Khushbu - Article No. 2263

Khushbu

خوشبو - تحریر نمبر 2263

پھولوں کی صحبت میں رہنے والوں سے ہی خوشبو آتی ہے

پیر 23 مئی 2022

دادا ابو راشد کو تیار ہونے کا کہہ کر ذرا باہر گئے تھے،جاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ میں آدھ گھنٹے تک آتا ہوں،تب تک تم تیار ہو جانا جمعہ کی نماز کا وقت ہونے والا ہے،میرے ساتھ مسجد جانا۔”ٹھیک ہے دادا ابو“ راشد نے سعادت مندی سے جواب دیا تھا۔اب دادا ابو واپس آئے تو راشد بالکل بھی تیار نہیں تھا بلکہ مزے سے بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔
دادا ابو کا موڈ سخت خراب ہو گیا۔انہوں نے ناگواری سے پوچھا ”تم تیار کیوں نہیں ہوئے؟“ وہ دادا ابو․․․․راشد بولا ”امی نے کہا ہے کہ تمہارے کپڑے تیار نہیں ہیں میں استری کرنا بھول گئی تھی اب بجلی بھی چلی گئی ہے،اور وقت بھی نہیں ہے اس لئے تم اگلے جمعہ کو مسجد چلے جانا“ دادا ابو چلے گئے لیکن وہ بہت ناراض دکھائی دے رہے تھے۔

(جاری ہے)


رات کے کھانے کے بعد دادا ابو نے راشد کی امی کو بلایا اور کہا ”آپ نے مجھے بہت مایوس کیا ہے،اگر ماں بچے کو جمعہ کی اہمیت نہیں بتائے گی تو بچے کو نماز کی عادت کیسے پڑے گی؟آپ نے راشد کے کپڑے تیار نہیں کئے اور کہہ دیا اگلے جمعہ کو مسجد چلے جانا اب رہنے دو“ راشد کی امی یہ سن کر ششدر سی رہ گئیں،انہوں نے راشد کی الماری سے اس کے دو شلوار سوٹ جو انہوں نے استری کرکے ہینگر میں لٹکا رکھے تھے لا کر دادا ابو کے سامنے رکھ دیئے،اب دادا ابو ساری بات سمجھ گئے،انہوں نے راشد کو بلایا جو اپنی امی کو وہاں دیکھ کر اور ہینگر میں اپنے کپڑے دیکھ کر بات کو سمجھ گیا اور بولا ”مجھے معاف کر دیں دادا ابو،اصل میں میری پسند کے کارٹون لگے تھے ٹی وی پر میں وہ دیکھ رہا تھا،جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا،اس لئے ایسے کہہ دیا آئندہ ایسا نہیں کروں گا“ تم آئندہ بھی ایسے ہی کرو گے․․․․!!امی نے غصے سے کہا ”جو اپنی ماں سے غلط بات منسوب کر سکتا ہے دادا ابو اور ماں کے بیچ غلط فہمی پیدا کر سکتا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے“ ماما نے دادا ابو کو بتایا کہ کچھ عرصے سے راشد کی عادت جھوٹ اور چغلی کرنے کی ہو گئی ہے،کل اس نے باورچی خانے میں قیمتی چائے دان توڑ دیا اور ماسی پر الزام دھر دیا،جب میں باورچی خانہ میں گئی چائے دان کے ٹکڑے دیکھے تو راشد نے فوراً کہا ”ماسی یہاں تھی ابھی ابھی اوپر کے کمرے کی صفائی کرنے گئی ہے“ اب جو میں نے ماسی کو بلا کر پوچھ گچھ کی تو وہ رونے لگی کہ اس نے تو چائے دان کو ہاتھ تک نہیں لگایا،بعد میں پتہ چلا کہ راشد نے باورچی خانے کی الماری سے بسکٹ نکالتے وقت لا پرواہی سے کام لیا اس طرح چائے دان ٹوٹ گیا ”یہ تو بہت ہی غلط بات ہے دادا جان بولے“ اگر بچے میں جھوٹ یا چغلی کی عادت پختہ ہو جائے تو یہ نہ صرف اس کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ اردگرد کے لوگوں کے تعلق میں بگاڑ کا باعث بنتی ہے،اس لئے ہمیں کچھ کرنا ہو گا امی نے کہا ”ٹھیک ہے آپ اسے سمجھائیں ان عادات کے نتائج سے آگاہ کریں اور میں بھی کوشش کرتی ہوں“ لیکن ایک بات ہے․․․!دادا ابو نے کہا ”راشد میں پہلے یہ عادت نہیں تھیں،کچھ عرصہ پہلے ہی پیدا ہوئی ہیں“ بالکل یہ ہی بات ہے ماما نے کہا ”میں بھی یہ ہی سوچ رہی تھی کہ راشد پہلے ایسا نہیں تھا،سچ بولتا تھا چاہے اسے ڈانٹ ہی پڑے غلط بیانی سے کام نہیں لیتا تھا“ ” اس کے لئے ہمیں کھوج لگانا پڑے گا کہ ایسا کیوں ہے“ دادا ابو نے کہا۔


