کرتے تھے۔
کوا پانی پینے کے لئے جھیل کے پاس اُترا تو اس کی ملاقات ایک ہنس سے ہوئی۔جلد ہی ہنس اور کوا دوست بن گئے،لیکن کوا ہنس سے ملاقات کے بعد کچھ پریشان رہنے لگا۔اس کی پریشانی یہ تھی کہ ہنس اتنا سفید کیوں ہے اور میں اتنا کالا کیوں․․․․
کوا جھیل میں تیرتے ہنس کو دیکھ کر یہ سوچتا تھا کہ ہنس پانی میں اتنی آسانی سے مزے سے تیر سکتا ہے اور جو کچھ بھی وہ کھاتا ہے وہیں جھیل میں دستیاب ہے۔

(جاری ہے)

یہ ہنس دنیا کا سب سے خوش نصیب پرندہ ہے۔مجھے بھی ہنس جیسا بننا چاہیے،یہ سوچ کر کوے نے جھیل میں تیرنے کی کوشش کی لیکن وہ ڈوبنے لگا اور بڑی مشکل سے جھیل سے باہر آیا۔
کوے نے اپنے خیالات ہنس کو بتائے۔ہنس نے ہنستے ہوئے کہا پہلے مجھے بھی لگتا تھا کہ میں سب سے زیادہ خوش ہوں لیکن اس وقت تک میں نے طوطا نہیں دیکھا تھا۔”تمہیں پتہ ہے کہ طوطے کے پاس دو تین مختلف رنگوں کے ہرے پیلے نیلے پَر ہوتے ہیں،طوطا تو انسانی آواز کی نقل کر سکتا ہے اور اچھے اچھے پھل کھاتا ہے۔

یہ سن کر کوا سوچنے لگا کہ طوطا سب سے زیادہ خوش نصیب پرندہ ہو گا۔ہنس سے پتہ پوچھ کر کوا ایک طوطے کے پاس گیا،اور اس سے انسانی آوازوں کی نقل اسے سکھانے کو کہا۔کوے نے یہ آوازیں نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن صرف کاؤ کاؤ کی آوازیں نکلی۔
کوا افسردہ ہو گیا اور طوطے سے کہا،مجھے لگتا ہے کہ تم دنیا کے سب سے خوش نصیب پرندے ہو۔
طوطے نے کوے کو بتایا،پہلے یہ سوچ کر میں بھی بہت خوش ہوتا تھا،پھر میں نے ایک مور دیکھا․․․
میرے پاس تو صرف دو تین رنگ ہیں جبکہ مور کے پاس کئی رنگ ہیں۔
مور خوبصورت رقص کر سکتا ہے۔اس کی بہت بلند آواز ہے،اپنی آواز سے مور جنگل میں موجود دیگر مخلوقات کو کسی بھی خطرے سے خبردار کرتا ہے۔میرے خیال میں مور دنیا کا سب سے خوش نصیب پرندہ ہے۔
اب کوے کو مور سے ملنے کی تمنا ہوئی اور وہ مور سے ملنے جا پہنچا۔
وہاں کوے نے دیکھا کہ مور گھبرایا ہوا سا ہے اور خود کو جھاڑیوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے،کوا مور کے قریب گیا اور کہا:
”پیارے مور!تم بہت خوبصورت ہو،تمہاری پَروں میں کتنے سارے رنگ ہیں،تمہاری دلکشی اور خوبصورتی اور رقص کی تعریف تو پورا جنگل کرتا ہے۔
تم یوں جھاڑیوں میں کہاں چھپے بیٹھے ہو۔“
مور نے جواب دیا:”او پیارے کوے،میرے ان ہی پَروں نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا۔میرے لمبے اور رنگین پنکھ کی وجہ سے،شکاری مجھے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں،بعض اوقات وہ مجھے چڑیا گھر میں بھی ڈال دیتے تھے۔اس وجہ سے میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اگر میں چڑیا ہوتا تو خوشی خوشی ہر جگہ گھوم سکتا تھا اور اگر کوئی خطرہ ہوتا ہے تو آسانی سے چھپ سکتا تھا۔

