Khushi Ka Darwaza - Article No. 2098

Khushi Ka Darwaza

خوشی کا دروازہ - تحریر نمبر 2098

خوشی کا دروازہ کہاں ہے اور کیسے کھلے گا

بدھ 27 اکتوبر 2021

جاوید بسام
رات کا وقت تھا۔آسمان پر چاند چمک رہا تھا،جس سے جاگیردار کی حویلی کی دیواروں پر چاندنی اُتر آئی تھی۔وہ ایک قدیم طرز کی عمارت تھی،جس کے ساتھ اونچا بُرج بھی تھا۔رات کے اس پہر بُرج کے اوپر والا حصہ روشن تھا۔اس کی کھلی کھڑکی سے جاگیردار کرسی پر بیٹھا نظر آ رہا تھا۔وہ گہری سوچ میں گم تھا۔کچھ دیر بعد وہ اُٹھا اور کھڑکی میں آ کر کھڑا ہوا۔
اس کی نظریں درختوں سے پرے اندھیرے میں گھور رہی تھی۔جہاں چمگادڑ پَر پھیلائے اُڑ رہے تھے۔وقفے وقفے سے اُلوؤں کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی دیتیں جو ایک درخت پر بیٹھے تھے ۔ان کی آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔
جاگیردار پلٹا اور آہستہ آہستہ بُرج کی سیڑھیاں اُترنے لگا۔اب وہ حویلی کے احاطے میں نکل آیا تھا،جہاں دور تک گھاس پھیلی تھی۔

(جاری ہے)

وہ ٹہلتا ہوا درختوں کے نیچے چلا گیا اور درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا،لیکن وہاں بھی زیادہ دیر نہیں رُکا،بلکہ آگے بڑھا اور احاطے میں چہل قدمی کرنے لگا۔اس کی نظریں زمین پر جمی تھیں۔
قریب ہی درخت پر دو اُلو بیٹھے تھے۔ایک بڑی عمر کا جہاں دیدہ اُلو تھا،جب کہ دوسرا نوجوان تھا۔
نوجوان اُلو نے پوچھا:”یہ جاگیردار رات کو یہاں کیوں گھومتا رہتا ہے؟“
”اسے نیند نہیں آتی۔
“جہاں دیدہ اُلو بولا۔
”کیا اسے کوئی پریشانی لاحق ہے؟“
”نہیں۔“جہاں دیدہ اُلو نے جواب دیا۔
”کیا خوش نہیں ہے؟“
”ہاں،خوشیاں اس سے روٹھ گئی ہیں۔“
”یہ اس علاقے کا سب سے بڑا جاگیردار ہے۔اس کی زمینیں سونے جیسی فصلیں اُگلتی ہیں۔اس سال فصلیں اتنی اچھی ہوئی ہیں کہ تمام گودام بھر گئے ہیں۔دو مہینے پہلے اس کے بیٹے کی شادی تھی۔
بڑے بڑے زمیندار،رئیس اور تاجر یہاں جمع تھے۔“
”پھر یہ خوش کیوں نہیں ہے؟“نوجوان اُلو نے سوال کیا۔
”خوشیاں،دولت سے نہیں خریدی جا سکتیں۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔
”مگر انسان عام طور پر پیسہ کما کر ہی خوش ہوتے ہیں۔“
”ہاں،جاگیردار کے لئے پیسہ کمانا معمول کی بات ہے۔“
”پھر اسے خوشی کیسے حاصل ہو گی؟“
جہاں دیدہ اُلو کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا:”اس کی خوشی کا دروازہ بند ہو گیا ہے،کیونکہ یہ ہمیشہ اپنی ذات کے لئے سوچتا ہے اور اپنے جیسے لوگوں سے ملتا جلتا ہے۔

”اور یہ دروازہ کیسے کھلے گا؟“نوجوان اُلو نے پھر سوال کیا۔
”اس کا جواب میں تمہیں صبح دوں گا۔“جہاں دیدہ اُلو نے کہا۔
اگلے دن دونوں ایک گھنے درخت پر بیٹھے تھے۔ان کی نظریں کچھ دور حویلی کے ایک کمرے کی کھڑکی پر جمی تھی،جہاں سے جاگیردار کرسی پر بیٹھا نظر آرہا تھا۔اس نے حویلی کے ایک کمرے کو اپنا دفتر بنا رکھا تھا۔
لوگوں کی آمد و رفت جاری تھی۔جاگیردار بڑے بڑے سودے کر رہا تھا اور نوٹ اپنی تجوری میں بھرتا جا رہا تھا،مگر اس کے چہرے پر بے زاری تھی۔دفتر کے دروازے پر دربان موجود تھا۔سب اس کی اجازت سے اندر جا رہے تھے۔اسی دوران وہاں ایک بوڑھی عورت چلی آئی اور دربان سے کچھ کہنے لگی،لیکن دربان نے اسے منہ نہ لگایا۔وہ پیچھے ہٹ گئی۔کچھ دیر بعد اس نے پھر کوشش کی،مگر دربان نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔

جہاں دیدہ اُلو نے نوجوان اُلو کو اپنے پَر سے ٹہوکا دیا اور بولا:”اس بوڑھی عورت کو دیکھ رہے ہو۔یہ ایک ہفتے سے یہاں آ رہی ہے۔اسے کچھ رقم کی ضرورت ہے تاکہ اپنی یتیم بیٹی کی شادی کر سکے،مگر دربان اسے جاگیردار سے ملنے نہیں دیتا۔“
”یہ عورت اس گاؤں کی نہیں لگتی ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ جاگیردار بہت کنجوس آدمی ہے۔وہ ایک دھیلے سے بھی کسی کی مدد نہیں کرتا۔
“نوجوان اُلو بولا۔
”نہیں یہ اسی گاؤں کی ہے۔بس اس کا دل کہتا ہے کہ یہ مدد لینے میں کامیاب ہو جائے گی۔“
”بہت مشکل ہے،خیر آپ مجھے جاگیردار کے مسئلے کا حل بتا رہے تھے۔“
”ہاں،اگر جاگیردار اس عورت کی مدد کر دے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔“
”کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟“نوجوان اُلو نے سوال کیا۔
”بالکل،مگر دربان بہت ظالم ہے وہ اسے ہر گز ملنے نہیں دے گا۔

نوجوان اُلو نے پَر پھڑپھڑائے اور درخت سے اُڑ گیا۔اس نے ہوا میں ایک چکر کاٹا پھر تیزی سے نیچے آیا اور دربان کے سر پر ٹھونک ماری۔ دربان گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔اُلو پھر اس کی طرف آ رہا تھا۔اس کے ارادے خطرناک تھے۔دربان اس سے بچنے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا۔اس طرح وہ دروازے سے ہٹ گیا۔بوڑھی عورت کے لئے یہ اچھا موقع تھا۔وہ فوراً دفتر میں داخل ہو گئی۔
جہاں دیدہ اُلو دل ہی دل میں نوجوان اُلو کی ہوشیاری پر شاباش دے رہا تھا۔آخر دربان نے ایک چھڑی ڈھونڈ لی اور اسے لہراتے ہوئے دفتر کی طرف بڑھا،مگر اتنی دیر میں عورت نے اپنی بات جاگیردار تک پہنچا دی تھی۔دربان نے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ کر دفتر سے باہر نکال دیا۔بوڑھی عورت آنسو پونچھتی وہاں سے رخصت ہو گئی۔
نوجوان اُلو اُڑتا ہوا اپنے ساتھی کے پاس آ بیٹھا اور بولا:”میں نے کوشش تو کی،لیکن لگتا ہے عورت کامیاب نہیں ہوئی۔

”اس نے اپنی بات جاگیردار سے کہہ دی ہے،لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔“جہاں دیدہ اُلو نے کہا۔
”یعنی میری محنت ضائع گئی؟“نوجوان اُلو مایوسی سے بولا۔
”ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔پھر دونوں وہاں سے اُڑ گئے۔
اسی رات نوجوان اُلو شکار کی تلاش میں بہت دور نکل گیا۔کئی دنوں بعد جب وہ واپس حویلی میں آیا تو وہاں سناٹا چھایا ہوا تھا۔
کچھ دیر بعد جہاں وہ دیدہ اُلو بھی اس کے پاس آ بیٹھا۔نوجوان اُلو نے فوراً پوچھا:”کیا بات ہے۔آج جاگیردار نظر نہیں آرہا؟“
”اس نے خوشی کا بدن دروازہ نیکی کی چابی سے کھول لیا ہے۔اب اسے جلدی نیند آجاتی ہے اور سکون سے سوتا ہے۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔
”کیا مطلب؟“نوجوان اُلو نے حیرت سے پوچھا۔
”جاگیردار نے اگلے دن بوڑھی عورت کو ایک موٹی رقم بیٹی کی شادی کے لئے دے دی تھی۔
وہ شادی میں خود بھی شریک ہوا۔اب وہ ایک ٹرسٹ بھی بنا رہا ہے جو غریبوں کی مدد کرے گا۔“جہاں دیدہ اُلو بولا۔
”واہ․․․․یہ تو بہت اچھا کام ہو گیا۔“نوجوان اُلو خوش ہو کر بولا۔
”ہاں،جو خوشی ضرورت مند کی مدد کرکے ملتی ہے وہ کسی دوسری چیز سے حاصل نہیں ہوتی۔“جہاں دیدہ اُلو دانائی سے بولا۔
نوجوان اُلو سر ہلانے لگا۔

Browse More Moral Stories