اگلے روز راشد کی امی اس کے سکول گئیں تو اس کی کلاس ٹیچر اور پرنسپل سے پتہ چلا کہ راشد کا کلاس میں بھی یہ ہی رویہ ہے،راشد اور اس کا دوست فرحان مل کر دوسروں کو تنگ کرتے ہیں،لڑائیاں کرواتے ہیں،جب ٹیچر تک بات پہنچتی ہے تو صاف مکر جاتے ہیں،راشد کی امی نے کلاس ٹیچر سے کہا ”پہلے تو فرحان نام کا اس کا کوئی دوست نہیں تھا؟یہ کب سے اس کا دوست ہے“ ٹیچر نے بتایا ”کہ فرحان تین ماہ پہلے ہی سکول میں داخل ہوا ہے پہلے یہ کسی دوسرے شہر میں تھا اس کے والد کا تبادلہ یہاں ہوا ہے اس لئے وہ اس سکول میں داخل ہوا ہے“ راشد کی امی اور ٹیچر نے جب یہ محسوس کیا کہ فرحان سے دوستی کے بعد راشد کے رویہ میں تبدیلی آئی ہے تو انہوں نے راشد کو فرحان سے دور کرنے کی کوشش کی،ٹیچر نے فرحان کو الگ بٹھانا شروع کر دیا،اس سے پہلے یہ ایک ہی سیٹ پر بیٹھتے تھے۔
امی جان اور ٹیچر نے آہستہ آہستہ ان دونوں کو بُری عادات کے نقصانات کے بارے میں سمجھانا شروع کیا۔
اصل میں فرحان بہت بگڑا ہوا بچہ تھا،اس کی دوستی کی وجہ سے راشد میں بُری عادات پیدا ہوئی تھیں،اب ٹیچر اور امی کے سمجھانے سے راشد سدھر گیا تھا اور اپنی حرکتوں پر شرمندہ بھی تھا،اسے احساس ہو گیا تھا کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی وہ چل نہیں سکتا،ایک نہ ایک دن کھل جاتا ہے اور پھر شرمندگی ہوتی ہے۔
اور اسے بڑوں کے سمجھانے سے یہ بات بھی سمجھ آ گئی تھی کہ بُری صحبت سے بچنا چاہیے،اس کا بہت نقصان ہوتا ہے،بُری صحبت شخصیت تباہ کر دیتی ہے۔راشد کو یاد تھا کہ فرحان اسے کہتا تھا کہ یار جھوٹ بول دیا کرو اور مکر جایا کرو۔لیکن راشد کو اس کی بات پر عمل کرکے ہمیشہ شرمندگی ہی اُٹھانا پڑی تھی لیکن اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ سوچ سمجھ کر اچھی عادات والے لڑکے کو اپنا دوست بنائے گا کیونکہ پھولوں کی صحبت میں رہنے والوں سے ہی خوشبو آتی ہے۔

Browse More Moral Stories