کوے نے کہا:”میرا تو یہ خیال تھا کہ تم دنیا کے سب سے خوش نصیب پرندے ہو گے۔“
مور نے کہا”میں بھی سوچتا تھا میں سب سے خوبصورت اور خوش نصیب پرندہ ہو لیکن اپنی خوبصورت کی وجہ سے میں چھپتا پھرتا ہوں۔“
اس کے بعد مور نے کہا کہ میں نے کافی غور کیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ صرف کوا وہ واحد پرندہ ہے جسے کوئی شکاری نہیں پکڑتا جو کسی پنجرے میں قید نہیں،پچھلے کچھ دنوں سے مجھے یہی لگتا ہے کوا ہی سب سے خوش نصیب پرندہ ہے اور میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اگر میں کوا ہوتا تو خوشی خوشی ہر جگہ آزادی سے گھوم سکتا تھا اور اگر کوئی خطرہ ہوتا تو آسانی سے چھپ جاتا۔

ایک عقل مند بوڑھا اُلو ایک درخت پر بیٹھا ہوا ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔اس نے کوے اور مور کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔
”ہم میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خصوصیات ہیں۔ہنس پانی میں تیر سکتا ہے۔طوطا انسانی آواز کی نقل کر سکتا ہے۔مور رقص کر سکتا ہے۔ چڑیا چھوٹی اور پھرتیلی ہوتی ہے۔میری طرف دیکھو۔میں تیراکی یا رقص نہیں کر سکتا لیکن مجھے اندھیرے میں بہت اچھی طرح سے دکھائی دیتا ہے۔
میں اپنی گردن کو پیچھے کی طرف موڑ سکتا ہوں اور اپنے پیچھے چیزیں دیکھ سکتا ہوں۔کیا یہ بہت اچھا نہیں ہے!جب دن کے وقت دوسرے تمام پرندے سخت محنت کر رہے ہوتے ہیں تو،میں اپنے گھونسلے میں سکون سے سو رہا ہوتا ہوں۔“
کوا مایوس ہوا کیونکہ اسے تو اپنی کسی خصوصیات کے بارے میں نہیں پتہ تھا۔اس نے اُلو کی بات کاٹی اور کہا،”مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں تمام پرندوں سے سب سے زیادہ ناخوش ہوں۔

اُلو مسکرایا اور جواب دیا،”فراست اور سمجھ بوجھ میں کوے کو دوسرے پرندوں میں برتری ہے،اُلو نے کوے سے پوچھا۔کیا تم نے پیاسے کوے کی کہانی نہیں سنی؟کوے مسئلے حل کرنے کے لئے کنکر جیسے اوزار استعمال کر سکتے ہیں!
کوا بہت ذہین اور عقل مند بھی ہوتا ہے۔اس کی یادداشت بہت تیز ہے اور وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے۔اسی لئے کسی بھی شکاری کا اسے پکڑنا اور نشانہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اُلو کو پرندوں میں بہت عقل مند مانا جاتا ہے۔اُلو نے کوے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ قدرت نے ہم میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ صلاحیتیں دی ہیں،ہم میں سے ہر ایک کسی ایک چیز میں بہترین ہیں۔ہمیں خود پر ترس کھانے کی بجائے محنت کرنی چاہئے اور جو کام ہم کرتے ہیں اس میں مہارت حاصل کرنا چاہئے۔“
پیارے بچو․․․․!اگر بغور جائزہ لیں تو ہم میں سے کچھ انسان بھی ایسے ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔
زندگی کا موازنہ کرتے کرتے ناشکری کرنے لگتے ہیں۔جو اللہ نے دیا ہوتا ہے اس سے لطف حاصل نہیں کر پاتے۔
اپنے پاس سو روپے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے ہزار پر نظر رکھنے کی وجہ سے بے چین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن انسان پھر بھی ناشکرا ہے۔اپنے سے زیادہ والے سے موازنہ احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔موازنہ کرنا ہی ہو تو اپنے سے کمتر سے کیجیے اور پھر اللہ کا شکر کیجیے جس نے بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔

Browse More Moral Stories